ایم اے کنولؔ جعفری
حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کے قتل کو ایک ہفتے سے زیادہ کا وقت گزر گیا ہے لیکن ابھی تک انہیں قتل کرنے کی ذمہ داری کسی ملک یا خفیہ ایجنسی نے نہیں لی ہے۔31 جولائی، 2024 کی رات میں حزب اﷲ کے کمانڈر فواد شکور کو لبنان کے دارالخلافہ بیروت کے جنوبی نواح میں اور حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کو ایران کے دارلحکومت تہران کے گیسٹ ہاؤس میں رات ہی کے وقت ہلاک کر دیا گیا تھا۔ اسرائیل نے فواد شکور کوہلاک کرنے کا تو ڈھنڈورا پیٹا لیکن اسماعیل ہنیہ کے قتل پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ اسماعیل ہنیہ کے قتل کی گتھی الجھی ہوئی ہے۔ ان کی موت میزائل حملے میں ہوئی یا رہائش گاہ میں پہلے سے نصب بم ان کی موت کا سبب بنا۔ غیر ملکی اخبارات کے مطابق، اسماعیل ہنیہ کی موت میزائل حملے سے نہیں ہوئی۔ ان کی موت چند ایمان فروش ایرانی غدار ایجنٹوں کے ذریعے ان کے کمرے میں نصب کیے گئے دھماکہ خیز مواد سے ہوئی ہے۔ان کے ساتھ ان کا ذاتی محافظ بھی ماراگیا۔ایران کی سرکاری خبررساں ایجنسی ’ارنا‘نے کہا کہ ہنیہ کے ٹھکانے پر گائیڈڈ میزائل سے حملہ کیا گیا۔’ الجزیرہ‘ کے مطابق، ایران کے نیم فوجی دستے ’اسلامی ریوالیوشنری گارڈ کور‘یعنی پاسداران انقلاب نے 3 اگست کو جاری بیان میں کہا کہ ہنیہ پر حملہ مختصر فاصلے تک مار کرنے والے میزائل سے گیا جس میں 7 کلوگرام دھماکہ خیز مواد تھا۔
پاسداران انقلاب نے ہنیہ کے قتل کا الزام اسرائیل پر عائد کرتے ہوئے اسے مناسب وقت اور جگہ پر سخت سزادینے کاببانگ دہل اعلان کیا ہے ۔ اس کا بیان امریکہ کے معروف اخبار ’نیویارک ٹائمز‘میں شائع ہونے والی رپورٹ کے کئی روز بعد آیا۔ رپورٹ میں دعویٰ کیاگیاتھا کہ اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت ریموٹ سے کنٹرول ہونے والے بم سے کی گئی۔ مشرقی وسطیٰ کے یوروپی مبصر ایلیا جے میگنیئر نے دعویٰ کیا کہ اسرائیل نے ’اسپائینگ سافٹ ویئر‘ کی مدد سے باقاعدہ ٹریک کرکے اسماعیل ہنیہ پر حملہ کیا۔ اسرائیل ساختہ اس سافٹ ویئر سے کسی شخص کی لوکیشن اور اپارٹمنٹ میں موجودگی کاپتہ چل جاتا ہے ۔ ہنیہ کی لوکیشن وہاٹس ایپ پر بیٹے سے بات کرتے وقت معلوم کی گئی۔ یہ اسرائیلی سائبر انٹلی جنس فرم’ایس ایس او گروپ‘ کی جانب سے تیار کردہ پیگاسس سافٹ ویئر ہے جو اسمارٹ فون میں صارف کی اجازت کے بغیر اس کے میسیج، تصویر ، لوکیشن، ڈیٹا اور کیمرے پر رسائی حاصل کر سکتا ہے۔ اسماعیل ہنیہ کو جس گیسٹ ہاؤس میں ٹھہرا یاتھا، وہ ایک وسیع کمپاؤنڈ ’نیشات‘ میں واقع ہے اور پاسداران انقلاب فورس کی نگرانی میں آتا ہے۔دعویٰ کیا گیا کہ دھماکے کے لیے ’موساد‘ نے ایرانی سیکورٹی ایجنٹوں کی خدمات حاصل کیں اورہنیہ کے گیسٹ ہاؤس میں موجود ہونے کی تصدیق کے بعد دھماکہ کیا گیا۔ اس واقعے سے جہاں ایرانی خفیہ ایجنسیوں اور حفاظتی دستوں کی زبردست ناکامی سامنے آئی وہیں یہ واردات پاسداران انقلاب کے لیے بھی بڑی شرمندگی کا باعث ہے۔ اس سانحے سے جوہری ہتھیار کی دوڑ میں شامل ایران کی طاقت کا کھوکلا پن اجاگر ہوگیا ہے۔
اسماعیل ہنیہ30 جولائی کو ایران کے نو منتخب صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے لیے تہران میں تھے۔ دعوت پرآئے مہمان کے اپنی زمین پر قتل کے بے حد سنگین معاملے نے دنیا بھر میں ایران کی فضیحت کرادی۔ حماس کے خاتمے کے لیے بنیامن نیتن یاہو غزہ جنگ کو لمبا کھینچنا چاہتے ہیں جبکہ ہنیہ جلدی ختم کرانے کے حق میں تھے۔ ہنیہ کے قتل کے بعد غزہ-اسرائیل جنگ کا طول پکڑنا لازمی ہے۔ سب سے محفوظ مقام پرہنیہ کے قتل سے اسرائیل یہ ثابت کرنا چا ہتا تھا کہ ایران کا خفیہ محکمہ انتہائی کمزور ہے۔ ایران میں کہیں بھی اور کبھی بھی حملہ کیا جا سکتا ہے۔ حزب اﷲ کے لیے پیغام یہ ہے کہ جب ایران اپنے گھر میں کسی کی حفاظت نہیں کر سکتا تو کسی کو باہر کیا تحفظ دے سکتا ہے؟ حملے کی بات کریں تو اگر ایران کے اوپر راکٹ، میزائل یاڈرون سے حملہ ہوتا تو وہ اسے ناکام بنا دیتا۔ اگر کسی وجہ سے اس کا میزائل ڈیفنس سسٹم ناکام ہو جاتا توگیسٹ ہاؤس کی عمارت کو زبردست نقصان پہنچتا لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ ’ارنا‘ کے مطابق، ہنیہ کے ٹھکانے پر گائیڈڈمیزائل سے حملہ کیا گیا۔ دھماکے سے عمارت ہل گئی، کچھ کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹے اور دیوار کا کچھ حصہ منہدم ہوا۔ اس کا ایک ہی مطلب ہے کہ حملہ میزائل سے نہیں بلکہ ہنیہ کے کمرے میں موجود دھماکہ خیز مواد سے ہوا۔ ایرانی صدرڈاکٹر مسعودپزشکیان نے کہا، ’ہم انہیں اس حملے سے توبہ کرنے پر مجبور کر دیں گے۔ ایران یقینی طور پر اپنی خودمختاری اور وقار کا دفاع کرے گا۔‘ ہنیہ کی ہلاکت کے بعد ایران کے اہم ترین رہنماؤں کے تحفظ پر بھی سوال اٹھ رہے ہیں۔
برطانوی اخبار ’دی ٹیلی گراف‘کے مطابق، گیسٹ ہاؤس میں ہنیہ کے متوقع قیام والے کمروں میں تین دھماکہ خیز آلات نصب کیے گئے تھے۔ ان آلات میں 31 جولائی کی صبح ایران کے باہر سے ریموٹ کنٹرول کے ذریعے دھماکہ کیا گیا۔ اخبار کے مطابق، اسرائیل کی خفیہ ایجنسی ’موساد‘ نے کرائے پر لیے ’اسلامی انقلابی گارڈ کارپوریشن‘ کے ایجنٹوں کے ذریعے دھماکہ خیز موادنصب کرایا تھا۔ ایرانی تفتیش کاروں کوبھی یقین ہو گیا کہ ’موساد‘ نے ’انصارالہدایٰ سیکورٹی یونٹ‘ کے ایجنٹوں کی خدمات حاصل کیں۔ اس یونٹ کے پاس اعلیٰ سطح کی شخصیات کی ذمہ داری ہے۔ عمارت کے سیکورٹی کیمروں کی ویڈیو میں مذکورہ ایجنٹوں کو چند منٹوں میں کئی کمروں میں داخل ہوتے اور باہر نکلتے دیکھا گیا۔ برطانوی اخبار کے مطابق، یہ ایجنٹ اپنا کام کرکے ملک سے باہر چلے گئے۔ پا سداران انقلاب کی ایلیٹ فورس کے دوسرے ذمہ دار نے کہاکہ ہنیہ کی ہلاکت ایران کی تذلیل اور بڑا سیکورٹی نقص ہے۔ ایرانی صدر کے قریبی شخص کا کہنا ہے کہ سیکورٹی نقص صدر کی پالیسیوں سے ناخوش پاسداران انقلاب کی جانب سے ان کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی غرض سے دانستہ طور پر بھی کیا جا سکتا ہے۔ دراصل ہنیہ کا قتل مئی میں ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے جنازے کے دوران طے پایا تھا لیکن عمارت میں زیادہ بھیڑہونے کے سبب ناکامی کے امکانات کے مدنظر اسے ملتوی کیاگیا۔
اسرائیلی فوج کے ترجمان ڈینیل ہگاری نے پریس کانفرنس میں بتایاکہ اسماعیل ہنیہ کے قتل والی رات فوج نے بیروت پر فضائی حملہ کرکے فواد شکور کو ہلاک کیاتھا لیکن اس کے بعد پورے مشرق میں کوئی فضائی یا میزائل یا ڈرون حملہ نہیںکیا ۔ ایرانی رہنما آیت اﷲ علی خامنہ ای نے اسماعیل ہنیہ کے قتل کا الزام اسرائیل پر لگایا تو حماس نے اس کے لیے اسرائیل کے ساتھ امریکہ کو بھی قصوروار ٹھہرایا۔ امریکہ نے ہنیہ قتل میں شامل ہونے سے انکار کیا تو اسرائیل خاموش ہے۔ آیت اﷲ علی خامنہ ای نے فوج کو ہنیہ کی موت کا اسرائیل سے بدلہ لینے کا حکم دیا۔ پاسداران انقلاب کی خصوصی انٹلی جنس ٹیم نے تحقیقات کے دوران متعدد فوجی اور انٹلی جنس افسران اور گیسٹ ہاؤس کے ملازمین کو گرفتارکیا ہے۔ گزشتہ کئی مہینوں سے ایران میں کچھ اس طرح کی وارداتیں ہوئیں جن پر ایرانی سیکورٹی نظام کو لے کر شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ 19 مئی کو ایرانی صدرابراہیم رئیسی اور وزیر خارجہ کی موت اور ان کی موت کے بعد انتخابات میں کامیاب صدر مسعود پزشکیان کی حلف برداری تقریب میں شامل ہونے کے دوسرے روز علی الصباح اسماعیل ہنیہ کی ایک ایسے علاقے میں ہلاکت،جسے سب سے زیادہ محفو ظ سمجھاجاتاہے۔ اس قتل سے ایران کے مایہ ناز سیکورٹی دستے پاسداران انقلاب کی سیکورٹی پر سوال کھڑے ہوئے ہیں۔ عالمی سطح کے رہنما کی حفاظت کا ذمہ صرف ایک گارڈپر، دھماکے سے صرف کھڑکیوںکا کانچ ٹوٹنا،کسی دیگر شخص کا ہلاک یا زخمی نہ ہونا،عمارت کو نقصان نہ پہنچنا، ہنیہ کو ٹھہرانے سے قبل عمارت کی تلاشی نہ لینا، کمروںمیں نصب بم یا دھماکہ خیز موادکا نہ ملنا اورمیزائل ڈیفنس سسٹم کا میزائل دھماکا نہ روک پانا کافی حیران کن ہیں۔ طویل عرصے سے اقتصادی، دفاعی، سیاسی اور سفارتی پابندیوں کے ساتھ مغربی طاقتوں اور صہیونیوں کے نشانے پررہ رہے ایران کی اندرونی لچر سیکورٹی سمجھ سے پرے ہے۔
اسرائیل کو تہران میں اسماعیل ہنیہ کے قتل کا مقصدحاصل کرنے کے بعد شیعہ سنی کامسلکی کھیل کھیل کر اپنادیرینہ خواب پورا کرنا تھا لیکن آیت اﷲ علی خامنہ ای نے ہنیہ کی نماز جنازہ پڑھاکر صہیونی ذہنیت کے خواب کو چکناچور کر دیا۔ اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت، سازش ہو یا جدید ٹیکنالاجی کا نتیجہ! لیکن چند بے ضمیر فرمانرواؤں کو چھوڑکرپورا عالم اسلام صدمے میں ہے۔ ایران نے قم شہر کی جمکران مسجد کے گنبد پر سرخ پرچم لگا دیا ہے جسے ایران میں انتقام کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ ایران کا کہنا ہے کہ وہ جنگ کو بڑھانا نہیں چاہتا لیکن اسرائیل کو سزا دینا بھی ضروری ہے جبکہ اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ ایک کے بدلے دو حملوں سے جواب دے گا۔ اس کا لمبا ہاتھ غزہ، یمن، بیروت اور ہر اس جگہ پہنچ جاتا ہے جہاں اس کی ضرورت ہو۔ ایران کے سامنے اسرائیل پر حملہ کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔اس سے پاکستان سمیت کئی مسلم ممالک کی ذہنیت کا پتہ چل جائے گا۔ دوست دشمن کی پہچان بھی ہو جائے گی ۔ اگر ایران کے ذریعہ اسرائیل پر داغے گئے راکٹ اور میزائلوں کو سعودی عرب، مصر، متحدہ عرب امارات اور اردن کی فضائی حدود میںروکا جاتا ہے تویہ معلوم ہو جائے گا کہ اسماعیل ہنیہ کے قتل میں خفیہ ہاتھ کس کا تھا؟n
(مضمون نگار سینئر صحافی اور ادیب ہیں)
[email protected]