عبدالغفار صدیقی
اللہ کا شکر ہے کہ مسلمان رسالت کے عقیدہ کو تسلیم کرتے ہیں ۔آج دائرہ اسلام میں وہی شخص رہ سکتا ہے جو حضرت محمدؐ کو اللہ کا رسول تسلیم کرے یعنی ان پر ایمان لائے ۔یہ بھی اللہ کا فضل ہے کہ مسلمان رسول اکرمؐ سے بے پناہ محبت کرتے ہیں ۔البتہ مسلمانوں کی اکثریت (خاص طور پربر صغیر میں)نے عقیدہ رسالت میں کچھ ایسی باتوں کی آمیزش کردی ہے۔کسی بات کے صحیح یا غلط ہونے کا سب سے بڑااور مستند ذریعہ قرآن ہے ۔اس کے بعد احادیث کا نمبر ہے ۔احادیث کے درست ہونے کا معیار بھی قرآن مجید ہی ہے ۔یہ ممکن نہیں ہے کہ رسول اکرمؐ نے کوئی بات قرآن کے خلاف کہی ہویا ان کاکوئی عمل قرآن سے متصادم ہو ۔
قرآن مجید کے مطابق تمام رسول برحق تھے ۔ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت ضرور تھی مگر بحیثیت رسول اور نبی وہ برابر تھے ۔’’یہ رسول (جو ہماری طرف سے انسانوں کی ہدایت پر مامور ہوئے) ہم نے ان کو ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر مرتبے عطا کیے۔ ان میں کوئی ایسا تھا جس سے خدا خود ہم کلام ہوا، کسی کو اس نے دوسری حیثیتوں سے بلند درجے دیے،اور آخر میں عیسیٰ ابن مریمؑ کو روشن نشانیاں عطا کیں اور روح پاک سے اس کی مدد کی۔‘‘(آل عمران253)’’رسول اُس ہدایت پر ایمان لایا ہے جو اس کے رب کی طرف سے اس پر نازل ہوئی ہے اور جو لوگ اِس رسول کے ماننے والے ہیں، انہوں نے بھی اس ہدایت کو دل سے تسلیم کر لیا ہے یہ سب اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں کو مانتے ہیں اور ان کا قول یہ ہے کہ: ’’ہم اللہ کے رسولوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کرتے، ہم نے حکم سنا اور اطاعت قبول کی مالک! ہم تجھ سے خطا بخشی کے طالب ہیں اور ہمیں تیری ہی طرف پلٹنا ہے۔‘‘(آل عمران258)پہلی آیت میں کہا گیا کہ ہم نے رسولوں کو ایک دوسرے پر برتری عطا کی اور دوسری آیت میں اہل ایمان کا یہ عقیدہ بیان کیا گیا کہ وہ رسولوں میں کوئی تفریق نہیں کرتے ۔
حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اللہ نے بعض معاملات میں فضیلت بخشی ۔ مثلاً آپ ؐ آخری نبی (خاتم النبئین)ہیں ۔آپ پر جو قرآن نازل کیا گیااس کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ نے خود اپنے ذمہ لے لی ہے۔قرآن ہی آپؐ کا معجزہ ہے ۔اسی طرح قرآن آپ کے اعلیٰ اخلاق کی شہادت دیتا ہے (وَإِنَّکَ لَعَلَیٰ خُلُقٍ عَظِیم)(القلم )آپ کو سارے جہانوں کے لیے رحمت کہتا ہے ۔(وَمَا اَرسَلنٰکَ اِلَّا رَحمَۃً للعٰلَمِینَ )(الانبیاء)۔آپ کو کوثر عطا کرنے (اِنَّا اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرَ۔ (الکوثر)اور مقام محمود(عَسٰٓی اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا)(بنی اسرائیل) پر فائز کر نے کا ذکر کرتا ہے وغیرہ۔لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ علمائے عظام، فضائل رسول اکرمؐ اس طرح بیا ن کرتے ہیں کہ باقی انبیاء نعوذ باللہ بہت چھوٹے نظر آتے ہیں ۔جیسے :حضور اکرم ؐ کو تمام انبیاء سے افضل کہتے ہیں ۔یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’ محمد نہ ہوتے تو کچھ بھی نہ ہوتا‘‘۔آپ کو وجہ تخلیق کائنات کہاجاتا ہے ۔بعض کتب میں لکھا ہے کہ اللہ نے سب سے پہلے آپ کے نور کو پیدا کیا ۔یہاں تک لکھا گیا کہ حضرت آدم ؑ کی توبہ آپ ؐکے وسیلہ سے قبول ہوئی ۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بروز حشر آپؐ کی سفارش پر ہی حساب و کتاب شروع ہوگا ۔یہ بھی درج ہے کہ جب تک آپؐ اپنے ایک ایک امتی کو نہ بخشوالیں گے جنت میں نہیں جائیں گے ۔آپؐ کے متعلق بلاشرط شفیع و شفاعت کا تصور قائم کیا گیا وغیرہ وغیرہ ۔جب کہ قرآن مجید میںتخلیق کائنات یا تخلیق آدم کے ذکر میں کہیں نہیں کہا گیا کہ ہم نے یہ ساری دنیا حضرت محمدؐ کی وجہ سے پیداکی ہے ۔قرآن میں حضرت آدم ؑ کی توبہ کے الفاظ مذکور ہیں ،ان میں کہیں اس کا ذکر نہیں ہے کہ ان کی توبہ جب قبول ہوئی جب کہ حضرت آدم نے کہا ہے کہ ’’ مجھے محمدؐ کے وسیلے سے معاف کردیں ‘‘ اور اتنا غلوکیاجاتا ہے کہ نہ صرف حضرت آدمؑ کو آنحضورؐ کی وجہ سے معافی ملی بلکہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپ نے یہ بھی کہا کہ اے اللہ مجھے محمدؐ کے واسطے معاف کردیجئے تو اللہ تعالیٰ نے پوچھا کہ پوچھا کہ یہ نام تم کیسے جانتے ہوتو آدم ؑ نے فرمایامیں نے عرش پر آپ کے نام کے ساتھ یہ نام لکھا دیکھاہے ۔تعجب ہوتا ہے کہ جس کا ذکر قرآن نے نہیں کیا اس کا ذکر کہاں سے اور کیسے آگیا ؟اسی طرح شفاعت کے متعلق قرآن کا صاف صاف اعلان ہے :۔’’کون ہے جو اُس کی جناب میں اُس کی اجازت کے بغیر سفارش کر سکے؟ (آل عمران)’’جس کے سامنے کسی کو بولنے کا یارا نہیںجس روز روح اور ملائکہ صف بستہ کھڑے ہوں گے، کوئی نہ بولے گا سوائے اُس کے جسے رحمٰن اجازت دے اور جو ٹھیک بات کہے۔‘‘(النباء 37 تا38)۔ان آیات میں شفاعت کو دو شرطوں کے ساتھ مشروط کیا گیا ہے ۔اول یہ کہ وہ اللہ کی اجازت سے ہوگی اور دوم یہ کہ شفاعت کرنے والا ٹھیک ٹھیک بات کہے گا ۔اگر آزادانہ شفاعت کا عقیدہ درست ہوتا تو آپ ؐ یہ نہ فرماتے:۔’’ صفیہ میری پھوپھی! اللہ کے سامنے تمہارے کچھ کام نہیں آؤں گا۔ فاطمہ! بیٹی تو چاہے میرا مال مانگ لے لیکن اللہ کے سامنے تیرے کچھ کام نہیں آؤں گا۔‘‘(بخاری)عقیدہ شفاعت کے اس غلو نے مسلمانوں کو نہ صرف بے عمل بنا دیا بلکہ ان کے ذہن میں یہ بات بھی راسخ کردی کہ تم خواہ کتنے ہی گناہ کرلو ،حضور ؐ بخشوالیں گے ۔یہی عقیدہ عیسائیوں کا ہے کہ نعوذ باللہ خداوند کے بیٹے نے صلیب پر جان دے کر سب کے گناہوں کا کفارہ ادا کردیا ۔مسلمانوں میں یہ گمراہی ایک قدم اور آگے ہے ۔انھوں نے پیروں ،مرشدوںاور ولیوں کے ساتھ بھی یہ صفت لگادی کہ وہ بروز حشر اپنے مریدین کو بخشوالیں گے ۔میں اس بات سے متفق ہوں اور تسلیم کرتا ہوں کہ اگر کسی کو شفاعت کی اجازت ہوگی تو سب سے پہلے وہ انبیاء ہوں گے ۔لیکن کیا وہ یہ کہہ سکیں گے کہ میرے فلاں امتی کے بارے میں تیرے فرشتوں نے گناہوں کا جو رجسٹر تیار کیا ہے وہ غلط ہے ۔مسلمانوں کاایک گروہ کہتا ہے کہ حضور ؐ کو تمام علم غیب تھا تو دوسرا اس کے برعکس حضور ؐکے علم غیب کو نعوذ باللہ گدھے اور خچر کے علم غیب کے مماثل قرار دیتا ہے ۔ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ کا رسول زمین پر اس کا نمائندہ ہوتا ہے اور ہر حکومت اپنے نمائندوں کو بعض ان امور پر مطلع رکھتی ہے جو عوام پر افشاء نہیں ہوتے ۔اسی طرح اللہ تعالیٰ نے نہ صرف حضور اکرم ؐ کو بلکہ اپنے تمام انبیاء کو بعض ایسے امور کا علم عنایت فرمایا تھا جو عام انسانوں کے لیے غیب کہا جاسکتا ہے ۔لیکن انبیاء کو جو بھی علم تھا وہ اللہ کا دیا ہوا تھا ۔قرآن مجید میں صاف اور واضح لفظوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ علم غیب کی نفی کی گئی ہے ۔تعجب ہے کہ اس قدر واضح ہدایت کے بعد بھی امت مسلمہ اس موضوع پر دست بگریباں ہے۔سورہ اعراف کی آیت 188میں ارشاد باری ہے:۔’’اے محمدؐ، ان سے کہو میں اپنی ذات کے لیے کسی نفع اور نقصان کا اختیار نہیں رکھتا، اللہ ہی ہے جو کچھ چاہتا ہے وہ ہو تا ہے اور اگر مجھے غیب کا علم ہوتا تو میں بہت سے فائدے اپنے لیے حاصل کر لیتا اور مجھے کبھی کوئی نقصان نہ پہنچتا میں تو محض ایک خبردار کرنے والا اور خوش خبری سنانے والا ہوں اُن لوگوں کے لیے جو میری بات مانیں‘‘۔
اسی طرح کہا جاتا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میں تقسیم کرنے والا ہوں اور اللہ دینے والا ہے ‘‘ ۔اس حدیث کا درست مفہوم تو یہ کہ میں اپنی مرضی سے کسی کو کچھ نہیں دیتا بلکہ اللہ ہی دینے والا ہے ،اس نے مجھے جو دیا وہ میں تمہارے درمیان تقسیم کرتا ہوں ،مگر ایک طبقہ خاص نے اس کا یہ مفہوم اخذ کیا کہ نعوذ باللہ میں سب کچھ تقسیم کرتا ہوں ۔ اللہ کسی کو کچھ نہیں دے سکتااس نے تقسیم کا ڈپارٹمنٹ میرے حوالے کردیا ہے۔جب کہ اللہ تعالیٰ نے روزی روٹی کی تقسیم تک کے تعلق سے یہ فرمایا:’’ دنیاوی زندگی میںہم نے ان کے درمیان ان کی معیشت کو تقسیم کیا ہے ۔‘‘ (نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْنَہُمْ مَّعِیْشَتَہُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا) (الزخرف)۔ہدایت اور رہنمائی کی عطا و بخشش کا اختیار بھی اللہ نے اپنے پاس رکھا ہے اور اپنے رسول ؐ سے صاف کہہ دیا ہے کہ :۔تم جسے چاہو ہدایت نہیں دے سکتے ،اللہ جسے چاہے ہدایت دیتا ہے ۔‘‘(اِنَّکَ لَا تَہْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ یَہْدِیْ مَنْ یَّشَآئُ)(القصص)اوررسول کی زبان مبارک سے کہلوادیا کہ’’ ہم پر پیغام پہنچادینے کے علاوہ کوئی ذمہ داری نہیں ۔‘‘(وَمَا عَلَیْنَآ اِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِیْنُ)(یٰسین)اسی کے ساتھ یہ بھی وضاحت فرمادی گئی ۔’’ تم داروغہ نہیں ہو ۔‘‘(لَسْتَ عَلَیْہِمْ بِمُصَیْطِر)(الغاشیہ)انسانوں کی ہدایت کے لیے فکر مند رسول ؐ کو یہ تسلی بھی دی گئی :۔’’ اے رسولؐ اگر یہ لوگ ایمان نہیں لائے تو کیاتم خود کو ہلاک کرلوگے ۔‘‘(فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ عَلٰی اٰثَارِہِمْ اِنْ لَّمْ یُؤْمِنُوْا بِہٰذَا الْحَدِیْثِ اَسَفًا)(الکھف)
ایک اور بحث دیکھنے کو ملتی ہے کہ ایک گروہ کہتا ہے کہ حضور ہم جیسے بشر نہیں تھے اور وہ مٹی کے بجائے خدا کے نور سے پیدا کیے گئے تھے تو دوسرا گروہ آپ کی بشریت کی دلیل میں قرآن کی آیت (قُلْ اِنَّمَااَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوْحٰی اِلَیَّ اَنَّمَا اِلٰہُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ۔الکہف )پیش کرتا ہے ۔یعنی قرآن حضور اکرمؐ سے کہلواتا ہے :۔’’ میں تمہاری طرح ایک انسان ہوں ،بس فرق یہ ہے کہ مجھ پر وحی آتی ہے ۔‘‘ساڑھے چودہ سو سال سے ہم یہ مسئلہ نہیں حل کرسکے کہ رسول اور نبی بظاہرعام انسانوں جیسا ہی ہوتا ہے ۔اس کے تمام اعضاجسمانی وہی ہوتے ہیں جو ایک انسان کے ہوتے ہیں ،لیکن خصائل و خصائص میں وہ اپنے وقت کے تمام انسانوں سے بالا و برتر ہی ہوتا ہے ۔حضرت محمدؐ چونکہ آخری نبی ہیں اس لیے آپؐ قیامت تک آنے والے انسانوں سے افضل ہیں۔رسول معصوم ہوتا ہے ۔اس سے گناہ سرزد نہیں ہوتے ۔وہ وحی کے علاوہ کچھ نہیں بولتا ۔(وماینطق عن الھویٰ الا وحی یوحیٰ)(النجم۔3)لیکن وہ بھی اسی طرح ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتا ہے جس طرح انسانوں کے بچے پیدا ہوتے ہیں ،وہ کھانا کھاتا ہے سوتا جاگتا ہے ،بازاروں میں چلتا پھرتا ہے،یہاں تک کہ وہ بیمار بھی ہوتا ہے اور ایک دن سے رخصت ہوجاتا ہے ۔وغیرہ
سیرت کے جلسوں میں عام طور پر متنا زعہ امور پر جوش خطابت دکھایا جاتا ہے ۔گھنٹوں حضورؐ کے وہ مناقب بیان کیے جاتے ہیں جو قرآن کی آیات سے متصادم ہیں ۔اس کی وجہ سے حضور ؐ کا مقصد بعثت پس منظر میں چلاجاتاہے ۔اس بات کا تذکر بہت کم ہوتا ہے کہ آپ ؐ دنیا میںکیوں تشریف لائے تھے ۔اظہار دین اور غلبہ دین کا مشن کیا ہے ؟جب کفار مکہ اس بات پر آمادہ تھے کہ ایک دن ہم آپ ؐ کے خدا کی عبادت کرلیں گے اورآپ کو ہمارے معبودوں کی عبادت نہیں کرنا ہے تب بھی حضورؐ نے ان سے صلح کیوں نہیں کی ؟اور یہ بات کیوں ارشاد فرمائی:۔’’اے میرے چچا! اگر وہ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں پر چاند لا کر رکھ دیں پھر بھی میں اس کام سے باز نہیں آؤں گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس دین کو غالب کردے یا میں اس دین کی دعوت دیتے ہوئے شہید ہوجاؤں۔‘‘(سیرت ابن اسحاق)وہ کیا وجوہات تھیں جن کی بنا پر آپ نے مکہ سے ہجرت فرمائی اوراپنوں کے خلاف ہی بدرو احد میں ہتھیار اٹھائے ،کفار مکہ اور باقی دشمنان اسلام کو کلمہ طیبہ سے اس قدر خوف کیوں تھاکہ وہ اس کو ماننے پر تیار نہ تھے ؟وغیرہ ۔کیا ان سوالوں کے جوابات جاننے کی ضرورت نہیں ہے ؟کیا ان کے بغیر سیرت نبی کریمؐ مکمل ہوسکتی ہے ؟بلاشبہ ہم حضور ؐ کے مناقب بیان کریں لیکن کبھی یہ بھی تو معلوم کریں کہ آپ ؐ کی زندگی میں ہمارے لیے کیا اسباق ہیں ؟
نبی اکرم ؐ پر ایمان کا تقاضا ہے کہ ہم ان سے اپنی جان و مال اور اپنی آل و اولاد سے زیادہ محبت کریں اور اس محبت کا تقاضا ہے کہ ہم ان پر درود بھیجیں جس کا حکم قرآن میں دیا گیا ہے ،مگر اس ایمان کی معراج یہ ہے کہ آپ ؐ کی اطاعت کریں ،آپ ؐ کے فیصلوں کو بے چوں و چرا تسلیم کرلیں ،اس میں کوئی شک نہ کریں ۔رسولؐ جو ہمیں دیں وہ لے لیں اور جس سے روکیں اس سے رک جائیں ۔ہم میں سے کتنے ہیں جو اس پہلو سے مسلمان ہیں؟جس طرح دوسرے مذاہب کے پیروکاروں نے اپنے نبی کو خدا بنالیا کیا اسی راہ پر ہم گامزن نہیں ہیں؟ ٭