اسد مرزا
’انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کی ایک نئی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ عالمی آبادی کے نصف حصہ کو سماجی تحفظ حاصل نہیں ہے،جبکہ اس طبقہ کو ماحولیاتی بحران کے خطرات سب سے زیادہ درپیش ہیں۔ آب و ہوا کے خطرے سے دوچار ممالک میں 90فیصد سے زیادہ افراد بغیر کسی حفاظتی نظام کے رہ رہے ہیں۔‘
گزشتہ ہفتے ILOکی ایک نئی رپورٹ بالعنوان: ’عالمی سماجی تحفظ برائے آب و ہوا عمل اور ایک منصفانہ منتقلی- ورلڈ سوشل پروٹیکشن رپورٹ 2026-2024 ‘کے مطابق،عالمی سطح پرتقریباً 50 فیصد لوگوں کو کم از کم ایک سماجی تحفظ کے فائدے تک رسائی حاصل ہے ، لیکن 3.8 بلین لوگوں کے پاس کسی بھی قسم کے حفاظتی سہولت کی کمی ہے، جس میں دنیا بھر سے 1.8 بلین بچے بھی شامل ہیں۔ILO کے ڈائریکٹر جنرل گلبرٹ ہونگبو کے بقول ’موسمیاتی تبدیلی سرحدوں کو تسلیم نہیں کرتی، اور ہم بحران کو دور رکھنے کے لیے دیوار نہیں بنا سکتے۔آب و ہوا کا بحران ہم سب کو متاثر کرتا ہے اور آج کے سماجی انصاف کے لیے واحد، سنگین خطرے کی نمائندگی کرتا ہے۔‘ تازہ تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومتیں موسمیاتی بحران کے اثرات کا مقابلہ کرنے اور سرسبز مستقبل کی طرف منصفانہ منتقلی کی حمایت کرنے کے لیے سماجی تحفظ کی طاقتور صلاحیت کا بھرپور استعمال کرنے میں ناکام ہو رہی ہیں۔
منقسم دنیا:رپورٹ کے مطابق پہلی بار، عالمی آبادی کا نصف سے زیادہ حصہ(52.4 فیصد) سماجی تحفظ کی کسی نہ کسی سہولت کے بغیر ہے، جو کہ 2015 میں 42.8 فیصد تھی، جس سال پائیدار ترقی کے اہداف (SDGs) کو اپنایا گیا تھا۔ساتھ ہی ان 20 ممالک میں جو سب سے زیادہ آب و ہوا کے خطرے سے دوچار ہیں،وہاں پر 91.3 فیصد لوگ – یا 364 ملین لوگ اب بھی اسی طریقے کے سماجی تحفظ سے محروم ہیں۔ مزید وسیع طور پر، 50 سب سے زیادہ آب و ہوا کے خطرے سے دوچار ممالک میں، 75 فیصد آبادی – یا 2.1 بلین لوگ –سماجی تحفظ سے محروم ہیں۔ILO کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر جنرل میا سیپو نے کہاکہ ’’سماجی تحفظ کے حق میں واضح تفاوت ہماری گہری منقسم دنیا کا عکاس ہے۔سب سے فوری چیلنج موسمیاتی بحران کے فرنٹ لائن پر موجود لوگوں کی حفاظت کرنا ہے۔‘‘عالمی سطح پر زیادہ تر بچوں (76.1 فیصد) کے پاس اب بھی کوئی مؤثر سماجی تحفظ کی کوریج نہیں ہے،ساتھ ہی صنفی فرق بھی برقرار ہے، خواتین اور بچوں کی مؤثر کوریج بالترتیب 50.1 اور مردوں کی54.6 فیصد ہے یعنی یہاں خواتین مردوں سے پیچھے ہیں۔یہ خلا خاص طور پر اہم ہیں، ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے، لوگوں اور معاشروں کو ایک نئی آب و ہوا کی غیر مستحکم حقیقت کے مطابق ڈھالنے میں مدد کرنے اور ایک پائیدار مستقبل کی طرف منصفانہ منتقلی کی سہولت فراہم کرانے میں سماجی تحفظ کے ممکنہ کردار کے پیش نظر۔ آئی ایل او کے سربراہ نے خبردار کیا ہے کہ اس بحران کے انتہائی منفی نتائج سامنے آسکتے ہیں جبکہ بہت سے ممالک خاص طور پر اپنے ملک کے ماحولیاتی اور ذریعہ معاش کے خطرات سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔’’ہمیں یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ متاثرہ کمیونٹیز کے ساتھ جو کچھ ہوتا ہے وہ ہم سب کو متاثر کرے گا۔‘‘ انہوں نے مزید کہاکہ سماجی تحفظ کس طرح مدد کرتا ہے۔لوگوں کو سماجی تحفظ کے فوائد فراہم کر کے آب و ہوا سے متعلق خطرات کے مطابق ڈھالنے اور ان سے نمٹنے میں مدد کر سکتا ہے، جیسے کہ آمدنی کی حفاظت اور صحت کی دیکھ بھال تک رسائی اور سبز منتقلی کے دوران خاندانوں، کارکنوں اور کاروباری اداروں کو تحفظ فراہم کرنا۔ان میں پائیدار اقتصادی طریقوں کو بھی قابلِ عمل بنا یا جاسکتا ہے، بشمول ملازمین کو تربیت دینے اور سبز اور کم کاربن کے شعبوں میں ملازمت کے لیے اعلیٰ مہارت فراہم کرانا۔ILO کے سربراہ ہونگبو نے کہا کہ ’’سماجی تحفظ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ جاری سبز اور کم کاربن توانائی کی منتقلی میںکسی کو پیچھے نہ چھوڑدیاجائے۔‘‘
حکومتوں کو آگے آنا چاہیے: مثبت آب و ہوا کے عمل کو فعال کرانے کے باوجود، حکومتیں سماجی تحفظ کی زیادہ سے زیادہ صلاحیتوں کو بروئے کار لانے میں ناکام ہو رہی ہیں، جس کی بڑی وجہ مسلسل کوریج کے خلا اور نمایاں طور پر کم سرمایہ کاری ہے، نئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اوسطاً زیادہ تر ممالک صحت کو چھوڑ کر اپنی مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) کا 12.9 فیصد سماجی تحفظ پر خرچ کرتے ہیں۔ تاہم، جہاں زیادہ آمدنی والے ممالک اوسطاً 16.2 فیصد خرچ کرتے ہیں، وہیں کم آمدنی والے ممالک اپنی جی ڈی پی کا صرف 0.8 فیصد سماجی تحفظ کے لیے مختص کرتے ہیں۔کم آمدنی والے ممالک، بشمول سب سے زیادہ آب و ہوا کے خطرے سے دوچار ریاستوں کو، کم از کم بنیادی کوریج کی ضمانت دینے کے لیے اضافی 308.5 بلین ڈالر سالانہ یا ان کے جی ڈی پی کا 52.3 فیصد درکار ہے اور اس ہدف تک پہنچنے کے لیے بین الاقوامی مدد کی ضرورت لازمی ہے ۔
پہلے عمل کرنے کا وقت:آئی ایل او کی رپورٹ میں تحفظاتی خلا کو ختم کرنے کے لیے فیصلہ کن اور مربوط پالیسی کارروائی کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔ اس انتباہ کے ساتھ کہ ’’اب وقت آگیا ہے‘‘ اور سماجی تحفظ میں نمایاں سرمایہ کاری کرنے کی سخت ضرورت ہے۔پالیسی کی رہنمائی میں مدد کرنے اور مؤثر اور پائیدار نتائج کو یقینی بنانے کے لیے سفارشات میں سماجی تحفظ کے نظام کے ساتھ عوام کی ماحولیاتی تبدیلیوں سے با اثر طریقے سے لڑنے اور ان کو سماجی اورمعاشی طور پر تقویت دینے کے لیے ان ممالک کی حکومتوں کو اپنی ماحولیاتی اور معاشی پالیسیوں دونوں میں نمایاں تبدیلیاں کرنے پر بھی زور دیاگیا ہے۔ رپورٹ میں سماجی تحفظ میں سرمایہ کاری کو ترجیح دینے کی بھی سفارش کی گئی ہے۔سماجی تحفظ انسانی ترقی، سرمایہ کاری، اور معاش کے تنوع پر اس کے مثبت اثرات کے ذریعے آنے والی نسلوں سمیت موافقت کی صلاحیتوں کو بڑھانے میں بھی حصہ دیتا ہے۔ مزید برآں، بڑے پیمانے پر ایک جامع اور موثر نقصان اور اس کے ردعمل کو سماجی تحفظ کے نظام کو مربوط کرکے متاثرہ عوام کی بہتر دیکھ بھال کے لیے اپنایا جاسکتا ہے۔ سماجی تحفظ کے نظام لوگوں اور کاروباری اداروں کو تخفیف اور دیگر ماحولیاتی پالیسیوں کے ممکنہ منفی اثرات سے معاوضہ دینے اور تحفظ فراہم کرانے کے لیے بھی کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ لیبر مارکیٹ کی فعال پالیسیوں کے ساتھ مل کر، وہ لوگوں کو سبز ملازمتوں اور زیادہ پائیدار معاشی طریقوں کی طرف منتقلی میں مدد کر سکتے ہیں۔ سماجی تحفظ بھی براہ راست تخفیف کی کوششوں کی حمایت کر سکتا ہے۔ عوامی پنشن فنڈز کو سبز کرنا، فوسل فیول سبسڈی کو سماجی تحفظ کے فوائد میں تبدیل کرنا، اور اہم قدرتی کاربن وسائل کی حفاظت اور بحالی کے لیے نقصان دہ سرگرمیوں کو ختم کرنے کے لیے انکم سپورٹ کی فراہمی، اخراج میں کمی کی حمایت کرنے کے کچھ پہلواس میں شامل ہیں۔
مجموعی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ILO کی رپورٹ نے پھر ایک مرتبہ اس عمل کی نشان دہی کی ہے کہ عالمی سطح پر ماحولیاتی تبدیلیوں کا سب سے زیادہ اثر عوام کے غریب طبقے کو جھیلنا پڑتا ہے اور ان کے ملک میں ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں کے ذریعے ان کے گھر بار، کھیتی باڑی یا ذریعہ معاش کے دوسرے طریقوں پرجو منفی اثر پڑتا ہے اس کو غریب طبقے کو سماجی تحفظ فراہم کراکر کم کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی وہ ممالک جو کہ ان ماحولیاتی تبدیلیوں کے رونما ہونے کے ذمہ دار ہیں ان کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ غریب ممالک کے غریب عوام تک ان سماجی تحفظات کو پہنچانے کے لیے ان غریب ممالک کی مدد کرسکتے ہیںیا کم از کم اس کے کچھ فوائد ان غریب ممالک میں نافذ کرائے جاسکتے ہیںجس سے کہ یہاں کے غریب عوام کو اپنی زندگی اور اپنے ذریعہ معاش دونوں کو پیش آنے والے کسی خطرے سے بچانے کے لیے ان ممالک کی حکومتیں نئے سماجی تحفظات فراہم کراکر اپنے عوام کی مشکلات کو کم کرسکتی ہیں۔
(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں، ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمزدبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں)