عبدالماجد نظامی
ہمارے پڑوسی ملک بنگلہ دیش میں جو حالات پیدا ہوئے ہیں، وہ پورے خطہ کے لیے سبق آموز ہونے چاہیے۔ بنگلہ دیش بظاہر تو اقتصادی ترقی کی راہ پر بڑی تیزی سے گامزن تھا اور اس کی فی کس شرح آمدنی میں کافی ترقی ہوئی تھی۔ دنیا بھر کی بڑی بڑی کمپنیاں وہاں انویسٹ کر رہی تھیں اور بنگلہ دیش میں تیار شدہ مصنوعات بالخصوص کپڑوں کے انتاج کی چہار دانگ عالم میں دھوم تھی۔ اس کے باوجود وہاں ایسا کیا غلط ہوگیا کہ ان تمام ترقیات کا سہرا اپنے سر باندھنے والی بنگلہ دیش کی سابق وزیراعظم شیخ حسینہ کو ایک گھنٹہ سے بھی کم وقت میں استعفیٰ پیش کرکے آناً فاناً ملک چھوڑ کر بھاگ جانے کا فیصلہ لینا پڑا؟ اس پس منظر کو سمجھنے کے لیے اس بات کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ شیخ حسینہ نے گرچہ اقتصادی ترقی کا ڈھنڈورا پوری دنیا میں پیٹا لیکن کبھی اس جانب توجہ نہیں کی کہ اس ترقی کے فائدے عوام کے ہر طبقہ تک پہنچ پائیں۔ بنگلہ دیش نے مالی اور اقتصادی ترقی تو ضرور کی لیکن اس سے مستفید ہونے والوں کا دائرہ ان کے ہمنواؤں اور حاشیہ برداروں تک ہی محدود رہا۔ ملک کی بیشتر آبادی نان شبینہ تک کے لیے محتاج رہی اور اس کا اثر سب سے پہلے کورونا کے زمانہ میں دیکھنے کو ملنے لگا۔ جب عالمی منڈی پر کورونا کی وجہ سے قدرتی تالا لگ گیا اور اقتصادی نقل و حرکت مکمل طور پر بند ہوگئی تو تمام ممالک اس کی زد میں آگئے لیکن بنگلہ دیش ایک ایسا ملک تھا جس پر اس کا اثر بہت جلد نظر آنے لگا۔ وہاں انرجی کے سیکٹر پر بطور خاص ایسا منفی اثر پڑا کہ عوام کو بجلی تک مہیا کروانا بنگلہ دیش سرکار کے لیے مشکل ہوگیا اور پٹرول کی قیمت آسمان چھونے لگی۔ بنگلہ دیش کو زرمبادلہ کی سخت کمی محسوس ہوئی اور اس نے مالی بحران سے بچنے کے لیے آئی ایم ایف کے دروازہ پر دستک دے ڈالی جہاں سے اسے تعاون فراہم کیا گیا۔ لیکن ان تمام کوششوں کے باوجود بنگلہ دیش کی مالی حالت میں کوئی خاص بہتری کی توقع پیدا نہیں ہوئی۔ ایک موقع پر تو اس کا خدشہ بھی ظاہر کیا جانے لگا تھا کہ یہ کہیں سری لنکا کی طرح اقتصادی افلاس کا شکار نہ ہوجائے۔ ساتھ ہی دنیا کے سامنے بنگلہ دیش کی ترقی کے کھوکھلے پن سے پردہ بھی اٹھ گیا اور یہ اندازہ ہوا کہ وہاں اقتصادی ترقی کی بنیادیں ٹھوس اصولوں پر قائم نہیں کی گئی تھیں۔ اس کی وجہ سے ایف ڈی آئی میں بھی گراوٹ ہوتی گئی اور حالات میں سدھار پیدا ہونے کے بجائے ان میں مزید ابتری ہی پیدا ہوتی چلی گئی۔ ان ابتر اقتصادی حالات کے علاوہ شیخ حسینہ کی سرکار نے عوام کی اکثریت کو سرکاری نوکری اور روزگار کے مواقع سے اس طرح محروم کر دیا تھا کہ تمام نوکریوں کے کل 30فیصد کو ان مجاہدین آزادی کی اولاد کے لیے مختص کر دیا تھا جنہوں نے 1971میں پاکستان سے آزادی کی خاطر جنگ میں حصہ لیا تھا۔ یہ ریزرویشن پہلے پہل صرف ان مجاہدین آزادی تک ہی محدود تھا لیکن اس میں برابر توسیع ہوتی رہی اور اس کے دائرہ میں مجاہدین کے بچوں اور پھر ان کے پوتوں اور پوتیوں کو بھی شامل کر دیا گیا۔ بنگلہ دیش میں ریزرویشن کی تفصیل پر اگر آپ نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ اس 30 فیصد ریزرویشن کے علاوہ پسماندہ ضلعوں، اقلیتوں اور معذوروں کو جو ریزرویشن ملتا ہے، ان سب کو جوڑ لیا جائے تو یہ مجموعی طور پر 56فیصدبنتا ہے۔ اس کا مطلب عام لوگوں کے لیے کل سرکاری نوکریوں کا صرف44فیصد ہی بچتا ہے۔ گویا 17کروڑ کی آبادی والے اس ملک میں جہاں نوجوان بچوں اور بچیوں کا آبادی میں تناسب تقریباً40فیصد ہے، ان کے پاس روزگار کے مواقع ہی میسر نہیں ہیں۔ جو کچھ مواقع تھے، ان کی بندر بانٹ اس طرح سے کی گئی کہ اس کا فائدہ یا تو حسینہ کی پارٹی عوامی لیگ سے وابستہ لوگوں کو پہنچتا تھا یا پھر پرائیویٹ سیکٹر کے ان مال داروں اور کارپوریٹ گھرانوں کو پہنچتا تھا جو شیخ حسینہ کے حاشیہ بردار اور نمک خوار تھے۔ ان اقتصادی مشکلات کے علاوہ دوسری بڑی اور بنیادی غلطی شیخ حسینہ نے یہ کی تھی کہ تمام جمہوری اداروں پر تالا لگا دیا تھا اور بولنے تک کی آزادی سے لوگوں کو محروم کر دیا تھا۔ وہی شیخ حسینہ جو کبھی خالدہ ضیاء کے ساتھ مل کر 90کی دہائی میں اسٹوڈنٹ اور عوامی تحریک کے سہارے جنرل ارشاد کو ہٹانے میں کامیاب ہوئی تھیں، اس بار مسلسل 15برسوں تک ملک پر راج کرنے کی وجہ سے مطلق العنان اور غیرجمہوری طرز حکومت کی عادی بن گئیں۔ اپنی سیاسی حریف خالدہ ضیاء کو مستقل طور پر جبری حبس میں ڈال رکھا تھا اور جماعت اسلامی کے لیڈران کو پرانی رنجشوں کی بنیاد پر تختۂ دار پر لٹکا رہی تھیں۔ شیخ حسینہ نے بانیٔ بنگلہ دیش شیخ مجیب الرحمن کے نام پر جس طرح سے ملک کی ہر چیز پر قبضہ جما لیا تھا، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اس پالیسی میں یقین رکھنے لگی تھیں کہ یہ ملک ان کے ’’باپ کی جاگیر‘‘ ہے جس کو وہ اپنی مرضی سے بتاشہ کی طرح اپنے مداحوں اور چاپلوسوں میں بانٹ سکتی ہیں اور کسی کو اس پر حرف شکایت اٹھانے کی بھی اجازت نہیں ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ جب اسٹوڈنٹس نے ریزرویشن پالیسی کے خلاف اپنی آواز بلند کی تو ایک ذمہ دار حکمراں کی طرح سنجیدگی سے اس پر غور کرنے اور بات چیت کے ذریعہ اسٹوڈنٹس اور عوام کی شکایتوں کو سن کر انہیں حل کرنے کا راستہ نکالنے کے بجائے شیخ حسینہ نے ایک ڈکٹیٹر کی طرح قوت اور پولیس مشینری کا استعمال کیا اور گولیوں سے طلبا کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ انہیں ’رضاکار‘ اور غدار بتایا گیا۔ دراصل شیخ حسینہ کو یہ غلط فہمی ہوگئی تھی کہ اب سب کچھ ان کے کنٹرول میں ہے اور خوف کے ہتھیار سے ہر آواز کو دبایا جا سکتا ہے۔ انہیں یہ اندازہ ہی نہیں ہوا کہ خوف اور موت کی بھی اپنی ایک حد ہوتی ہے۔ جب کوئی معاشرہ خوف کی سرحد سے آگے بڑھ جاتا ہے تو اس کو موت سے بھی نہیں ڈرایا جا سکتا۔ بنگلہ دیش کے طلبا اور عوام جانتے تھے کہ اگر آج انہوں نے اپنی آئندہ نسل کے لیے یہ لڑائی نہیں لڑی تو ان کا مستقبل سخت تاریکی میں ڈوب جائے گا۔ شیخ حسینہ ان مسائل کو جمہوری اداروں کے ذریعہ حل کرسکتی تھیں لیکن ان پر تو انہوں نے بہت پہلے ہی قفل ڈال دیا تھا اور جعل سازی سے انتخابات جیت رہی تھیں۔ ایسی صورتحال میں وہی ہوا جو ہونا تھا۔ طلبا اور عوام کا قافلہ ڈھاکہ کا رخ کر بیٹھا اور تمام تر کرفیو اور پابندیوں کے باوجود لوگ وزیراعظم کے گھر تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔ حالانکہ شیخ حسینہ بضد تھیں کہ وہ ملک چھوڑ کر نہیں جائیں گی اور افسران کے لاکھ منانے پر بھی راضی نہیں ہو رہی تھیں۔ ان کی بہن نے بھی سمجھایا کہ اب سفینہ ڈوب چکا ہے۔ چلو نکلیں لیکن نہیں مانیں۔ بالآخر لندن میں موجود حسینہ کے صاحبزادہ نے سمجھایا، تب عوامی بھیڑ کے پہنچنے سے محض45منٹ قبل وہ وہاں سے نکلنے پر آمادہ ہوئیں اور ہندوستان نے انہیں اپنی حفاظت میں غازی آباد کی ہنڈن ہوائی پٹی پراتارا۔ اب بنگلہ دیش میں ایک عبوری حکومت قائم ہوگئی ہے جیسا کہ جنرل قمرالزماں نے وعدہ کیا تھا۔ اس عبوری حکومت کے مشیر معروف ماہر اقتصادیات اور نوبل انعام یافتہ محمد یونس بنائے گئے ہیں۔ امید کی جانی چاہیے کہ بنگلہ دیش میں جمہوریت بحال ہوگی اور پاکستان کی راہ پر جانے سے گریز کیا جائے گا۔ لیکن سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ لوگوں کا اعتماد خالدہ ضیاء کی بی این پی اور جماعت اسلامی پر کچھ زیادہ نہیں ہے۔ تو کیا طلبا ایک نئی سیاسی پارٹی تشکیل دیں گے اور نئے بنگلہ دیش کی بنیاد ایسے مضبوط جمہوری اصولوں اور قدروں پر رکھیں گے کہ پھر کوئی مطلق العنان فرماں روا شیخ حسینہ جیسی غلطیاں نہ دہرائے؟ ابھی اس کے بارے میں کچھ کہہ پانا قبل از وقت ہوگا۔ لیکن اس پورے واقعہ میں ہندوستان کے ارباب اقتدار کے لیے بھی سبق ہے کہ وہ عوام کے ساتھ کھلواڑ نہ کریں اور مذہبی جذبات کو بھڑ کانے کے بجائے ان کے مسائل کو حل کرنے میں دلچسپی دکھائیں تاکہ سماجی، سیاسی اور اقتصادی عدم استحکام کی نوبت یہاں تک نہ آنے پائے۔ پرامن، جمہوری اور ترقی پذیر پڑوسی جنوبی ایشیا کے ہر ملک کی ضرورت ہے۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]