ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ
امریکی ناول نگار، اسکرین رائٹر اور صحافی ماریو پوزو (1920-1999) اپنی شاندار ناولوں کے لئے مشہور ہیں۔ ان کی سب سے مشہور ناول کا نام ’دی گوڈ فادر‘ ہے جس کو اب کلاسیکیات کی فہرست میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ ناول پہلی بار 1969 میں منظر عام پر آئی تھی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس قدر مقبول ہوگئی کہ ابھی تک جدید ناولوں میں کسی دوسرے ادبی شہ پارہ کو اتنی مقبولیت نہیں مل سکی ہے کہ اس کا متبادل بن سکے۔ پوزو چونکہ اٹلی نژاد امریکی تھے اس لئے انہوں نے کچھ تو اپنے بچپن کی زندگی کے تجربات اور کچھ نیو یارک میں موجود مینی اٹلی کے مشاہدات کی بنا پر مافیاؤں کی دنیا کی دلچسپ کہانیوں کو جوڑ کر یہ ناول تیار کی تھی۔ اس ناول میں بنیادی طور پر تاتاگالیا فیملی اور ڈان کورلیون کی کہانی ہے۔ یہ دونوں فیملیز کا تعلق انڈر ورلڈ سے ہوتا ہے اور اس میں دکھایا گیا ہے کہ ان دونوں کے اثرات امریکی زندگی کے تمام پہلوؤں پر پڑتے ہیں۔ بس فرق یہ ہے کہ تاتاگالیا فیملی اپنے مقصد کے حصول میں کسی اخلاقی پابندی کا لحاظ نہیں کرتی جبکہ ڈان کورلیون مافیا ڈان ہونے کے باوجود بعض اہم انسانی اخلاقیات کے سختی سے پابند ہوتے ہیں۔ پوزو کی یہ ناول اس قدر مشہور ہوئی کہ بعد میں اس پر ہالی ووڈ نے فلم بنائی اور اس میں ڈان کورلیون کا کردار افسانوی شہرت کے حامل اداکار مارلون برانڈو نے نبھایا تھا اور انہوں نے اس کردار کو اس خوبصورتی سے نبھایا کہ اس کردار کے لئے انہیں 1973 میں اکیڈمی ایوارڈ فار بیسٹ اکٹر سے نوازا گیا۔ اسی سال انہیں گولڈن گلوب ایوارڈ فار بیسٹ اکٹر سے بھی سرفراز کیا گیا۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں مشرق وسطیٰ اور ایران و حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان جاری جنگ کے تناظر میں گوڈ فادر اور ڈان کورلیون کی کہانی کیوں سنا رہا ہوں؟ دراصل اس کی ایک بڑی خاص وجہ یہ ہے۔ اسی ’دی گوڈ فادر‘ میں ڈان کورلیون کے کردار نے اپنی زندگی کی کہانی بتائی ہے۔ انہوں نے ذکر کیا ہے کہ وہ کیسے سسلی سے امریکہ کسمپرسی کی حالت میں پہنچے اور معاش کی تلاش میں لگ گئے۔ جب زیادہ کچھ نہیں بن سکا تو انہوں نے اسی شئی کو اختیار کرلیا جو زندگی کی راہ میں ان کے سامنے آئی۔ وہ جس علاقہ میں رہ رہے تھے وہاں مافیاؤں کا دبدبہ تھا۔ انہوں نے بھی اسی کو اپنا میدان بنایا۔ اسی پس منظر میں وہ اپنی کامیابی کا راز بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس میدان میں انسان کی کامیابی کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ خوف سے آزاد ہو اور دھمکی بھرے الفاظ کم استعمال کرتا ہو۔ اس کے بعد وہ کمزور اور طاقت ور کے درمیان کا ایک بنیادی اصول بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ طاقت ور کبھی دھمکیاں نہیں دیتا جب کہ کمزور لوگ ہمیشہ دھمکی آواز باتیں کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسا جملہ ہے جس میں کئی زندگیوں اور معاشروں کی حقیقت کا عکس سامنے آ جاتا ہے،لیکن یہ جملہ سب سے زیادہ مشرق وسطی کے عرب و ایران حکمرانوں پر نافذ ہوتا ہے۔ جو لوگ عرب۔ اسرائیل جنگ کی پوری تاریخ سے واقف ہیں وہ اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے کہ جہاں ایک طرف یہودیوں اور صہیونیوں نے پوری پلاننگ اور منصوبہ بندی کے ساتھ اپنی طاقت کو بڑھانے اور اپنی کمزوریوں کو دور کرنے میں لگایا وہیں عربوں نے اپنا انحصار ان عناصر پر کر لیا جو خود اسرائیل کا حلیف بلکہ اس کے جرائم میں اول دن سے برابر کا شریک و ساجھی رہا۔ جب عرب حکمرانوں کے پاس کوئی مؤثر ہتھیار نہیں بچا تو انہوں نے اپنی زبان آوری کا استعمال کرکے وہ تمام بلند و بالا اور فلک شگاف نعروں اور جملوں کا استعمال کرنا شروع کر دیا جن کے کھوکھلے پن نے انہیں مرور ایام کے ساتھ ساتھ خود دشمنوں کی نظر میں حقیر بنادیا۔ آج ان کی کیفیت یہ ہوگئی ہے کہ وہ اپنی کمزوری کے اس مقام پر پہنچ گئے ہیں جہاں اس دشمن کے ساتھ سمجھوتہ کر رہے ہیں جنہیں کبھی صفحۂ ہستی سے مٹا دینا چاہتے تھے۔ عربوں کے بعد ایران اور ان کی حلیف جماعتیں بھی اسی نہج پر کام کرتی نظر آ رہی ہیں۔ ایران اور حزب اللہ کے خلاف اسرائیل اور اس سے قبل امریکہ نے بے شمار کارروائیاں کی ہیں اور ان میں ان کے اعلی عہدیداران اور قائدین کو نشانہ بناکر ختم کر دیا ہے۔ ایسے ہر واقعہ کے بعد ایران اور حزب اللہ نے یہ بیان جاری کیا ہے کہ وہ اس کا سخت انتقام لیں گے، لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا انتقام کا جذبہ سرد پڑتا گیا۔ اس کی مثال ہمیں سب سے پہلے قاسم سلیمانی کی موت کے بعد کے واقعات میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ قاسم سلیمانی کا جو مقام ایران کے اندر تھا اس کے پیش نظر بڑی کارروائی کی امید کی جا رہی تھی، لیکن عراق و شام میں موجود امریکی ٹھکانوں پر معمولی حملوں کے علاوہ کچھ بھی دیکھنے کو نہیں ملا۔ غزہ جنگ کے دوران ہی ایرانی قونصلیٹ پر اسرائیل نے حملہ کیا جس میں ایران کے 6 اہلکار مارے گئے۔ اس کے جواب میں ایران نے اسرائیل کے ٹھکانوں پر حملہ کیا اور اسرائیل کو خوفزدہ بھی کیا، لیکن وہ اتنا محدود تھا کہ اسرائیل پھر مطمئن ہوگیا اور مزید حملوں کی تیاری میں لگ گیا اور اس قدر جری ہوگیا کہ حماس کے سابق صدر اسماعیل ھنیہ کو ایران کے اندر اس وقت شہید کر دیا جب وہ نو منتخب ایرانی صدر کی حلف برداری تقریب میں عالمی لیڈران کے ساتھ وہاں بطور مہمان موجود تھے۔
ایران کے لئے یہ بڑی شرمندگی کی بات تھی لہٰذا اس نے پھر سخت انتقام کی دھمکی دے ڈالی، لیکن ابھی تک کوئی کارروائی اسرائیل کے خلاف نہیں کی جا سکی ہے۔ یہی حال حزب اللہ کا ہے جس کے لیڈر فؤاد شکور کو اسی دن راستہ سے اسرائیل کے ذریعہ ہٹایا گیا جس دن اسماعیل ھنیہ کو شہید کیا گیا تھا۔ حزب اللہ نے بھی اس کے بعد انتقام کی دھمکی دی تھی لیکن کچھ ایسا مؤثر قدم اب تک نہیں اٹھایا جا سکا ہے جس سے اسرائیل خوف زدہ ہوجائے اور اپنی جارحیت کو کم یا ختم کرے۔ اس کے برعکس اسرائیل میں اتنی جرأت پیدا ہوگئی ہے کہ اب وہ شمالی اسرائیل کے اندر اپنے ان شہریوں کو واپس بھیجنا چاہتا ہے جو اب تک حزب اللہ کے حملوں کی وجہ سے گھر بار چھوڑ کر بھاگے ہوئے ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ جنگ کا دائرہ وسیع کیا جائے۔ بلکہ صحیح بات یہ ہے کہ میں سرے سے اس کا قائل ہی نہیں ہوں کہ جنگ کو کسی مسئلہ کے حل کے لئے استعمال کیا جائے۔ بقول شخصے جنگ تو خود ایک مسئلہ ہے وہ دیگر مسائل کا حل کہاں نکال سکتی ہے۔ لیکن اس نقطہ پر زور دینا مقصود ہے کہ جب آپ جنگ کی حالت میں ہوں تو آپ کے دشمن کو یہ اندازہ نہیں ہونا چاہئے کہ آپ کمزوری کا شکار ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو ساری کیفیت بدل سکتی ہے۔ البتہ اس بات کو بھی سمجھنا ضروری ہے کہ جنگ کی مدت میں آپ جنگ کی تیاری نہیں کر سکتے۔ اس کے لئے جنگ سے پہلے ہی برسوں کی محنت اور تیاری درکار ہوتی ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ اسرائیل نے اپنی فضائی قوت کو بطور خاص اس لئے مضبوط بنایا تھا کیونکہ اس کو معلوم تھا کہ اس کی عددی قوت عربوں کے مقابلہ میں کم ہے۔ لہٰذا مشینوں کو اس کا متبادل بنانا ضروری ہے۔ اس سلسلہ میں انہوں نے کوئی کوتاہی نہیں کی کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ کوتاہی کا مطلب موت ہے۔ انہوں نے ایک زمانہ میں عربوں کے تیل پر انحصار کو ختم کرنے کے لئے ایسی گاڑیاں تیاریاں کرنی شروع کر دی تھی جن کو پانی کے ذریعہ چلایا جا سکے۔ محدود حد تک وہ اس میں بھی کامیاب ہوئے تھے۔ مقصد تحریر یہ ہے کہ ہمیں اپنے دشمنوں سے سیکھنا ضروری ہے تاکہ ہم صرف دھمکیاں دینے والی قوم نہ بن کر رہ جائیں۔ حماس کی مجبوری سمجھ میں آتی ہے کہ وہ باضابطہ ایک نیشن نہیں ہے اور اس کی بہت سی محدودیت ہے،لیکن ایران و حزب اللہ اور عرب ملکوں کی کیا مجبوری ہے کہ وہ اپنی تیاریاں نہیں کرتے ہیں اور اپنے دشمنوں سے آگے کی سوچ نہیں رکھ پا رہے ہیں؟ اس کا مطلب وہ رغبت ہی مفقود ہے جو کسی زندہ اور باغیرت قوم کو حیرت انگیز کارنامے انجام دینے پر آمادہ کر دیتی ہے۔ ایران و عرب اور حزب اللہ کے لئے بہتر یہ ہوگا کہ وہ آج سے ہی سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں موجود کمزوریوں کو دور کرنا شروع کردیں۔ یہی وہ میدان ہے جس میں ہم بحیثیت قوم بہت کوتاہ ہیں اور جس کے سنگین نتائج پوری دنیا میں ہم بھگت رہے ہیں۔ جہاں تک جذبہ مزاحمت کی بات ہے تو آج بھی اس قوم کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ زمین پر اس سے مقابلہ کرنا آج بھی امریکی و اسرائیل کے لئے آسان نہیں ہے، لیکن یہ بھی سمجھنا ضروری ہے کہ اب عددی قوت کی کوئی خاص اہمیت نہیں رہ گئی ہے۔ اب جنگیں آرام دہ کمروں میں بیٹھ کر ٹیکنالوجی کے ذریعہ لڑی جاتی ہے۔ 7اکتوبر کو حماس نے اسرائیل کو اسی میدان میں مات دیا تھا جس کی ٹیس اب تک اس میں باقی ہے اور معصوموں سے بدلہ لے کر جھینپ مٹانے کی کوشش کر رہا ہے۔ لبنان میں اسرائیل کا پیجر و مواصلات پر کیا گیا حملہ اسی جھینپ کو مٹانے کا ایک ذریعہ ہے، لیکن ایران و حزب اللہ کے لئے ضروری ہے کہ اب وہ دھمکیوں کی دنیا سے نکل کر عملی طور ٹیکنالوجی کے میدان میں قوت حاصل کرکے ایک مضبوط مد مقابل کے طور پر ابھریں۔ بصورت دیگر اسرائیل ان کے قائدین کے علاوہ معصوم شہریوں کو بھی نشانہ بناتا رہے گا کیونکہ وہ کسی اخلاقی بندش اور انسانی اصول پر ایمان نہیں رکھتا ہے۔
مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں