پروفیسر مشتاق احمد
فلسطین میں گزشتہ سال اکتوبر سے اسرائیلی جارحیت جاری ہے اور حماس کے کارکنوں کے خاتمے کے نام پر ہزاروں معصوم فلسطینی عوام جاں بحق ہو چکے ہیں اور تقریباً 23 لاکھ کی فلسطینی آبادی اذیت ناک زندگی جی رہی ہے۔ بین الاقوامی سطح پر محض خانہ پری کے لیے فلسطینی عوام کے تئیں ہمدردی تو ظاہر کی جا رہی ہے لیکن اسرائیل کی جارحیت کو روکنے کے لیے کوئی پہل نہیں ہو رہی ہے بلکہ تلخ سچائی تو یہ ہے کہ امریکہ کا ساتھ جب تک اسرائیل کو حاصل ہے، وہ اپنی روش پر قائم رہے گا۔
حماس کے ذریعے اسرائیلی عوام کو یرغمال بنانے اور موت کے گھاٹ اتارنے کی حمایت نہیں کی جا سکتی لیکن جس طرح فلسطینی عوام کے ساتھ اسرائیلی فوج کا رویہ ہے، وہ غیر انسانی بھی ہے اور بین الاقوامی قوانین کے خلاف بھی ہے۔ ایران میں حماس لیڈر اسماعیل ہنیہ کے قتل کے حالیہ واقعے نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اسرائیل حماس کے نام پر مشرق وسطیٰ میں کس طرح کے حالات پیدا کرنا چاہتا ہے۔ لبنان کے اندر بھی حماس کے لیڈر کو نشانہ بنانے کے نام پر اسرائیل کی جارحیت جگ ظاہر ہے لیکن اب ایران اور حزب اللہ نے جس طرح اسماعیل ہنیہ کے قتل کا بدلہ لینے کا اعلان کیا ہے اور اس کے رد عمل میں اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے جس طرح یہ دھمکی دی ہے کہ اسرائیل یمن، بیروت اور ہر اس جگہ تک جا سکتا ہے جہاں اسرائیل مخالف رہتے ہیں، باعث تشویش ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے امریکی صدر جو بائیڈن نے بھی اپنا موقف ظاہر کیا ہے کہ اسرائیلی عوام کی حفاظت کے لیے اسرائیل حکومت کوئی بھی قدم اٹھا سکتی ہے۔ سچائی یہ ہے کہ خطۂ عرب میں اس طرح کے حالات پیدا کرنے کے لیے امریکہ اسرائیل کے کاندھے پر بندوق رکھ کر چلا رہاہے، ورنہ اس خطے میں امن کی بحالی کے راستے ہموار ہو سکتے تھے مگر امریکہ ایسا کبھی ہونے نہیں دے گا اور چونکہ خطۂ عرب میں بیشتر ممالک امریکہ کی شطرنجی چال کا شکار ہیں، ان کا ایک ایک کرکے خاتمہ بھی ہو رہاہے لیکن اس کے باوجود وہ ہوش میں نہیں آرہے ہیں، البتہ ایران امریکہ کی تمام تر پابندیوں اور دھمکیوں کے باوجود فلسطینیوں کے ساتھ کھڑا ہے اور اسرائیل کو سبق سکھانے کے لیے سینہ سپر ہے مگر افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ لبنان اور ترکی کے علاوہ کوئی کھل کر بولنے کے لیے بھی تیار نہیں ہے۔ یمن کے حوثی اور حزب اللہ فلسطینی عوام کے لیے لڑنے کے لیے تیار ہیں مگر دیگر مسلم ممالک فلسطین میں خوں ریزی بڑی خاموشی سے دیکھ رہے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ اب ایران کے اندر داخل ہو کر بھی اسرائیل کہیں کچھ کر سکتا ہے اور اس کی تازہ مثال ہنیہ کا قتل ہے۔
اسرائیل نے ایران میں ہنیہ کا قتل کرکے یہ ثابت کردیاہے کہ اس کے لیے بین الاقوامی قوانین کوئی معنی نہیں رکھتے جبکہ ہنیہ ایران کے صدر کی دعوت پر ان کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے لیے آئے تھے۔ یہاں ایک سوال ایران کی خفیہ ایجنسی پر بھی کھڑا ہوتا ہے کہ آخر یہاں اسرائیلی سازش کس طرح کامیاب ہوگئی، اس لیے ایران میں ایک طبقہ ایسا ہے جو صدر ایران کو بھی شک وشبہات کی نظر سے دیکھ رہا ہے، بالخصوص وہاں کا مذہبی طبقہ یہ مطالبہ کر رہا ہے کہ ایرانی حکومت اس قتل کی سازش کا انکشاف کرے۔ بہرکیف، اسماعیل ہنیہ کے قتل کے واقعے کے بعد یہ خدشتہ بڑھ گیا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں کبھی بھی کسی وقت جنگ شروع ہو سکتی ہے، کیونکہ ایرانی وزارت خارجہ کی طرف سے یہ کہا گیا ہے کہ ایرانی صدر مسعود پزشکیان اسرائیل کے خلاف جوابی کارروائی کے لیے تیار ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایرانی صدر کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے کہ وہ اس طرح کا بیان نہیں دیں، کیونکہ ایرانی عوام کے غم وغصے کو کم کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ تہران حکومت نیتن یاہو کے خلاف حملہ آور ہو۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ایران فلسطین کی حمایت کرنے والوں کے ساتھ کھڑا رہاہے، اس لیے ایران پر یہ الزام بھی لگتا رہا ہے کہ وہ حزب اللہ اور حوثی کو مدد کر رہا ہے۔ اب تو ایران نے جب یہ اعلان کر دیا ہے کہ وہ حزب اللہ کے منصوبوں کو پورا کرنے میں معاون ہوگا تو اس کا مطلب صاف ہے کہ اب ایران حزب اللہ کے ساتھ کھل کر آئے گا، کیونکہ حال ہی میں حزب اللہ کے رہنما فواد شکور کو لبنان میں ہلاک کیا گیاہے۔ اس کے بعد سے حزب اللہ کا تیور چڑھا ہوا ہے۔
اسماعیل ہنیہ کے قتل کے بعد ایران کی یہ مجبوری ہے کہ وہ اسرائیل کے خلاف جلد از جلد کارروائی کرے، اس لیے ممکن ہے کہ امروز فردا میں مشرق وسطیٰ جنگ کے میدان میں تبدیل ہو جائے، کیونکہ امریکہ نے اپنے بحری بیڑے کو بحیرۂ احمر میں جدید ہتھیاروں سے لیس کرکے کھڑا کر دیا ہے۔ دوسری طرف امریکہ، برطانیہ اور سعودی عرب نے بھی اپنے شہریوں کو لبنان چھوڑ نے کی ہدایت جاری کی ہے اور سویڈن نے بیروت میں اپنا سفارت خانہ بند کردیاہے، اس لیے یہ کہنا مشکل ہے کہ اسرائیل کے خلاف کب حزب اللہ اور ایران مشترکہ طورپر حملہ آور ہو جائیں۔
ترکی کے سربراہ رجب طیب اردگان نے اسرائیل کو سبق سکھانے کی بات تو کہی ہے لیکن وہ ہمیشہ ہی امریکہ کے دبائو میں رہے ہیں، ا س لیے ایران ان تمام حالات کا جائزہ لے رہاہے اور اس کے بعد ہی وہ کوئی ٹھوس قدم اٹھائے گا، کیونکہ ایران کے لیے اب مرنے جینے کا سوال ہے کہ ایک طرف ایرانی عوام چاہتے ہیں کہ اسرائیل کو سبق سکھایا جائے تو دوسری طرف ایرانی صدر کو اپنی سیاسی دوراندیشی اور طاقت کا بھی ثبوت پیش کرنا ہے مگر اس تلخ سچائی سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اگر مشرق وسطیٰ کے حالات بگڑتے ہیں تو اس کے اثرات بین الاقوامی ہوں گے اور جس طرح انسانی جانیں تلف ہو رہی ہیں، اس میں مزید اضافہ ہوگا اور انسانی معاشرے کے لیے ایک بڑی تباہی کا باعث ہوگا ۔ یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے جس پر عالمی برادری کو غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ہے اور فلسطینی عوام کے ساتھ اسرائیل کا جو غیر انسانی جارحانہ فعل ہے، وہ بھی ایک مہذب دنیا کے لیے قابل قبول نہیں ہو سکتا مگر افسوس صد افسوس کہ فلسطین میں قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے اور عالمی برادری تماشائی بنی ہوئی ہے، بالخصوص اسلامی ممالک کا فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑا نہیں ہونا ایک بڑا المیہ ہے کہ بیشتر مسلم ممالک امریکہ کے تاجرانہ بازار بن گئے ہیں اور امریکہ کھلے عام اسرائیل کی مدد کر رہا ہے اور پوری دنیا میں صہیونی طاقت کو مستحکم کر رہاہے اور صہیونی طاقت تمام مسلم ممالک کے خلاف سازشوں میں ملوث ہے اور فلسطین میں تو اعلانیہ طورپر معصوم عوام کی نسل کشی کی جا رہی ہے۔n
[email protected]