پنکج چترویدی
اس بار جاڑا پڑنے سے بہت پہلے، جب دہلی ہر بارش کے بعد ڈوب رہی ہے، سپریم کورٹ نے دہلی-این سی آر میں آلودگی پر قابو پانے کے لیے تشکیل دیے گئے کمیشن فار ایئر کوالٹی مینجمنٹ (سی اے کیو ایم) کو یہ بتانے کے لیے کہا ہے کہ وہ سردیوں میں آلودگی میں بے تحاشہ اضافہ سے کیسے نمٹے گا۔ جب اس بارے میں ایکشن پلان کی بات ہوئی تو دہلی حکومت کا ’’وِنٹرپلان‘‘ کے نام پر ایک نیا شگوفہ سامنے آگیا-مصنوعی بارش۔ اس سے پہلے طاق-جفت گاڑیاں چلانے اور پھر اسماگ ٹاور پر ایسی تشہیر کی جاتی رہی کہ بس اب دہلی کی ہوا صاف ہوئی۔ ان تجربات کے بری طرح ناکام ہونے کے بعد اب مصنوعی بارش کی ’رام-بان‘ بنا کر تشہیر کی جارہی ہے۔ دراصل یہ سمجھنا ہوگا کہ ماحولیات سے متعلق کسی بھی مسئلے کا مکمل حل کسی تکنیک میں نہیں، بلکہ خود پر قابو پانے میں ہے۔ تکنیک فوری طور پر کچھ راحت دے سکتی ہے لیکن وہ حل نہیں ہے۔
جس مصنوعی بارش کا جھانسہ دیا جا رہا ہے، اس کی تکنیک کو سمجھنا ضروری ہے۔ اس کے لیے ہوائی جہاز سے سلور آیوڈائیڈ اور کئی دیگر کیمیائی مادوں کا چھڑکاؤ کیا جاتا ہے، جس سے خشک برف کے ذرات تیار ہوتے ہیں۔ اصل میں سوکھی برف ٹھوس کاربن ڈائی آکسائیڈ ہی ہوتی ہے۔ سوکھی برف کی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ اس کے پگھلنے سے پانی نہیں بنتا اوریہ گیس کی شکل میں ہی غائب ہو جاتی ہے۔ اگر ماحول میں بادلوں میں تھوڑی بھی نمی ہوتی ہے تو یہ سوکھی برف کے ذرات پر چپک جاتے ہیں اور اس طرح بادل کا وزن بڑھ جاتا ہے ، جس سے بارش ہو جاتی ہے۔
ایک تو اس طرح کی بارش کے لیے ضروری ہے کہ فضا میں کم ازکم 40 فیصد نمی ہو، پھر یہ تھوڑی سی دیر کی بارش ہی ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی خطرہ قائم رہتا ہے کہ فضا میں کچھ اونچائی تک جمع اسماگ اور دیگر چھوٹے ذرات پھر زمین پر آجائیں گے۔ اس کے علاوہ سلورآیوڈائیڈ، سوکھی برف کے زمین پر گرنے سے اس کے رابطے میں آنے والے درختوں، پودوں، پرندوں اور جانداروں پر ہی نہیں، ندی-تالاب پر بھی کیمیائی خطرے کا اندیشہ رہتا ہے۔ ویسے بھی دہلی کے اطراف میں جس طرح سی این جی گاڑیاں زیادہ ہیں، وہاں بارش نئے طریقے کا بحران پیدا کرسکتی ہے۔ واضح ہو کہ سی این جی کے جلنے سے نائٹروجن آکسائیڈ اور نائٹروجن کی آکسیجن کے ساتھ گیسیں خارج ہوتی ہیں، جن سے ’’آکسائیڈ آف نائٹروجن‘‘ کا اخراج ہوتا ہے۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ ’’آکسائیڈ آف نائٹروجن‘‘ گیس فضا میں موجود پانی اور آکسیجن کے ساتھ مل کر تیزابی بارش کرسکتی ہے۔
یہ عالمی سطح پر تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ مصنوعی طریقے سے بارش کروانا کئی بار بھاری پڑتا ہے، پھر اس دہلی-این سی آر میں، جہاں کچھ منٹ کی بارش سے سڑکوں پر ندی نالے بھرنے سے جام ہو جاتا ہے اور یہی جام تو دہلی کی ہوا میں سب سے زیادہ زہر گھولتا ہے۔ ظاہر ہے، بارش سے جتنی آلودگی کم نہیں ہوگی، اس سے زیادہ بارش کی وجہ سے گاڑیوں کے رک رک کر چلنے سے پیدا ہونے والے دھوئیں سے بڑھے گی ہی۔
یہ سمجھنا ہوگا کہ مصنوعی طریقے سے ہونے والی بھاری بارش سے سیلاب آسکتا ہے، جس سے جان و مال کا نقصان ہو سکتا ہے۔ گزشتہ سال دبئی اور اطراف کے عرب ممالک میں اچانک بارش اور سیلاب کی وجہ وہاں مصنوعی بارش کو بھی مانا جارہا ہے۔ یہی نہیں، کسی ایک علاقے میں اس طرح کی بارش سے دوسرے علاقوں میں خشک سالی کا مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے۔ مصنوعی بارش ہوا کے پیٹرن اور درجۂ حرارت میں اچانک تبدیلی لاسکتی ہے۔ اس سے کئی متعدی امراض کے وائرس پیدا ہونے کا اندیشہ رہتا ہے۔ ایک بات اور کہ اس طرح کی بارش سے آب و ہوا میں تبدیلی کی رفتار تیز ہونے کا اندیشہ قوی ہو جاتا ہے۔ یہ ورلڈ واٹر سائیکل میں تبدیلی کی وجہ بھی بن سکتی ہے۔
ملک کے دارالحکومت کے گیس چیمبر بننے میں 43 فیصد ذمہ دار دھول-مٹی اور ہوا میں اڑتے درمیانے سائز کے دھول کے ذرات ہیں۔ دہلی میں ہوا کی کوالٹی کو خراب کرنے میں گاڑیوں سے خارج ہونے والے دھوئیں کی 17 فیصد، پیٹ کان جیسے پیٹروایندھن کی 16 فیصد شراکت داری ہے۔ اس کے علاوہ کئی وجوہات ہیں جیسے کوڑا جلانا اور پالنیشن وغیرہ۔ کونسل آف سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ (سی ایس آئی آر) اور سینٹرل روڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ذریعے حال ہی میں دہلی کی سڑکوں پر کیے گئے ایک سروے کے مطابق، دہلی کی سڑکوں پر مسلسل جام اور گاڑیوں کے رینگنے سے گاڑیاں ڈیڑھ گنا زیادہ ایندھن پی رہی ہیں۔ ظاہر ہے کہ اتنا ہی زیادہ زہریلا دھواں یہاں کی ہوا میں شامل ہو رہا ہے۔
فضا میں اوزون کی سطح 100 اے کیو آئی یعنی ایئر کوالٹی انڈیکس ہونی چاہیے۔ لیکن جام سے بے حال دہلی میں یہ اعدادو شمار 190 تو عام طور پر ہی رہتی ہے۔ گاڑیوں کے دھوئیں میں بڑی مقدار میں ہائیڈرو کاربن ہوتے ہیں اور درجۂ حرارت چالیس کے پار ہوتے ہی یہ ہوا میں مل کر اوزون کی تعمیرکرنے لگتے ہیں۔ یہ اوزون انسان کے جسم، دل اور دماغ کے لیے مہلک ہے۔ اس کے ساتھ ہی گاڑیوں کے اخراج میں 2.5 مائیکرو میٹر قطر کے ذرات اور گیس نائٹروجن آکسائیڈ ہے، جس کی وجہ سے فضائی آلودگی سے ہوئی اموات کے اعداد و شمار میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
ہوا کو زہر بنانے والے پیٹ کان پر پابندی کے لیے کوئی ٹھوس قدم نہ اٹھانا بھی صورتحال کو خراب کر رہا ہے۔ پیٹرومصنوعات کو ریفائنری میں ریفائن کرتے وقت سب سے آخری پیداوار ہوتی ہے- پیٹ کان۔ اس کے جلنے سے کاربن کا سب سے زیادہ اخراج ہوتا ہے۔ اس کی قیمت ڈیژل، پٹرول یا پی این جی سے بہت کم ہونے کی وجہ سے دہلی اور نواحی علاقوں کے بہت سے بڑے کارخانے بھٹیوں میں اسے ہی استعمال کرتے ہیں۔ اندازہ ہے کہ جتنا زہر لاکھوں گاڑیوں سے ہوا میں ملتا ہے، اس سے دوگنا پیٹ کان استعمال کرنے والے کارخانے اُگل دیتے ہیں۔
ایک بات اور، فضائی آلودگی صرف دہلی کا مسئلہ نہیں ہے، ملک کے سبھی میٹروپولیٹن اور دارالحکومتیں موسم سرما آتے ہی زہریلے دھوئیں سے گھٹنے لگتی ہیں۔ دہلی میں جو بھی طریقہ اپنایا جاتا ہے، وہ پورا ملک طویل مدتی نتائج جانے بغیر اپنانا شروع کر دیتا ہے۔ ظاہر ہے کہ دہلی کے ناکام تجربات پورے ملک کے لیے المیہ بن جاتے ہیں، ایسے میں یہاں کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے اس کے وسیع اثرات پر گہرا مطالعہ ضروری ہے۔
شہروں میں بھیڑ کم ہو، پرائیویٹ گاڑیاں کم ہوں، جام نہ لگے، ہریالی برقرار رہے- اسی سے زہریلا دھواں کم ہوگا۔ مشینیں انسانی غلطی کا حل نہیں ہوتیں۔ ہمیں ضرورت ایسے عمل کی ہے، جس سے فضا کو زہر بنانے والی وجوہات ہی پیدا نہ ہوں۔
[email protected]