ہندوستان میں آزادی کی جنگ مختلف علاقوں اور طبقات نے جس انداز سے لڑی اس میں سب سے اہم جذبہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی رہا ہے۔ کوئی بھی ہندوستان کی تحریک اس جذبے سے عاری نہیں رہی۔ وہ 1857کی پہلی جنگ آزادی رہی ہے۔ یا ملک کے مختلف حصوں میں گاندھی جی کے ذریعہ چلائی جارہی مختلف تحریکیں یا احتجاجی مظاہرے ہوں وقت ، مقام اور حالات کے مطابق انگریزوں کے خلاف جذبات پنپتے رہے ہیں اور ان ہی جذبات میں مضمر ہے ہندوستان کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور طبقاتی بھائی چارہ۔ انگریزوں کے آنے سے قبل ہندوستان کو سونے کی چڑیاکہا جاتا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ غیر ملکی طاقتوں کے آمد سے قبل ہندوستان ایک مشترکہ تہذیب اور ثقافت اور معیشت والا مضبوط ملک تھا۔ تمام طبقات ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر کام کرتے تھے اور ایک دوسرے کے ساتھ کندھا سے کندھا ملا کر ہندوستان کو دنیا کی عظیم طاقت اور معیشت بنایا تھا۔ انگریزوں کے آنے کے بعد اس جذبے کو ہی ختم کرنے کی کوشش کی گئی جگہ جگہ فسادات کرا کر انگریزوں اس بھائی چارے کو ختم کیا لیکن عظیم ہندوستان کو تاریخ اس با ت کے گواہ ہیں کہ ہندوستان کے لوگوںنے ان سازشوں کو ناکام بنا دیا۔ جنگ آزادی کا کوئی بھی واقعہ ہو ، کوئی بھی تحریک ہو اس میں سب سے اہم جذبہ حب الوطنی اور فرقہ وارانہ اتحاد رہا ہے۔
اترپردیش میں جذبۂ آزادی ملک کی دوسری ریاستوں کی طرح سرگرم رہا۔ 1925جب ہندوستان میں جنگ آزادی کی تحریک اس قدر متحد اور مربوط نہیں تھی تو کئی سطحوں پر انفرادی یا علاقائی طور پر انگریزوں کو اقتدار سے باہر کرنے کے لیے کوششیں کی گئیں ان ہی کو ششوں میں سے ایک کوشش کاکوری ڈکیتی تھی۔ جس میں سرفروش مجاہدین آزادی نے جذبۂ حب الوطنی سے سرشار ہو کر ایک منصوبہ بنایا اور ٹرین میں ڈاکہ ڈالنے کی کوشش کی تاکہ اس سے ملک کو آزاد کرانے میں مدد مل سکے۔ اس سازش کے تحت سہارنپور سے لکھنؤ جانے والی ٹرین کونشانہ بنا یاگیا۔ اس ٹرین میں بڑی مقدار میں سونے چاندی کو ہندوستان سے لوٹ کر برطانیہ میں منتقل کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اس ٹرین کی حفاظت کے لیے سخت انتظامات کیے گئے تھے۔9اگست 1925کو مجاہدین آزادی رام پرساد بسمل اور اشفاق اللہ خاں اوران کے معاونین صرف نوٹوں سے بھرے کچھ بورے ہی لے کر فرار ہو سکے تھے۔ یہ واردات برطانوی اقتدار کو متزلزل کرنے کے لیے کافی تھی۔ کیونکہ حکومت نے اس ٹرین کی سیکورٹی کے بندوبست کے لیے غیر معمولی حفاظت کیے تھے اور انتہائی رازداری کے ساتھ اس ٹرین کو مختلف راستوں سے گزارا گیا تھا۔ مگر جاں باز دس انقلابیوں نے 9اگست 1925 کوکاکوری کے مقام پر روک لیا۔ کاکوری لکھنؤ سے محض 10کلو میٹر دور ہے اور فی الحال اس ٹرین کی منزل لکھنؤ تھی۔ مجاہدین آزادی نے منزل تک پہنچنے سے پہلے ہی ٹرین کو روک کر اور ٹرین کے گارڈ کو یرغمال بنا لیا اور لوٹ کر فرار ہوگئے۔ یہ مجاہدین آزادی ایک نومولود تنظیم ہندوستان ری پبلیکن ایسو سی ایشن کے ممبران تھے اس ایسو سی ایشن کا قیام کا مقصد ہندوستان کو برطانوی استبداد سے آزاد کرانا تھا۔ انہوںنے یہ بھی فیصلہ کیا کہ اگر ا ن کو مقصد کے حصول کے لیے مسلح جدوجہد کرنی پڑی تو اس سے بھی اجتناب نہیں کریں گے۔ ظاہر ہے کہ اسلحہ حاصل کرنے کے لیے ری پبلیکن ایسو سی ایشن کو سرمایہ کی ضرورت تھی اور انگریز 1857کے بعد سے کس طرح ہندوستان کو لوٹ رہے تھے اس سے عام ہندوستانی دانے دانے کو محتاج تھا۔ مجاہدین آزادی کو لگا کہ ہتھیار خریدنے اور دیگر تنظیمی سرگرمیاں چلانے کے لیے سرمایہ اور ہتھیاروں کے بغیر مقصد کو حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ یہی نیت کارفرماں تھی۔ اس ٹرین کو لوٹنے کے لیے۔ بدقسمتی سے انگریزوں نے اس واردات کے بعد بڑے پیمانے پر تلاشی مہم چلا کر ایک ماہ کی مختصر مدت میں رام پرساد بسمل اور اشفا ق اللہ خاں کے ساتھیوں کو گرفتار کرلیا۔ اس کانڈ میں مذکورہ بالا دو مجاہدین کے علاوہ راجندر لہری ، چندر شیکھر آزاد ، سچندر بخشی ، کیشاب چکرورتی ، منمناتھ گپتا، مکندی لال، مراری لال گپتا، بنواری لال شامل تھے۔ اس واردات کے دوران حادثاتی طور پر ایک شخص کی موت ہوگئی تھی اور اسی کو بہانہ بنا کر انگریزوںنے ایک بڑا مقدمہ تیار کرلیا اور اس مقدمے کی سماعت بڑی تاریخی ہے جس میں ہندوستان کے بڑے مایہ ناز وکلاء اور ماہرین قانون اپنی خدمات پیش کیں۔ رام پرساد بسمل اور ان کے رفقاء کو لوٹ مار اور قتل کے معاملات میں ملزم بنا یا گیاتھا۔طویل سماعت کے بعد 14لوگوں کو ناکافی شواہد کے سبب رہا کردیا گیا تھا جبکہ اشفا ق اللہ خاں اور سجندر ناتھ بخشی بعد میں گرفتار ہوئے تھے۔ مقدمے میں کچھ ملزمین کو بیماری کی وجہ سے بھی بری کردیا گیا تھا۔ دو افراد ویر بندھر تیواری اور جیوتی شنکر کو بھی بعد میں بری کردیا گیا۔ بعد ازاں دو اور قیدی پنساری لال اور اندو گھوشن مترا جو کہ وعدہ معاف گواہ بن گئے تھے۔ ان کو معمولی سی سزا دے کر چھوڑ دیا گیا تھا جن لوگوں کو سزائے موت دی گئی تھی ان میں رام پرساد بسمل، اشفاق اللہ خاں ،روشن سنگھ ، راجندر ناتھ لہری شامل ہیں۔ جن لوگوں کو کالا پانی بھیجا گیا تھا ان میں سچندر ناتھ سانیال ، سچندر ناتھ بخشی ، گووند چرن کار،جوگیش چندر چٹری جی اور مکندی لال شامل ہیں۔ منماتھن گپتا کو 14سال کی سزا دی گئی تھی جبکہ راجکمار سنہا ، وشنو شرن دبلش، رام کرشن کھتری اور سریش چندر بٹھا چاریہ کو 10-10سال کی سزا سنائی گئی تھی اس کے علاوہ بھوپیندر ناتھ سانیال ، پریم کرشن کھنہ، بھنوری لال اور رام دلارے ترویدی کو 5-5سال کی سزا دی گئی تھی۔ چار سال کی سزا پرمویش چٹرجی کو دی گئی تھی جبکہ رام ناتھ پانڈے کو تین سال کی سزا دی تھی۔
کاکوری کانڈ کا مقدمہ بھی کافی دلچسپ رہا۔ مجاہدین آزادی کا کہنا تھا کہ کیونکہ یہ لوگ انگریزوں کے اقتدار کو ختم کرنا چاہتے تھے اور انگریزوں کو ہندوستان سے بھگا دینا چاہتے تھے۔ ا ن کے مقاصد سیاسی تھے اس لیے ان کو عام جرائم پیشہ کی طرح نہیں بلکہ سیاسی قیدی کے طور پر دیکھا جانا چاہیے اوران کو اسی کے حساب سے حقوق اور مراعات ملنا چاہیے۔ ان مطالبات کو لے کر قیدیوں نے بھوک ہڑتال کردی اور یہ بھی ہندوستان کی آزادی کی ایک ایسی جدوجہد رہی جس کا ہرمرحلہ دلچسپ تھا اور ہندوستان میں جذبۂ آزادی کو فروغ دینے والا تھا۔
کاکوری ٹرین ڈکیتی اور جدوجہد آزادی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS