وزیراعظم نریندر مودی کے مطابق فی زمانہ ہندوستان ’امرت کال‘ سے گزرتے ہوئے ترقی، خوش حالی اورا ستحکام کی نئی بلندیوں کو چھو رہا ہے۔ جدید سائنس اور ٹیکنالوجی سے لیس ملک عزیز میں غربت و افلاس قصۂ پارینہ ہوچکے ہیں۔ملک بھرمیں 500سے زائد شہر بالخصوص ’امرت شہر‘قرار دیے گئے ہیں اوردعویٰ کیاگیا ہے کہ ان شہروں میں زندگی کی تمام جدید سہولیات میسر ہیں۔لیکن دوسری جانب دل فگار حقیقت یہ ہے کہ ہم ابھی تک انسانی گندگی کو صاف کرنے کیلئے کوئی باوقار ٹیکنالوجی دریافت نہیں کرپائے ہیں۔ گھروں میں بیت الخلا، کمیونٹی ڈرائی لیٹرین کی انسانی غلاظتیں،آ ج بھی حضرت انسان اپنے ہاتھوں سے صاف کررہا ہے۔ خشک لیٹرین یا گٹروں سے انسانی اخراج کو صاف کرنے، لے جانے اور ٹھکانے لگانے کا ساراعمل ہاتھ سے ہورہا ہے، یہ غیر انسانی عمل پورے ملک میں رائج ہے۔جب گٹر، سیوریج، گندی نالیاں اور مین ہول بند ہوتے ہیں تو ان کی صفائی کی توقع بھی انسانوں سے ہی کی جاتی ہے کہ وہ ان میں داخل ہوں گے اور بند کو صاف کریں گے۔ یہ کام نہ صرف لوگوں کو مکمل طور پر گٹر کے پانی میں ڈبونے پر مجبور کرتا ہے بلکہ اکثر اس کام میں مصروف افراد زہریلی گیسوں میں سانس لینے سے مر جاتے ہیں۔ صفائی کارکنوں کو یہ جانتے ہوئے بھی گٹر اورمین ہولز میںاتاراجاتا ہے کہ وہاں سے خارج ہونے والی زہریلی گیسیں ان کی موت کاسبب بن جاتی ہیں لیکن حکام اس پر توجہ نہیں دیتے اورصفائی کارکنوں کو حفاظتی اقدام یا گیس سے بچائو کیلئے نقاب فراہم کیے بغیر جبراً موت کے منھ میں دھکیل رہے ہیں۔حالانکہ سپریم کورٹ نے کسی ہنگامی صورت حال اورحفاظتی اقدامات کے بغیر کسی انسان کو سیوریج لائن میں داخل ہونے پر مجبور کرنے کو جرم قرار دیا ہے لیکن یہ جرم پورے ملک میں دھڑلے سے ہورہاہے۔
’امرت کال‘ سے گزر رہے ہندوستان جنت نشان کی 78ویں یوم آزادی سے فقط چند یوم قبل ’ صفائی کرمچاری آندولن‘ (ایس کے اے) کے سروے میں دہل دہلا دینے والے اعداد و شمار سامنے آئے ہیں۔ ’صفائی کرمچاری آندولن‘ صفائی کارکنوں کے وقاراور مساوی حقوق کیلئے کام کرنے والا ایک رضا کار ادارہ ہے۔ اس ادارہ کے جاری کردہ اعدادوشمارکے مطابق ہندوستان میں رواں سال فروری اور جولائی کے درمیان مین ہولز اور سیپٹک ٹینکوں کی صفائی کرتے ہوئے ان میں سے نکلنے والی زہریلی گیسوں کی وجہ سے 43 ’صفائی کارکن‘ ہلاک ہوئے ہیں۔
قانون کے مطابق ہندوستان میں ’دستی صفائی‘ ایک ممنوعہ عمل ہے۔یہ قانون آج سے نہیں بلکہ1993 سے نافذہے لیکن اس پر عمل کہیں نہیں کیاجاتا ہے۔اسی سال حکومت نے تین برسوں کیلئے قومی کمیشن برائے صفائی ملازمین تشکیل دیا، جس کی مدت میں مسلسل اضافہ کیاجاتارہاہے۔مختلف ایکٹ اور قوانین کے تحت مسلسل توسیع حاصل کرتے ہوئے یہ کمیشن اب بھی ’ بقید حیات‘ ہے۔لیکن صفائی کارکنوں کی بازآبادکاری کے حوالے سے اس کی کوئی سرگرمی کبھی منظرعام پر نہیں آئی ہے۔
اس سلسلے میں چلائی جانے والی ایک تحریک کے بعد 2013 میں اس وقت کی حکومت نے ہاتھ سے گندگی کی صفائی ختم کرنے اور صفائی کارکنوں کی بازآباد کاری کا قانون متعارف کرایاتھا۔نیز ہاتھ سے صفائی کے خاتمہ کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب سے انسانی اخراج اور جسمانی فضلات کی صفائی کرنے والوں کو زہریلی گیس، جراثیم وغیرہ سے بچانے کیلئے ذاتی حفاظتی سازوسامان دیاجانا چاہیے۔ لیکن اس قانون پر عمل درآمد میں حکومتی بے حسی کی وجہ سے یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔اسی قانون کاحوالہ دیتے ہوئے 2018 میں مودی حکومت نے باقاعدہ اعلان کیا کہ ہندوستان میں ہاتھ سے ’صفائی کرنے والے ‘ نہیں ہیں۔ گندگی اور غلاظت کی صفائی کا سارا کام اب آلات کی مدد سے ہوتا ہے۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ صفائی کرمچاریوں کو آلات کے نام پر دیے جانے والے سامان میں عملاًصرف ایک ٹوکری اور ایک کپڑے کا ٹکڑا ہوتا ہے۔ یہ ’حفاظتی سامان‘ لے کر گٹر میں اترنے والوں کی جب موت واقع ہوجاتی ہے تو انتظامیہ کہتا ہے کہ ان کارکنوں کے پاس سیلف ڈیفنس کاساراسامان موجودتھا،جو کچھ ہوا وہ ایک حادثہ ہے اور انتہائی افسوس ناک ہے۔
’ امرت کال‘ کا نقارہ بجاکر سیاسی میدان مارنے والے وزیراعظم کو چاہیے کہ وہ صفائی کارکنوں کی اصل صورتحال کی جانب بھی توجہ دیں۔انسانی غلاظتیں، گٹر، گندی نالیاں، ریل کی پٹریوں پر گرنے والے فضلات، خشک گندگی صاف کرنے والے بھی انسان ہیں۔ صفائی کا یہ عمل ویسے بھی انسانوں کیلئے انتہائی ذلت آمیز ہے، ایسے میں ان کی اموات سے مجرمانہ چشم پوشی انسانی حرمت کے منافی ہے۔
[email protected]
امرت کال کازہر
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS