نفرت کے شعلوں کو ہوا دینے کی مذموم کوشش

0

اس وقت مغربی ایشیا میں ہر طرف جنگ چھڑی ہوئی ہے۔ کہیں شدت ہے تو کہیں کم شدت ہے، مگرپورا خطہ زبردست تنائو میں ہے۔ غیرملکی طاقتیں اپنے اپنے حلیفوں کو مدد پہنچانے کے لئے اپنی افواج بھیج رہی ہیں۔ اسی دوران سب سے زیادہ تصادم کی خطرہ اگرکہیں ہے تو وہ اسرائیل اور ایران اورایران نواز حزب اللہ کے درمیان ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ اسرائیل جس خطے میں رہ رہا ہے اس خطے کے تمام ممالک سے جھگڑا مول لے کر کون سے مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اس دوران اسرائیل کے اندر اعلیٰ ترین قیادت میں اختلافات کی خبریں اجاگر ہونے لگی ہیں۔ اسرائیل کے وزیر دفاع نے پرائیویٹ مذاکرات میں حماس کے ساتھ سمجھوتہ نہ ہونے کے لئے اپنے ملک اوراپنے ملک کی قیادت کو ذمہ دار قرار دیا ہے۔ یہ بات نہ صرف یہ کہ اسرائیل کے اندر ایک بہت بڑے معتدل مزاج طبقات کہہ رہے ہیں بلکہ امریکہ اوردیگر اسرائیلی حلیف بھی کچھ بہ آواز بلند اور کچھ دبے الفاظ میں موجودہ قتل وغارت گری اور کشیدگی کے لئے نیتن یاہو کو ذمہ دار قرار دیتے رہے ہیں۔
اس وقت جب پورے مغربی ایشیا میں جنگ وجدال کے بادل ہیں اسی دوران اسرائیل کے ایک وزیر ایتمار بین گویر نے ملت اسلامیہ کو مشتعل کرنے کی ایک اور مذموم حرکت کی ہے۔ انہوںنے قبلہ اول بیت المقدس کی حرمت کو پامال کیا ہے اور مسلمانوںکے تیسرے عظیم ترین مقدس مقام میں بدتہذیبی کے ساتھ داخل ہوکر شیطانی حرکات وسکنات کی ہیں اوراشتعال انگیز نعرے لگائے ہیں۔ دراصل یہ مذموم حرکت اس سے پہلے وہ خود بھی اور ان کے دیگر کابینی وزیر بھی کرچکے ہیں۔ بیت المقدس سے جاری ہونے والی ویڈیو اور تصاویر میں یہ دکھایا گیا ہے کہ کس طرح گویر الٹے لیٹ کر یہودیوں کی ایک پرانی رسم کو ادا کر رہے ہیں اوران کے ساتھ دیگر سخت گیرعناصر موجودہیں جو ان کے سر میں سر ملا رہے ہیں۔ اس دوران اسرائیل اپنی حرکتوں اور تصادم کو ختم کرنے کے بجائے امریکہ اور دیگر اپنے حلیفوںکو اس بات کے لئے مجبورکر رہا ہے کہ یہ ترقی یافتہ ممالک زیادہ سے زیادہ تعدادمیں گولہ باروداوراسلحہ فراہم کریں۔ اسرائیل نہ صرف یہ کہ ارض فلسطین بلکہ قرب وجوار کے ممالک کے ساتھ تصادم کو اس قدر بلند سطح پر لے جانا چاہتا ہے جہاں اس خطے کا امن وامان پامال ہو اوریہ میدان پوری د نیا کی فوجوںکی آماجگاہ بن جائے۔ ایسا لگتا ہے کہ ان حالات میں جس طریقے سے اسرائیل اپنی ہٹ دھرمی پر آمادہ ہے یہ صورت حال کسی بڑی جنگ یا تیسری عالمی جنگ کی شکل نہ لے لے۔ یہ موقع ایسا نہیں ہے کہ جب دنیا کی تمام ذمہ دار عالمی طاقتیں اسرائیل کے ساتھ صف بندہوجائیں اور مظلوم فلسطینیوںکو اپنے ہتھیاروںکا نشانہ بننے جانے کی اجازت دیں۔ حالات اس قدر تشویشناک ہیں کہ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل گویتریس نے غزہ میں مسلسل معصوم بچوں، عورتوںکی جانوںکے اتلاف پر تشویش ظاہر کی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس پورے بحران میں مغربی طاقتیں خا ص طورپر امریکہ اسرائیل کی بجائے ایران پر دبائو ڈال رہا ہے کہ وہ اسرائیل کے خلاف اپنی ’’اشتعال انگیزی‘‘ پر قابوپائے اور خطے میں کسی جنگ کے حالات کوپیدا نہ ہونے دے۔ یہاں یہ بات باور کرانی ضروری ہے کہ ایران نے سخت وارننگ دی ہے کہ وہ آئندہ 24 گھنٹے کے اندر اندر کوئی سخت انتقامی کارروائی کرسکتا ہے۔ یہ کارروائی کیا ہوگی اس بابت ابھی تک ایران کی طرف سے کوئی وضاحت نہیں ہوئی ہے مگر ایران نے واضح کردیا ہے کہ یہ کارروائی سخت ہوگی اور اس کے سخت نتائج ہوںگے۔ اس پر اسرائیل نے جوابی وارننگ دی ہے اورکہا ہے کہ اس کے عوامی مقامات پر کارروائی ہوتی ہے تو ایران کو اس کے نتائج بھگتنے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ یہ صورت حال کسی بھی مہذب، امن پسند ملک کے لئے یا ملکوںکے گروپ کے لئے اچھی نہیں ہے۔ خوداسرائیل کے اندر ایسے لیڈر موجود ہیں جوکہ اس صورت حال سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں کیونکہ ان کو لگتا ہے کہ اس تصادم کا کوئی خاتمہ ہوجائے مگراس بات کا امکان نہیں ہے۔ مذکورہ بالا وزیر موصوف پہلے ہی اپنی اعلیٰ ترین قیادت کو وارننگ دے چکے ہیں کہ اس قسم کے جارحانہ عزائم اسرائیل کے خود کے لئے بھی اچھے نہیں ہیں۔ انہوں نے ابھی دوروز قبل اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ یہ صورت حال اچھی نہیں ہے اوراسرائیل کے لئے بھی اچھی نہیں ہے۔ اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو جوکہ اکثر وزیر دفاع کے نظریات سے مختلف موقف اختیار کرتے رہے ہیں، گویر کے اس بیان سے کہ جنگ بندی سمجھوتے کے لئے حماس نہیں بلکہ خودان کا ملک ذمہ دار ہے۔ نیتن یاہو فلسطینیوںکے ساتھ موجودہ معرکہ کو اپنے ہی انداز میں پروان چڑھا رہے ہیں۔ وہ مذاکرات کی بجائے مکمل فتح کے قائل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میں اورمیرا دفاعی نظام اسی متبادل کا حامی ہے کہ بات نہ کی جائے بلکہ فتح حاصل کی جائے اوراس کے علاوہ سب بکواس ہے۔ یہ بیان نہ صرف یہ کہ اسرائیل کے اندر خلفشارکی طرف اشارہ کرتا ہے بلکہ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امن عالم کے لئے اسرائیل کتنا بڑا خطرہ ہے اور خاص طورپر نیتن یاہو کی قیادت والا ملک جوکہ پہلے ہی بدترین اقتصادی اورسیاسی بحران سے دوچار ہے اس مخمصے سے اور جنگ کے جال سے کیسے نکلے گا۔ یاد رہے کہ اسرائیل ہمیشہ سے اس بات کا دعویٰ کرتا رہا ہے کہ یہ ملک یعنی اسرائیل وہ مقام ہے جہاں پر پوری دنیا کے یہودیوںکو آکر ملنا ہے۔ اگریہی صورت حال مغربی ایشیا میں رہی تو اسرائیل کے قیام کے بنیادی فلسفے کو اس سے یقینا چوٹ پہنچتی ہوگی کیونکہ یہ صورت حال دنیا میں رہ رہے کسی بھی یہودی کے لئے کوئی ماڈل صورت حال نہیں ہے۔ حزب اللہ لگاتار جنوبی لبنان سے لگی ہوئی اسرائیل کی سرحد جسے شمالی اسرائیل کہا جاتا ہے مسلسل میزائل برسا رہا ہے اوراسرائیل جس کو اس بات کا گھمنڈ تھا کہ اس کے پاس آئرن ڈوم کا آہنی ڈھال موجود ہے ، کے باوجود حزب اللہ کے میزائل لگاتار اسرائیل کے آبادی والے علاقوں اور فوجی اڈوں اور دیگر عسکری اہمیت کے حامل مقامات پر گر رہے ہیں اور تباہی مچا رہے ہیں۔ جن مقامات پر حزب اللہ کے میزائل گر رہے ہیں ان مقامات پر کافی افراتفری ہے اوراسرائیل ان لوگوں کو کسی طرح محفوظ مقامات پر پہنچانے کی کوشش کر رہا ہے جس طرح ایک زمانے میں عراق کے صدر صدام حسین کے ممکنہ حملوں سے بچائو کے لئے اس وقت کے اسرائیلی حکمرانوں نے آہنی بنکر بنائے تھے۔ یہاں یہ بات بے محل نہ ہوگی کہ جب پچھلے دنوں ترکی کے وزیراعظم طیب اردگان نے غزہ میں اسرائیل کی وحشیانہ بربریت پر اظہار تکلیف کرتے ہوئے صیہونی قیادت کو یہ وارننگ دی تھی کہ ان کا ملک غزہ میں مداخلت کرسکتا ہے تواس اسرائیل کی اعلیٰ ترین قیادت نے ان کی تصاویر کے ساتھ صدام حسین کی ان ایام کی تصاویر چسپاں کرکے میڈیا اورسوشل میڈیا پر گھمایا تھا جس میں ان کی بہت خراب حالت دکھائی گئی تھی۔ اسرائیلی ریاست یہ باور کرانا چاہتی تھی کہ اگر ترکی نے بھی زیادہ خلیفہ بننے کی کوشش کی تواس کا حشر صدام حسین سے جدا نہ ہوگا۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS