دہلی کی حکومت کو کئی محاذوں پر عدالتی کارروائی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس کی وجہ سے عوام مشکلات سے گزر رہے ہیں۔دہلی ریاستی حکومت کے سربراہ یعنی وزیراعلیٰ کئی مہینوں سے جیل میں ہیں اوراس سے بھی پہلے سے نائب وزیراعلیٰ منیش سسودیا جیل میں ہیں۔ اس سے قبل چھ وزارتوں کے نگراں وزیر رہے ستیندرجین بھی جیل میں تھے۔ ایسی صورت حال میں مرکز اورریاستی حکومت کے درمیان کھینچ تان میں دہلی کے عوام پس رہے ہیں۔ پچھلے دنوں مرکزی سرکار اور لیفٹیننٹ گورنر کے درمیان اختیارات کی تقسیم کو لے کر قانونی پیچیدگیاں بڑھ گئی تھیں اور سپریم کورٹ نے اختیارات کی تقسیم کے معاملہ میں دہلی کی منتخب حکومت کے حق میں فیصلہ کردیا تھا، مگر مرکزی سرکار نے اس بابت آرڈیننس اور قانون بناکر سپریم کورٹ کے فیصلہ کو پلٹ دیا۔
دراصل عام آدمی پارٹی کی ایکسائز پالیسی پر مرکزی سرکار کو اعتراض ہے اور دہلی کی حکومت پر الزام ہے کہ اس نے سیاسی اور مالی مفادات کے پیش نظر دہلی میں ایکسائز پالیسی کو بدل دیا تھا اور مرکزی سرکار کے کنٹرول والی ایجنسیوں کا الزام ہے کہ اس وزارت میں بڑے پیمانے پر بے ضابطگیاں ہوئی ہیں اور پوری سرکار اس کھیل میں شامل ہے اور ان ایجنسیوںکا الزام ہے کہ وزیراعلیٰ اروند کجریوال اس گھوٹالے کے سوتردھار ہیں۔
گزشتہ روز سپریم کورٹ نے ایک اہم فیصلہ صادر کیا ہے کہ لیفٹیننٹ گورنر کو دہلی میونسپل کارپوریشن قانون 1957 (ڈی ایم سی ایکٹ) اس بات کا اختیار دیتا ہے کہ وہ ایم سی ڈی میں 10ایلڈر مین (Eldermen) نامزد کرسکتا ہے۔ دراصل یہ معاملہ جنوری 2024 سے عدالت کی زیرسماعت ہے اور اصل پینچ میئر اور ڈپٹی میئر کے الیکشن کو لے کر پھنسا تھا اس وجہ سے میئر اور ڈپٹی میئر کے الیکشن میں اڑچن آگئی تھی۔ اس سے ایم سی ڈی کے کام کاج میں رکاوٹ آئی۔ اب یہ فیصلہ آگیا ہے کہ ایل جی ایلڈرمین کونامزد کرسکتا ہے مگر یہ ایلڈرمین ایم سی ڈی کے ووٹنگ میں حصہ نہیں لے سکتے ہیں۔
خیال رہے کہ دہلی میونسپل کارپوریشن 12زونوںمیں تقسیم ہے۔ وارڈ کمیٹیاں ہر زون میں اپنے اپنے علاقوںمیں نمائندے اور ایلڈرمین پرمبنی ہوتی ہیں۔ اس قانون کے تحت سیکشن3 کے تحت ایم سی ڈی میں دس ایلڈرمین ایل جی نامزد کرسکتا ہے۔ اگرچہ ان کو ووٹنگ کا اختیار نہیں ہے مگر وارڈ کمیٹیوں میں ایلڈرمین کلیدی رول ادا کرتا ہے۔ ایم سی ڈی قانون کے مطابق 12وارڈ کمیٹیاں ایم سی ڈی اسٹینڈنگ کمیٹی کے ایک ایک ممبرمنتخب کرتی ہیں۔ ان الیکشن میں ہی ایلڈرمین ووٹنگ کرسکتا ہے۔
دراصل دہلی کے میونسپل الیکشن میں ایم سی ڈی کی 250نشستوں میں سے 134سیٹیں جیت کرآپ نے 15سال کے بعد بی جے پی کے اقتدار کو ختم کیا تھا۔ یہی بی جے پی اور عام آدمی پارٹی کے اقتدار کی کشمکش کی وجہ ہے اوراس کا نتیجہ یہ ہے کہ دہلی آج ہر محاذ پر بدنظمی جھیل رہی ہے۔
اس وقت ملک کی راجدھانی دہلی میں افراتفری اور بدنظمی کا ماحول ہے۔وزیراعلیٰ جیل میں ہیں۔ ان کے نائب بھی جیل میں ہیں اور یہ صورت حال عام شہری کونت نئے مسائل اورالجھنوں سے دوچار کر رہی ہے۔ مرکزی حکومت جس کی قیادت بی جے پی کر رہی ہے اور دہلی کی ریاستی حکومت میں دو الگ پارٹیاں برسراقتدار رہی ہیں اور دونوںمیں سخت اختلافات ہیں۔ مرکزی حکومت کو عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروندکجریوال ایک آنکھ نہیں بھاتے اور یہی صورت حال ان تمام ریاستوں میں ہے جہاں کی بی جے پی مخالف پارٹیوں کی حکومتیں ہیں۔ دہلی کو چونکہ ایک مکمل ریاست کا درجہ حاصل نہیں ہے اس لئے اس کی منتخب حکومت کو ویسے بھی کم اختیارات اور طاقتیں حاصل تھیں مگرمرکزی سرکار نے مزید انتظامی اختیارات سلب کرکے حکومت کو بے دست وپا کردیا ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ دہلی میں تمام افسران کی تقرری، ترقی اور تنزدلی مرکزی سرکار کے پاس ہے۔ دہلی کی حکومت اپنی پسند کا اہلکار اور افسران نہیں چن سکتی ہے اورنتیجہ یہ ہے کہ مرکزی حکومت ان افسران کو کنٹرول کرکے انتظا می امور دہلی کے حکمرانوں کے مطابق انجام نہیں دینے دیتی ہے۔ یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے کہ دہلی میں عام آدمی پارٹی انا تحریک کا نتیجہ تھی۔ اس تحریک نے ملک کا سیاسی منظرنامہ بدل کر رکھ دیا۔ انا تحریک کے بطن سے پیدا عام آدمی پارٹی نے پہلا الیکشن 2013میں لڑا تھا۔ پہلے ہی الیکشن میں 28سیٹوں پر جیت حاصل کرکے سیاسی منظرنامہ پر اپنی دھماکہ دار موجودگی درج کرائی تھی۔ کانگریس کی وزیراعلیٰ شیلادیکشت کی جہاں دیدہ سیاست کو پٹخنی دے کر اقتدار سے باہر کیا تھا۔ بعدازاں کانگریس نے عام آدمی پارٹی کو باہر سے حمایت دے کر اروندکجریوال کی حکومت بنوائی تھی۔ مگر اروندکجریوال نے 2014میں وارانسی میں وزیراعظم مودی کو چیلنج کیا۔اس طرح وہ قومی سیاسی منظرنامہ پر اپنی جگہ بناتے چلے گئے۔ یہیں سے بی جے پی کی اعلیٰ قیادت اور اروندکجریوال میں رقابت بڑھتی چلی گئی۔ بی جے پی کی مقبولیت کے باوجود دہلی میں بی جے پی اروندکجریوال کو شکست نہیں دے سکتی۔ 2015 میں عام آدمی پارٹی نے کانگریس اور بی جے پی کو طاق پر بٹھا دیا۔ اس طرح کجریوال کی پارٹی ان دونوں قومی پارٹیوں کانگریس اور بی جے پی کے نشانہ پر آگئی۔
عام آدمی پارٹی کو جس طرح ’مشکلات‘ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اس کو شکایت ہے کہ اس کو عوامی خدمات کے کارنامے انجام دینے اوران کوتعلیم، صحت اور ٹرانسپورٹ کی بہترین سہولت مہیا کرانے کی پاداش میں مجرم بنایا جارہا ہے۔ دراصل عام آدمی پارٹی نے عوام کو مفت خدمات مہیا کرانے کا جو ٹرینڈ شروع کیا ہے وہ دیگر ’مین اسٹریم پارٹیوں‘ کے لئے مشکلات پیدا کرنے والا تھا۔ عورتوں کو مفت ٹرانسپورٹ کی سہولت نے پارٹی کی مقبولیت کوچار چاند لگادیے۔ اس طرح فی گھر پانی کے بل میں رعایت، مفت پانی، بہتر طبی مدد نے ایسی مثال قائم کردی کہ مذکورہ بالا پارٹیاں اورکئی علاقائی پارٹیوں نے دہلی کی عام آدمی پارٹی کے دکھائے ہوئے راستہ پر چلنا شروع کردیا۔ 2013، 2015 اور 2020 میں اسمبلی اور دہلی میونسپل کارپوریشن کے انتخابات میں عام آدمی پارٹی کی جیت کا سلسلہ چلتا رہا۔ عام آدمی پارٹی کوکنٹرول کرنے کے لئے مرکزی سرکار نے ایک اور ترکیب وضع کی۔ 2023 میں دہلی سروسز ایکٹ پاس کیا جس کا مقصد دہلی کی حکوت کے بیوروکریسی پر کنٹرول ختم کرنا تھا۔ مگر سپریم کورٹ کی آئینی بینچ نے اس قانون کو رد کردیا اور غیرآئینی قرار دے دیا۔
قانونی اور سیاسی جھمیلوں میں پھنسے دہلی کے عوام
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS