سید تنویر احمد
اقوام متحدہ کی ذیلی تنظیمیں، امریکہ کی مشہور یونیورسٹی میسا چوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) اور دیگر بین الاقوامی تنظیموں نے مل کر چند ایسے ہنر اور صلاحیتوں کی نشان دہی کی ہے، جنھیں طلبہ میں پیدا کرنا ضروری سمجھا جا رہا ہے۔ یہ صلاحیتیں طلبہ کو بدلتی دنیا اور سماج میں مثبت کردار ادا کرنے کے لیے تیار کرتی ہیں۔ ان صلاحیتوں کو اسکولوں میں اور عملی تدریس کے دوران سکھانے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ ہمارے ملک میں بھی اس تجویز کو قبول کیا گیا ہے اور ملک کے تعلیمی اداروں سے کہا جا رہا ہے کہ وہ مختلف تدریسی وغیر تدریسی ذرائع استعمال کر کے ان صلاحیتوں کو طلبہ کے اندر پیدا کریں۔ قومی تعلیمی پالیسی 2020 ءاس بات کا اقرار کرتی ہے کہ وہ طلبہ کو ایسی تعلیم دے گی کہ طلبہ بین الاقوامی شہری (Global citizen)بن سکیں۔ اکیسویں صدی کی جن صلاحیتوں کا ذکر آج دنیا بھر میں ہو رہا ہے ان کا مقصد بھی نئی نسل کوبین الاقوامی شہری بنانا ہے۔بین الاقوامی شہری کا نظریہ بنیادی طور پر اسلامی نظریہ ہے۔ ایک حیثیت سے تمام انسان اللہ کا کنبہ ہیں اور تمام زمین اللہ کی ملکیت ہے۔ ہر انسان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ دنیا میں کسی بھی خطے پر آباد ہو سکتا اور اپنی زندگی بسر کر سکتا ہے۔ زمین کے اندر، زمین کے اوپر اورسمندروں میں موجود قدرت کے خزانے انسانوں کی فلاح و بہبود اور ان کی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے ہیں۔ ملک، سرحد، شہریت، پاسپورٹ اور ویزا نئے زمانے کی دین ہیں اور اس نظام (System) کے پیچھے انسانوں کی فلاح و بہبود سے زیادہ اقتدار کی خواہش اور مادہ پرستی کارفرما ہے۔
اکیسویں صدی کی جن صلاحیتوں کو شہریوں میں پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے وہ اس تصور کی طرف واپسی کا اشارہ دیتی ہیں کہ تمام انسان ایک کنبہ ہیں، لیکن ایک جانب انسانوں کو ایک ساتھ لانے میں کارپوریٹ کا ہاتھ ہے، تو دوسری جانب دنیا کو سرحدوں میں تقسیم کرکے مختلف ممالک کے برسر اقتدار افراد اور جماعتوں کی باگ ڈور اپنے کنٹرول میں رکھنا بھی بڑے کارپوریٹ گھرانوں کے مقاصد میں شامل ہے۔جن صلاحیتوں کو سکھانے اور پروان چڑھانے کا تدکرہ کیا جا رہا ہے ان میں بھی کسی نہ کسی درجے میں کارپوریٹ کے مقاصد کارفرما ہیں۔ انسانوں کو دنیا میں منافع بخش سرگرمیوں میں مصروف کرنا موجودہ مادی نظام کا نظریہ (Theory)ہے۔ اس نے انسانوں کو انسان کے بجائے انسانی وسائل (Human resources)قرار دے کر کسی زمانے میں اس انسانی وسیلے کو منفعت بخش سرگرمیوں میں ملوث کرنے کے لیے ہاتھوں کے ہنر یا جسمانی ہنرسے آراستہ ہونے کی ترغیب دی، بعد میں جسمانی ہنر کے ساتھ ذہنی صلاحیتوں کی بھی ضرورت پیش آرہی تھی اور اب جسمانی اور ذہنی صلاحیتوں کے ساتھ چند ایسی صلاحیتیں درکار ہیں، جن کے ذریعے انسان ایک بہترین وسیلہ (ریسورس) بننے کے قابل ہو سکے۔ ان ہی صلاحیتوں کو اکیسویں صدی کے لیے ضروری ہنر (21st century skill) کہا جا رہا ہے۔ یہ صلاحیتیں اسلامی نقطۂ نظر سے قریب بھی ہیں اور اگر ان صلاحیتوں کو اسلامی نظر و فکرسے جوڑ دیاجائے، تو یہ صلاحیتیں مسلم نوجوانوں کومسلم امت کا ایک بہترین فرد بنانے میں معاون و مددگار ثابت ہوں گی۔ لہٰذا ا ن صلاحیتوں کو سیکھنے کا عمل ملت کے چھوٹے بڑے تعلیمی اداروں میں جاری کیا جانا چاہیے۔ ان صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے لیے تدریسی و غیر تدریسی عمل اختیار کیےجا سکتے ہیں۔اکیسویں صدی کی صلاحیتوں کو طلبہ میں اجاگر کرنے کے لیے ریاستوں کو مشورہ دیا گیا ہے۔ مختلف ریاستوں کے سرکاری شعبۂ تعلیمات اب اس سلسلے میں ٹریننگ کا کام شروع کر چکے ہیں۔ ملت کی جانب سے قائم چھوٹے بڑے اسکولوں کو اپنے طلبہ میں ان صلاحیتوں کو پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ان صلاحیتوں کو اسلامی تعلیمات و تصورات کی روشنی میں بروئے کار لایا جائے تو دوہرے مقاصد حاصل ہوں گے۔ اسکول کے طلبہ کو بین الاقوامی شہری بننے کی تربیت ملے گی اور امت کا ایک بہترین فرد بننےکا ملکہ بھی پیدا ہوگا۔ آئیے! اب ہم ان صلاحیتوں کا تذکرہ کرتے ہیں جنھیں اکیسویں صدی کی صلاحیتیں کہا جا رہا ہے۔ ان صلاحیتوں کی تین قسمیں ہیں۔
(الف) سیکھنے کی مہارتیں (Learning skills)
(ب) خواندگی کی مہارتیں (Literacy Skills)
(ج) سماجی مہارتیں (Social skills)
ان تینوں مہارتوں کے ضمن میں مزید کچھ مہارتوں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔
سیکھنے کی مہارتیں:وہ مہارتیں جو سیکھی جاسکتی ہیں۔ انھیں FourCsکہا گیا ہے، یعنی وہ انگریزی کے حرف C سے شروع ہوتی ہیں:
Creativity, Critical thinking, Collaboration, Communication
اختراعی صلاحیت (Creativity):تعلیم کے میدان میں سب سے اونچا مقام رکھتی ہے۔ سیکھنے کے عمل میں بلوم کی ٹیکسانومی(Bloom’s taxonomy) کو بڑی اہمیت حاصل ہے اور فی زمانہ تعلیمی نظام نے تعلیم کے اس ہرم (Pyramid) کو تسلیم کیا ہے۔ ہمارے ملک کے تعلیمی نظام میں بھی اس کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ بلوم ٹیکسانومی کے چھ درجات ہیں، اول درجہ واقفیت (Knowing) ہے، اس کے ذریعے سے کسی چیز کی بنیادی آگہی حاصل کی جاتی ہے۔ واقفیت صرف معلومات کی حد تک ہوتی ہے۔ دوسرا مرحلہ تفہیم (Understanding) کا ہے۔ تیسرا مرحلہ نفاذ (Applying)یعنی عملی زندگی میں اس کا نفاذ ہے۔ اس میں یہ بھی طے کرنا ہوتا ہے کہ وہ علم کس قدر انسانیت کے لیے مفید اور کار آمد ہے۔ اسی مرحلے میں یہ جائزہ بھی لیا جاتا ہے کہ طالب علم نے جو علم حاصل کیا ہے وہ علم نافع ہے یا علم غیر نافع۔ ہم جو علم حاصل کر رہے ہیں وہ معلومات کی سطح سے سمجھ کی سطح میں جاتا ہے، اس کے بعد ہی یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ نافع ہے یا غیر نافع۔ علم کے ان تین مراحل کوبنجامن بلوم نے زیریں سطح کی سوچ سے تعبیر کیا ہے، یعنی فکر یا علمی سفر کا اولین مرحلہ ،لوورآرڈر تھنکنگ ۔
کسی زمانے میں ایل او ٹی ہی علم کا آخری مرحلہ تصور کیا جاتا تھا، لیکن گذشتہ برسوں میں ان تین مرحلوں کے علاوہ مزید تین مرحلوں کا اضافہ ہوا ہے، جنھیں ہاٹ کہا جاتا ہے یعنی ہایئر آرڈرتھنکنگ ۔ اونچے درجے کی علمی یا فکری صلاحیت۔ ہاٹ کے تین مراحل ہیں، علم کے عملی نفاذ کے بعد ایک طالب علم، علم کے اونچے درجے میں داخل ہو جاتا ہے اور اس مرحلے کا پہلا درجہ ہے تجزیہ( Analyzing) یعنی جو معلومات فرد کے پاس ہیں یا فرد نے حاصل کی ہیں ،انھیں وہ مختلف حصوں اور ٹکڑوں میں بانٹنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور ان کا تجزیہ کرتا ہے، یعنی ان معلومات کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کرکے وہ انفارمیشن کے ہر حصے کو الگ الگ کرتا ہے، وہ کل کو تقسیم کرتا ہے۔کُل کو چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم کرکے ان حصوں کا تعین قدر کرتا ہے۔ تعین قدر دراصل ہایئرآرڈر تھنکنگ کا دوسرا مرحلہ ہے، گویا جن حصوں کو اس نے تقسیم کیا ہے ان کا وہ جائزہ لے رہا ہے، ان کا باریک بینی سے مطالعہ کر رہا ہے اورمعلومات کے ان چھوٹے حصوں کا ادراک حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، یہ علم کے حصول کا پانچواں حصہ ہے، چھٹا اور سب سے اونچا حصہ تجزیہ، تحلیل و تعین کے بعد کسی چیز میں جدت طرازی پیدا کرنا ہے۔ علم کے پانچ مراحل کو جب طالب علم طے کر لیتا ہے، تو آخری مرحلہ جدت و اختراع کا ہوتا ہے۔ اختراع مختلف طرح کی ہوسکتی ہے۔ اس کی عام فہم مثال یہ ہے کہ پانچویں جماعت کے طالب علم کو استاذنے پودوں کی غذ ا حاصل کرنے کے عمل تالیف (Photosynthesis) کے سلسلے میں بتایا، پھر اس سے کہا کہ اسے بیان کرو۔ طالب علم کا جواب دو طریقوں سے ہوسکتا ہے۔ ایک طریقہ یہ ہے کہ شعاعی عمل کی جو تعریف استاد نے بیان کی ہےاسے محض اپنی یادداشت کی بنا پران ہی الفاظ کو دوہرادیتا ہے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ طالب علم اس عمل کو سمجھتا ہے، اس کا پورا ادراک کرتا ہے اور پھر اسے اپنے جملوں میں بیان کرتا ہے یا پھر اس عمل کو کلاس روم میں اپنے ساتھیوں کے سامنے سمجھانے کے لیے کوئی اختراعی طریقہ ایجاد کرلیتا ہے۔ اس دوسرے طریقے کو ہم اختراعی عمل کہیں گے۔ جو طلبہ آگے چل کر اعلیٰ تعلیم کی سطح تک پہنچتے ہیں، انھیں اسی عمل کے تحت معلومات کو جمع کرنا ہوتا ہے۔ ان کا تحلیل و تجزیہ کرنا ہوتا ہے، پھر تشخیص کے بعد اس کا نتیجہ پیش کیا جاتا ہے۔ اختراعی عمل چھوٹے درجوں میں بھی ممکن ہے، اور اس کے انتہائی منازل بھی موجود ہیں۔ اختراعی عمل ہر سطح پر ممکن ہے۔ ہم اپنے اطراف و اکناف میں بعض پڑھے لکھے اور غیر پڑھے لکھے افراد کے ذریعے ظاہر ہونے والے اختراعی اعمال کو دیکھتے رہتے ہیں۔ اختراعی عمل کی ایک اورعام فہم مثال یوں ہے:
بچوں کے مشہور ماہر نفسیات جین پیاجے (Jean Piaget) لکھتے ہیں کہ بچہ جب بولنے اور سوچنے لگتا ہے، تو اس کا اختراعی عمل بھی رفتہ رفتہ نشو ونماپاتا ہے۔ ابتدائی مرحلے میں بچہ جب بلی کو دیکھتا ہے تو اس کے ارد گرد موجود ماں باپ یا بھائی اسے سکھاتے ہیں کہ یہ بلی ہے۔ پھر بچہ بلی دیکھنے کے چند دنوں بعد کتے کودیکھتا ہے، تو وہ اپنے اختراعی عمل کو استعمال میں لاتے ہوئے، اپنے ذہن میں موجود خاکےکو استعمال میں لاتا ہے اورکہتا ہے کہ یہ بڑی بلی ہے۔ انسان فطری طور پر اپنے اختراعی عمل کو استعمال میں لاتا ہے۔ اس کی اور بھی مثالیں ہیں، جوآپ اور ہم اپنے ارد گرد دیکھتے ہیں۔ کارپوریٹ میدان میں آج اختراع کی بڑی اہمیت ہے۔ اب یہ کوئی بڑا کارنامہ نہیں ہوگا کہ کوئی فرد کسی کام کو روایتی انداز میں کرتا رہے، بلکہ اب یہ دیکھا جائے گا کہ ایک فرد ایک کام کو غیر روایتی انداز میں بہتر طریقے سے انجام دے کرمطلوبہ نتیجہ کتنی سرعت کے ساتھ احسن طریقے سے بہ کثرت نکال رہا ہے۔ گذشتہ دنوں راقم کی ملاقات ایک نوجوان سے ہوئی جس کا تعلق ایس ائی او سے ہے اور وہ انجینئرنگ کے آخری سال کا طالب علم ہے۔ وہ اپنی اختراعی صلاحیت استعمال کر کے ایک ایسی کلائی گھڑی بنانے کی تیاری کر رہا ہے، جو پہننے والے کو قبل از وقت ہارٹ اٹیک سے باخبر کر دے گی، یعنی اگر اسے کوئی شخص پہنتا ہے اور اس کے دل کی حرکت میں کوئی فرق واقع ہوتا ہے تو گھڑی کے ذریعے ایک آواز آئے گی اور پہننے والے کو آگاہ کر دے گی۔ یوں تو ایسی گھڑی (Apple)کمپنی نے تیار کی ہے لیکن اس کی قیمت بہت زیادہ ہے جبکہ مذکورہ طالب علم جو گھڑی بنا رہا ہے اس کی قیمت دس ہزار روپیے سے کم ہوگی۔ یہ اختراع(Creativity) کا نمونہ ہے۔ گذشتہ دنوں ہفت روزہ ریڈینس میں ہبلی (کرناٹک)کی ایک طالبہ کی کہانی شائع ہوئی تھی۔ اس طالبہ نے ایک ایسا چشمہ تیار کیا ہے جسے ڈرائیور پہن لے تو دوران سفر اگر اسے نیند کا غلبہ ہوگا اورآنکھ بند ہونے لگے گی تو یہ چشمہ پہننے والے کو فوری(Alert) کر دے گااور اس سے آواز آنے لگے گی۔ یہ اختراعی عمل کے چند نمونے ہیں ،جن کی آج ضرورت ہے۔ یہ مثالیں تو سائنس کے میدان کی ہیں۔ اسی طرح کے اختراعی نمونے ہمیں سماجیات کے شعبے میں بھی تیار کرنے ہیں، مثلاً نوجوانوں میں منشیات کی بڑھتی عادت کو کم کرنے کے طریقے وغیرہ۔ اسی طرح تعلیم یافتہ نوجوانوں میں خودکشی کے بڑھتے رجحان کو کم کرنے کی تدبیریں۔ll (جاری )
تنقیدی سوچ:دوسری اہم صلاحیت جو اکیسویں صدی چاہتی ہے ،وہ ہے تنقیدی جائزہ لینے کی صلاحیت۔ آج ہر انسان کے سامنےطرح طرح کے حالات رونما ہو رہے ہیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی میں انقلاب کی وجہ سے وہ خبروں کےانبار کے بیچ زندگی گزار رہا ہے۔ اپنے کانوں میں پڑنے والی ہر صدا اور اپنے اسمارٹ فون کی اسکرین پر دکھائے جانے والے ہرویڈیوکو اگر وہ سچ مان لے تو شدید اندیشہ ہے کہ اس کی زندگی غلط راستے پر چلی جائے اور اگر انسان ہرانفارمیشن کو سچ تصور کر کے فیصلے کرنے لگےتو وہ بڑی پریشانی سے دوچار ہو سکتا ہے۔ آج کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ انفارمیشن کو استعمال کرنے سے پہلے اس کا تنقیدی جائزہ لیا جائے۔ صرف انفارمیشن ہی کا جائزہ نہیں بلکہ افراد، تاریخ، پالیسیاں، فیصلے، مصنوعات، خدمات اور وہ تمام امور جو فرد یا سماج کو متاثر کرتے ہیں ،ان کا تنقیدی جائزہ ضروری ہے۔
تنقیدی سوچ (Critical thinking)کو بعض لوگ اس طرح پیش کرتے ہیں کہ کسی فرد کے ہر عمل کو دوسرا فرد گویا شک کی نگاہ سے دیکھے۔ یہاں اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کسی واقعہ یا حقیقت کو شک کی نگاہ سے دیکھا جائے، بلکہ اس کی صحیح تشریح یہ ہے کہ حالات و واقعات اور انفارمیشن کو حقیقت کے آئینے میں پرکھنے کی کوشش کی جائے۔
آج یہ صلاحیت مطلوب ہے۔ اگر ہم طلبہ کے درمیان اس صلاحیت کو فروغ دیتے ہیں اور اس صلاحیت کو زیادہ سے زیادہ اجاگر کرتے ہیں اور طلبہ کو تنقیدی جائز ہ کی طرف ابھارتے ہیں تو کئی ایسے تصورات جو توہم پرستی کی بنیاد پر قائم ہیں اور کئی تاریخی بیانیے جن کی بنیاد جھوٹ ہے اور بے شمار گھڑی ہوئی حکایتیں جو انسانی سماج کے لیے نقصان دہ ہیں، ان سب کے سلسلے میں حقیقت پسندانہ موقف اختیار کیا جاسکتا ہے۔ تنقیدی جائزہ قرآن اور اسلام کی بنیادی روح ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے بندگی بھی آنکھیں کھول کر ہوش و حواس کے ساتھ کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔ تنقیدی فکرکی سب سے واضح اور بڑی مثال حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سیرت ہے۔
تنقیدی نقطۂ نظر آج بڑے عہدے اور ذمہ داریوں پر فائز افراد کے لیے ایک ضروری اور لازمی صفت بن گئی ہے۔ یوپی ایس سی کے امتحان میں کام یابی کے لیے تنقیدی نقطۂ نظر ایک اہم عامل بنتا ہے۔
تنقیدی نقطۂ نظرانسانی زندگی کی کام یابی کے لیے ناگزیر عمل ہے، چاہے کام یابی دینی معاملات کی ہو یا دنیاوی معاملات کی۔ تنقیدی نظر کل بھی اہم تھی، آج بھی اہم ہے اور مستقبل میں بھی یہ اہم کردار ادا کرے گی۔ اس لیے طلبہ میں تنقیدی نظر کا پیدا کرنا لازم ہے۔ تنقیدی نظر پیدا کرنے کے لیے آج مختلف طریقہ ہائے کار اور ماڈیول (Modules)وضع کیے گئے ہیں، جنھیں اختیار کرکے اسکول اپنےطلبہ کے درمیان تنقیدی نظر والی صلاحیت بڑھا سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں آئی بی بی (انٹرنیشنل بیکولیرٹ بورڈ ) (international baccalaureate)کے تحت جو اسکول چل رہے ہیں، ان میں اس صفت کو طلبہ کے اندر پید ا کرنے پرخاص توجہ دی جاتی ہے۔
اشتراک ِعمل (Collaboration)
طلبہ کے درمیان اشتراک اور باہمی تعاون کی صفت کو اکیسویں صدی کی اہم صلاحیتوں میں شامل کیا گیا ہے۔ یہ وہ صفت ہے جس کے ذریعے طلبہ ایک دوسرے کے ساتھ معاونت اور باہمی اشتراک کے ذریعے، کسی عمل کو انجام دینے کی صفت اپنے اندر پیدا کرتے ہیں۔ غالباً اس صفت کو اکیسویں صدی کی صلاحیتوں میں اس لیے بھی شامل کیا گیاکہ گذشتہ برسوں کی بہ نسبت موجودہ دور میں ایک فرد اپنے طور پر انفرادی طرز عمل کی جانب مائل ہے۔ گذشتہ برسوں کی بہ نسبت ایک دوسرے کے لیے باہمی تعاون کی ضرورت کم محسوس کی جا رہی ہے۔ فرد ٹیکنالوجی کے ذریعے اپنی ضرورتوں کو پورا کر رہا ہے۔ افراد کا ایک دوسرے سے باہمی ربط کم ہو رہا ہے۔ مجازی دنیا (Virtual world) ٹیکنالوجی کے ذریعے اپنی ضرورتوں کو پوری کر رہی ہے۔ افراد کا ایک دوسرے سے باہمی ربط کم ہو رہا ہے۔ مجازی دنیا یا ٹیکنالوجی کے ذریعے تیار کی گئی دنیا میں انسان زندگی بسر کر رہا ہے۔
اب تو کم عمر بچے اپنے والدین کو صبح کا سلام فیس بک، انسٹاگرام یا اسی طرح کے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر بھیج دیتے ہیں۔ گھر بیٹھے ساری ضرورتیں بہ آسانی پوری ہو رہی ہیں۔ ایک فرد کا دوسرے فرد سے عملی رابطہ بہت کم ہو رہا ہے۔ ایسی صورت حال میں باہمی اشتراک، رابطہ، تعاون کو فروغ دینا ایک اہم انسانی ضرورت بن گئی ہے۔ دوسری جانب اکیسویں صدی میں یہ مانا گیا ہے کہ دنیا کے کاموں میں انفرادیت کے ساتھ ساتھ اجتماعیت بھی ضروری ہے۔ بڑے کام اور منصوبے(Projects) باہمی اشتراک اور اجتماعی عمل (Team work) کے ذریعے ہی انجام پاتے ہیں۔ آج دنیا کے بڑے بڑے کارپوریٹ ہاؤس (Corporate houses) بڑی تعداد میں ملازمین کا تقرر کر رہے ہیں اور یہ تقرریاں بین الاقوامی پیمانے پر ہورہی ہیں۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی اصطلاح جدید زمانے کی دین ہے۔ کسی زمانے میں بڑی فیکٹریاں اپنے ملازمین کی تقرریاں ان ہی علاقوں میں کرتی تھیں جہاں ان کی رہائشیں ہو ا کرتی تھیں،لیکن اب ایک کمپنی کے لیے ملازمین مختلف شہروں سے حاصل کیے جاتے ہیں۔ لہٰذا ان کے درمیان اشتراک اور تعاون پیدا کرنا کمپنی کی ضرورتوں میں سے ایک اہم ضرورت بن گیاہے۔
موجودہ دور میں باہمی تعاون و اشتراک کی صفت یوں تو مارکیٹ کی ضرورت سمجھی جاتی ہے، لیکن یہ صفت ایک اہم اسلامی صفت ہے۔ حکم الہٰی ہے کہ خیر کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کیا جائے۔ مل جل کر کام کرنے کی صفت کو طلبہ میں پیدا کرنا ملت کے اسکولوں کا اہم ایجنڈا ہونا چاہیے۔ مسلم سماج کی صورت حال اس حوالے سے اطمینان بخش نہیں ہے۔ عام طور پر ملت میں اشتراک و تعاون کے ساتھ کام کرنے کا جذبہ نظر نہیں آتا۔ نہ تو ہم اشتراک عمل کے ذریعے بڑی کمپنیاں قائم کر رہے ہیں اور نہ ہی خدمت کے بڑے ادارے اور بڑی تنظیمیں۔ ایسی صورت حال میں اس صفت کی آب یاری بچپن ہی سے ضروری ہے۔ باہمی اشتراک کی صفت ایک کام یاب خاندان چلانے سے لے کر ایک ملک کو چلانے تک کے لیے لازمی ہے۔
ابلاغ (Communication)
ایک اہم صلاحیت جو فی زمانہ درکار ہے وہ ابلاغ کا ہنر ہے۔ یوں تو اسے اکیسویں صدی کی مطلوبہ صلاحیتوں میں شامل کیا گیا ہے۔ لیکن یہ ایک ایسی انسانی صلاحیت ہے جس کی اہمیت ہر دور میں مسلّم رہی ہے۔ انسان کو اشرف المخلوقات بنانے میں کلام کی صلاحیت کو اہم مقام حاصل ہے۔ اس لیے انسان کوحیوان ناطق کہا جاتا ہے۔ بہترین رابطے کے لیے کسی بھی فرد میں تین عناصر کا ہونا ضروری ہے
(1) کلام کی صلاحیت
(2) تحریر کی صلاحیت
(3) لہجہ وانداز
باڈی لینگویج (Body language)
یقیناً ابلاغ کے لیے انسان سب سے زیادہ زبان کا استعمال کرتا ہے اس کے بعد تحریر کا، لیکن ماہرین نفسیات کی رائے ہے کہ اسّی فی صد ابلاغ باڈی لینگویج کے ذریعے واقع ہوتا ہے۔ تعلیمی اداروں میں ان تین عناصر کی تعلیم و تربیت کا بہت کم انتظام ہے۔ بالخصوص لہجہ کی تربیت کا انتظام نہیں کے برابر ہے۔ بولنے کی صلاحیت میں مناسب الفاظ اہم کردار انجام دیتے ہیں۔ اس لیے بہترین مکالمہ کرنے والے کے پاس الفاظ کا بڑا ذخیر ہ ہوتا ہے۔ الفاظ کا ذخیرہ (Vocabulary) رابطے کے لیے اہم جز ہے۔
لیکن افسوس کہ اس ڈیجیٹل دنیا میں طلبہ کی اپنی Vocabulary وجود میں آئی ہے۔ جو زبان کے معیار مطلوب سے بہت کم تر ہے۔ ذخیرہ ٔالفاظ کی کمی کی وجہ سے طلبہ میں مطالعہ کا ذوق کم ہو رہا ہے اور اسی کم زوری کی بنا پر طلبہ کسی عنوان پر برجستہ دس جملے بہ مشکل بول پاتے ہیں۔
یہ دور علم کا دور ہے۔ علم کے میدان میں انسان نے نئی اونچائیوں کو چھوا ہے۔ لیکن اس کے باوجود تعلیم یافتہ افراد کا ایک بڑا طبقہ ابلاغ کی صلاحیت سے محروم ہے۔ علم کا حصول ایک الگ صلاحیت ہے اور ابلاغ کا ہنر کچھ دیگر تقاضے رکھتا ہے۔ ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ لوگ گفتگو کو ہی ابلاغ کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔
طلبہ مختلف ڈگریاں تو حاصل کر رہے ہیں لیکن طلبہ کے اندر کمیونی کیشن کی صلاحیت نشو و نما نہیں پا رہی ہے۔ طلبہ اپنے مافی الضمیر کو بیان کرنے سےقاصر ہیں۔ نہ تو وہ تقریر کے ذریعے مافی الضمیر کو ادا کرسکتے ہیں نہ ہی تحریر کے ذریعے۔ موجودہ ڈیجیٹل دور میں تحریر کی صلاحیت تو اور بھی کم زور ہوتی جا رہی ہے۔ ان حالات میں کمیو نی کیشن کی صلاحیت کو صدی کی صلاحیت میں شامل کیا گیا ہے۔ یہ صلاحیت فرد کو سماجی اعتبار سے ہی نہیں بلکہ معاشی اعتبار سے بھی با اثر بنانے کے لیے ضروری ہے۔ بزنس کے شعبے میں تربیت کا کام کرنے والے ماہرین میں سے بین الاقوامی سطح پر دو اہم شخصیات ہیں ایک ہیں ڈاکٹر جیمس والڈروپ اور دووسرے ہیں ڈاکٹر بٹلر(James Waldroop , Timothy Butler) ۔
یہ دونوں ہارورڈ بزنس اسکول کے شعبۂ نفسیات میں پروفیسر ہیں۔ یہ جہاں شعبے میں تعلیم و تدریس کا کام انجام دیتے ہیں۔ وہیں بڑے بزنس اداروں کے اونچے عہدوں پر فائز ایگزیکیٹیوز کی تربیت کا کام بھی انجام دیتے ہیں۔ گذشتہ برسوں انھوں نے ایک بہت مشہور کتاب تحریر کی جو اس وقت کی بیسٹ سیلر کتاب قرار پائی۔ کتاب کا عنوان ہے:
The Twelve Bad Habits that Hold Good People Back
اس شہرۂ آفاق کتاب میں ان دونوں ماہرین نے ان صلاحیتوں کا تذکرہ کیا ہے جن کے کسی فرد میں نہ ہونے کی وجہ سے وہ تجارت کی اونچائیوں پر پہنچنے کے قابل نہیں ہوتا یا پہنچ نہیں پاتا۔ ان صلاحیتوں میں اول نمبر پر کمیو نی کیشن کی صلاحیت کو ہی رکھا ہے۔
اس لیے اگر ہم اپنی نسل کو اس زمانے میں دینی اور دنیوی اعتبار سے کام یاب ہوتادیکھنا چاہتے ہیں تو طلبہ میں بولنے کی اور لکھنے کی صلاحیت پروان چڑھائیں۔ بولنے اور لکھنے کی صلاحیت بندۂ مومن کے لیے خاص طور سے مطلوب ہے، تاکہ وہ اپنے فریضۂ منصبی کو بہترطریقے سے انجام دے سکے۔ آج بالخصوص ملت کے نوجوانوں میں کمیو نی کیشن کی صلاحیت بہت کم زور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں اخبارات میں لکھنے والوں کی کمی ہے اور ٹی وی چینل (TV channels) کے مختلف مباحثوں میں حصہ لینے والوں کی بھی کمی ہے۔ تحریر اور تقریر کی صلاحیت میں ملکہ حاصل کرنے کے لیے تربیت چاہیے۔ اس تربیت کا انتظام ہمارے ا سکولوں اور کالجوں میں ضرور ہونا چاہیے۔ بعض دینی مدارس میں مناظرہ و خطابت کی تربیت دی جاتی ہے، لیکن اسکولوں میں تقریر و تحریر کی صلاحیت کو پروان چڑھانے کا باضابطہ انتظام نہیں کے برابر ہے۔ اس لیے ہمارے نوجوان نہ تو اپنی مادری زبان میں صحیح گفتگو کرپاتے ہیں، نہ ہی انگریزی یا کسی اور زبان میں۔ اس لیے ضروری ہے کہ نئی نسل میں اس صلاحیت کےفروغ پر ہمارے اسکول اور ہمارا سماج خصوصی توجہ دے۔
(جاری…)