ڈاکٹر خالد اختر علیگ
ابھی کوئی تین مہینے قبل اس مضمون نگار کے مشفق والد ڈاکٹر عابد علی شعلہؔ لکھنوی جو یونانی معالج اور کہنہ مشق شاعر تھے،کم و بیش دوسال تک الزائمر جیسی اذیت ناک بیماری سے لڑتے لڑتے زندگی کی جنگ ہار گئے۔ الزائمرایک ایسی بیماری ہے جو خاموشی سے یادوں کو مٹا دیتی ہے، دماغ کو الجھا دیتی ہے اور اپنے آخری مراحل میں، اس جوہر کو ہی ختم کردیتی ہے جو ہمیںا نسان بناتی ہے۔بقول ساقیؔ فاروقی:
باد نسیاں ہے مرا نام بتا دو کوئی
ڈھونڈ کر لاؤمجھے میرا پتا دو کو ئی
آج یہ بیماری دنیا بھر کے لاکھوں لوگوں کے لیے ایک خوفناک حقیقت ہے۔جس کی طرف توجہ کے لیے ہی ہر سال 21 ستمبر کو عالمی یوم الزائمر منایا جاتا ہے، امسال اس کا مرکزی موضوع ’ڈیمنشیا کو جانیں، الزائمر کو جانیں‘ ہے۔ جس کا مقصد بیماری کے تئیں بیداری، جلد تشخیص اور عالمی برادری کو الزائمر سے وابستہ علامات اور خطرے کے عوامل کے بارے میں آگاہ کرناہے۔الزائمر کی بیماری ڈیمنشیا یا نسیان کی سب سے عام شکل ہے،ڈیمنشیا ایک وسیع اصطلاح ہے جو ادراکی ضعف(Cognitive impairment)کا باعث بننے والے حالات کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ ڈیمنشیا یادداشت، سوچ، واقفیت، فہم، حساب، سیکھنے کی صلاحیت، زبان اور فیصلے کو متاثر کردیتی ہے۔ الزائمربیماری کانام ڈاکٹر الوئس الزائمر کے نام پر رکھا گیا، جنہوں نے 1906میں پہلی بار اس بیماری کی نشاندہی کی تھی۔ الزائمر ایک ایسی صورت ہے جس میں دماغ کے اندر پروٹین کے غیرمعمولی ذخائراور مڑے ہوئے ریشوں کا اجتماع ہوجاتا ہے،جن سے دماغی خلیات میں تبدیلی آتی ہے، دماغ سکڑ جاتا ہے اور ڈیمنشیا کی علامات پیدا ہوتی ہیں جو وقت کے ساتھ مزید بدترہو جاتی ہیں، جس کے نتیجے میں روزمرہ کے کام کرنے کی صلاحیت مکمل طور پر ختم ہوجاتی ہے۔اگرچہ ابتدائی مرحلے میں الزائمرمعمولی بھولنے اور توجہ مرکوز کرنے میں دشواری کے طور پر ظاہر ہو سکتا ہے، لیکن آہستہ آہستہ یہ اس مقام تک پہنچ جاتا ہے جہاں وہ اپنے آپ کو،اپنے پیاروں کو،اپنے بسائے ہوئے گھرکو بھی بھولنے لگتا ہے،ہر کوئی اس کے لیے اجنبی ہوجاتا ہے،خود کو اذیت میں محسوس کرتا ہے،لکھنے پڑھنے کی صلاحیت بھی زائل ہوجاتی ہے، اپنے آسان کاموں کو بھی انجام نہیں دے پاتا۔ یہ بیماری مہلک ہے،2019 میں الزائمر اور دیگر ڈیمنشیا نے ہندوستان میں 1,29,000افراد کو ہلاک کیا تھا، جو کہ تین دہائیوں میں سب سے زیادہ تعداد تھی۔افسوس! اس کا ابھی تک کوئی شافی علاج موجودنہیں ہے۔جو بھی علاج موجود ہے وہ صرف علامات کو کچھ وقت ملتوی رکھنے تک محدود ہے۔ مثلاً کولینیسٹریز(Cholinesterase) اور میمانٹین صرف عارضی ریلیف فراہم کرتے ہیں جب کہ ایڈوکانوماب (Aducanumab) جیسی نئی ادویات امید افزا ضرور ہیں، لیکن زیادہ قیمت، محدود دستیابی اور ہندوستانی ماحول میں ان کی افادیت ایک چیلنج بنی ہوئی ہے۔
ہندوستان میں الزائمر کے معاملات خطرناک حد تک بڑھ رہے ہیں۔2023میں ہوئی ایک تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ ملک کے اندر60سال اور اس سے زیادہ عمر کے 7.4فیصد افراد کو ڈیمنشیا ہے، جس کا مطلب یہ کہ تقریباً 8.8 ملین بزرگ اس سے متاثر ہیں۔ جن میں اکثریت خواتین کی ہے اوردیہی علاقوں میں اس کے معاملات زیادہ پائے گئے ہیں۔چونکہ ہندوستان میںمتوقع عمر بڑھنے کی وجہ سے بزرگوں کی تعداد میں اضافہ ہورہاہے،اس لیے الزائمر جیسی بیماریاں بھی بڑھ رہی ہیں۔بڑھاپے اورادراکی ضعف کے بارے میں بیداری کی کمی، بدنامی کا خوف اور ثقافتی مفروضوں کی وجہ سے الزائمر کی اکثر تشخیص اس وقت تک نہیں ہوپاتی جب تک کہ یہ اپنے آخری مراحل تک نہ پہنچ جائے۔ مزید برآں، ملک کا صحتی نگہداشت کا بنیادی ڈھانچہ الزائمر کے بڑھتے ہوئے معاملات کو سنبھالنے کے لیے ناکافی ہے، ڈیمنشیا کی دیکھ بھال کے لیے دماغی ماہرین اور دیکھ بھال کی سہولیات کی تعداد محدود ہے۔
الزائمر اور ڈیمنشیاکی فہم اس کی ابتدائی تشخیص، علاج، مریضوں اوران کی نگہداشت پر معموراہل خانہ کے لیے بہتر معیار زندگی کا باعث بن سکتی ہے۔اس کی جلدتشخیص بیماری کی رفتار کوسست کرسکتی ہے۔ تاہم، ہندوستان میں،بیشتر لوگ الزائمر کی انتباہی علامات سے لاعلم ہیں۔وہ علامات جن کا سطور بالا میں ذکر ہوچکا ہے،یہاں پر تفصیلی تذکرہ شامل ہے،مثلاً: موجودہ یادداشت میں کمی آتی ہے اور تھوڑی ہی دیر پہلے کی باتیں یاد نہیں رہتیں۔روزمرہ کے وہ کام جنہیں انسان پوری زندگی میں آسانی اور صحیح طریقے سے سرانجام دے رہا ہوتا ہے،انہیں انجام دینے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ بات کرنے میں دشواری ہوتی ہے اور آسان اور روزمرہ کے استعمال ہونے والے الفاظ کی ادائیگی بھی مشکل ہوجاتی ہے۔وقت اور جگہ یاد نہیں رہتی،وہ اپنی روزانہ کی آمدو رفت کے راستوںکو پہچان نہیں پاتا، یہاں تک کہ وہ یہ بھی بھول جاتا ہے کہ وہ کہاں، کس جگہ اور کس وقت پر موجود ہے۔ فیصلہ کرنے کی صلاحیت بالکل ختم ہوجاتی ہے، اکثر لین دین کے معاملات میں غلطیاں کرتے ہیں۔باریک بینی یا پیچیدہ سوچ کا فقدان ہوتا ہے،جس سے سوچنے اور سمجھنے کے معاملات کی باریک بینی میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔ چڑچڑاپن، اضطراب یا افسردگی رونما ہوتی ہے۔ لوگوں کو ان علامات کو پہچاننے اور طبی مدد لینے کی ترغیب دینے سے بیماری کی رفتار میں نمایاں فرق پڑ سکتا ہے۔
الزائمر کے مرض میں مبتلا ہونے کی حتمی وجہ تاحال تحقیق کے مراحل سے ہی گزر رہی ہے۔ تاہم اب تک کی دستیاب معلومات کے مطابق ان میں مختلف جین جس میں APOE-e4سب سے نمایاں ہے، کے علاوہ وٹامن بی 12کی کمی، سر کی چوٹ،ذیابیطس، ہائی بلڈ پریشر، فالج، نیند کی مسلسل کمی، موٹاپا، نیند آور، بے چینی و سردرد کی ادویات کا بے دریغ استعمال اور صحت مند دماغی و جسمانی سرگرمیوں کے فقدان جیسی وجوہات بھی بھولنے کی بیماری کا باعث بنتی ہیں۔ اس کے ساتھ تساہل پسندی، دیر سے سونا و جاگنا، تمباکو نوشی اور غیر متوازی غذا کا استعمال بھی حافظے کی کمزوری کا سبب بن سکتا ہے۔واضح رہے کہ جو افراد مستقل بنیادوں پر ذہنی و جسمانی معمولات کو اپنا تے ہیں، ان میںڈیمنشیامیں مبتلا ہونے کے امکانات کم ہوتے جاتے ہیں۔ یہاں یہ امر بتانا بھی ضروری ہے کہ گزشتہ سالوں کے مختلف تحقیقاتی شواہد سے معلوم ہوا ہے کہ فضائی آلودگی بھی ڈیمنشیا کے خطرے کو بڑھا دیتی ہے۔
جہاں جدید طب نے الزائمر کے علاج میں اہم پیش رفت کی ہے، وہیں ہندوستان میں آیوش طبی نظام، جدیدطب کے ساتھ روایتی علاج میں تحقیق کو فروغ دے کر الزائمر کی نگہداشت میں اہم کردار ادا کرسکتاہے۔ طب یونانی میںکافی تعداد میں مفرد اور مرکب ادویات موجود ہیں،جو نسیان اور دماغی امراض میں صدیوں سے استعمال ہورہی ہیں۔ان پر مزید تحقیق ڈیمنشیا اور الزائمر کے شافی علاج کی بنیاد بن سکتی ہے،اس حوالے سے طب یونانی کا مزاج پر مبنی علاج ایک سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے۔
بالآخر، یہ ایک مشترکہ ذمہ داری ہے،اس کے لیے طبی تحقیقی اداروں، فلاحی انجمنوں، حکومتوں، صحتی نگہداشت سے وابستہ پیشہ وروں اورمعاشرہ کو چاہیے کہ وہ الزائمر کے مریضوں کو فراموش نہ کریں، علاج کی تلاش عجلت اور عزم کے ساتھ جاری رکھیں اور مریض کے اہل خانہ جو اس کی نگہداشت پر معمور ہیں، انہیں پیشہ ورانہ مدد بھی فراہم کریں۔
(مضمون نگارمعالج، آزاد کالم نویس اور
کتاب ’انڈیاز ویکسین گروتھ اسٹوری‘کے مترجم ہیں)
[email protected]