ملکوں کے باہمی تعلقات میں اتارچڑھاؤ آتا رہتا ہے مگر حالات پر نظر رکھنے والی حکومتیں جذبات کی رو میں بہہ کر فیصلے نہیں لیتیں۔ مالدیپ کے معاملے میں بھی حکومت ہند نے جذبات کی رو میں بہہ کر فیصلے نہیں لیے۔ اسی لیے ہند-مالدیپ تعلقات آج پھر سے مستحکم نظر آنے لگے ہیں اور اسی لیے ہندوستانی وزیرخارجہ ایس جے شنکر کے دورۂ مالدیپ کی بڑی اہمیت ہے۔ محمد معزو کے صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد یہ ہندوستان کی کسی بڑی شخصیت کا پہلا مالدیپ دورہ ہے۔ اس کے دوران جے شنکر نے ہندوستان کے تعاون سے شروع کیے گئے بڑے پروجیکٹوں کا افتتاح کیا۔ اسی دورے کے دوران مالدیپ میں یوپی آئی پیمنٹ کی سہولت شروع کرنے کے لیے دونوں ملکوں کے مابین معاہدے پر دستخط ہوئے۔ وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے کہا کہ ’ہندوستان ’’نیبر ہُڈ فرسٹ‘‘ پالیسی کے تحت جزائر پر مشتمل مالدیپ کی ترقی کو ترجیح دے گا۔ ‘ جبکہ محمد معزو نے یہ امید ظاہر کی ہے کہ ’مسٹر جے شنکر کا دورہ ہندوستان اور مالدیپ کے درمیان پائیدار دوستی اور تعاون کو مزید گہرا کرے گا۔‘معزو کا ایسا کہنا ان لوگوں کے لیے حیرت کی بات ہو سکتی ہے جو صدارتی انتخابات کے دوران ہندوستان کے تئیں ان کے رخ سے یا صدر بننے کے بعدکے ابتدائی دنوں کے بیانات سے تو واقف ہیں، اس کے بعد کے حالات سے واقف نہیں ہیں۔ دونوں ملکوں کے مابین تعلقات واقعی تلخ ہوگئے ہوتے تو مودی کی تیسری مدت کار کے لیے وزیراعظم کا حلف لینے کی تقریب میں محمد معزو کو شرکت کے لیے دعوت نہ دی جاتی اور اگر دی جاتی اور معزو کو شرکت نہ کرنی ہوتی تو وہ کوئی بہانہ بناتے لیکن وہ حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے لیے ہندوستان تشریف لائے۔ یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ ہندوستان-مالدیپ کے مابین تعلقات کشیدہ نہیں ہیں، البتہ صدارتی انتخابات کے دوران معزو نے ہند مخالف بیانات دیے تھے، اس لیے صدر بننے کے بعد وہ ایکدم سے ہند حامی پالیسی پر عمل پیرا نہیں رہ سکتے تھے۔ غالباً وہ یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ چین کو زیادہ اہمیت دینا کس حد تک مالدیپ کے حق میں ہے مگر وہ ہندوستان سے اس حد تک تعلقات خراب نہیں کرنا چاہتے تھے کہ مالدیپ کو پوری طرح چین پر ہی انحصار کرنا پڑے۔ ان سے پہلے مالدیپ کے صدور پہلے غیر ملکی دورے کے لیے ہندوستان کا ہی انتخاب کیا کرتے تھے۔ محمد معزو نے ایسا نہیں کیا لیکن وہ پہلے غیر ملکی دورے پر ہندوستان نہیں گئے تو چین بھی نہیں گئے، وہ ترکیہ گئے۔ اس سے وہ خود کو مسلمانوں سے جڑاؤ رکھنے والا صدر ہونے کا اشارہ دے سکے اور چین کو بھی ناخوش نہیں کیا، البتہ معزو حکومت نے ہندوستانی فوجیوں کو مالدیپ سے واپس بھیجنے کی مہم شروع کی اور ’ہائیڈروگرافک سروے کے معاہدے‘ کو منسوخ کرنے کا اعلان کیا تو یہ واقعی حیرت کی بات تھی، کیونکہ اس معاہدے کے تحت ہندوستان اور مالدیپ کو مل کر مالدیپ کے آبی علاقے، لیگون، سمندری لہروں کا مطالعہ کرنا تھا۔ ’ہائیڈروگرافک سروے کے معاہدے‘ منسوخ کیے جانے سے ایسا لگا تھا کہ محمد معزو نے مالدیپ کے سابق صدر ابراہیم محمد صلح کے ’انڈیا فرسٹ‘ کی پالیسی کو بدل کر ’انڈیا آؤٹ‘ کا نعرہ یوں ہی نہیں دیا تھا، یہ محض انتخابی نعرہ نہیں تھا، اسی نعرے پر ان کی حکومت عمل کررہی ہے لیکن چند مہینے میں ہی یہ اندازہ ہوگیا کہ ’انڈیا آؤٹ‘ کا معزو کا نعرہ ایک انتخابی نعرہ تھا اور وہ ہندوستان کی اہمیت سے بڑی اچھی طرح واقف ہیں۔ وہ ہندوستان سے مستحکم تعلقات رکھنا چاہتے ہیں۔
مالدیپ کے صدر محمد معزو نے یہ امید ظاہر کی ہے کہ ’ہماری شراکت داری دونوں ممالک کے درمیان سلامتی، ترقی اور ثقافتی تعلقات کو مزید مستحکم کرے گی۔ ہم اس خطے میں مزید خوشحال مستقبل بنائیں گے۔‘معزو نے ’ایکس‘پر لکھا ہے، ’میں مالدیپ کی ہمیشہ مدد کرنے پر حکومت ہند اور خاص طور پر وزیر اعظم نریندر مودی کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔‘یہ کہنے میں تامل نہیں ہے کہ معزو سنبھل گئے، یہ سمجھنے میں دیر نہیں کی کہ چین کے ’قرض-جال‘ میں مالدیپ پھنسا ہوا ہے اور وہ ہندوستان سے بھی بگاڑلیں گے تو پھر ان کا ملک دوسراپاکستان بن جائے گا یا اس کے حالات سری لنکا کے حالات جیسے ہوجائیں گے۔ ہندوستانی وزیرخارجہ جے شنکر کے اس دورے کی واقعی بڑی اہمیت ہے۔ اس دورے سے ہند-مالدیپ یہ اشارہ دینے میں کامیاب رہے کہ ان کے مابین تلخی نہیں، وہ اپنے صدیوں پرانے تعلقات کو فراموش کر کے تاریخ میں ایک ایسے نئے باب کا اضافہ کرنا نہیں چاہتے جس سے وہ دونوں تو نہیں مگر چین فائدے میں رہے۔
[email protected]
جے شنکر کا دورۂ مالدیپ
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS