زندگی کی غیر یقینی صورتحال پر ٹیکس

0

گڈس اینڈ سروسزٹیکس (جی ایس ٹی) اپنے نفاذ کی ابتدا سے ہی تنازع کا شکار رہا ہے۔حکمرانوں کے تمام تر دعوئوں کے باوجود نہ تو ٹیکس کی مجموعی رقم میں کوئی کمی آئی ہے اور نہ ہی ٹیکس کے پیچیدہ نظام سے لوگوں کو نجات ملی ہے۔ اس کے برخلاف ہر چھوٹی بڑی چیز کو جی ایس ٹی کے دائرہ میں شامل کرلیاگیا ہے حتیٰ کہ کھانے پینے کی چیزوں آٹا، چاول، دال، دودھ، دہی، شکرتک کو نہیں بخشاگیا ہے۔ہوٹلوں میں روٹی خریدنے پر بھی حکومت جی ایس ٹی وصول کرلیتی ہے۔بینکوں سے قرض لینے پر لگنے والی پروسیسنگ فیس اور پھر ماہانہ ادا کی جانے والی رقم بھی جی ایس ٹی کے دائرۂ استبداد میں شامل ہے۔ زندگی کو محفوظ بنانے کی کوششوں کو بھی نہیں بخشا گیا ہے۔ لائف انشورنس پالیسی اور میڈی کلیم پالیسی بھی اس ٹیکس کی گرفت میں پہلے سے ہی ہے۔ گزشتہ تین برسوں کے دوران ہیلتھ اور لائف انشورنس پر جی ایس ٹی سے حکومت نے 21,256 کروڑ روپے حاصل کیے، جس میں صرف ایک سال 2023-24 کے دوران 8,263 کروڑ روپے وصول کیے گئے ہیں۔ ہیلتھ انشورنس کی پالیسیوں کے دوبارہ اجرا سے جی ایس ٹی کے طور پر مزید 3,274 کروڑ روپے اینٹھے گئے۔ لیکن حکومت اس سے مطمئن نہیں ہے۔اب اس کا ارادہ اس رقم کو دوگنا کرنے کا ہے۔اس لیے ہیلتھ اور لائف انشورنس پر جی ایس ٹی کی شرح میں ظالمانہ حد تک اضافہ کیے جانے کا اعلان کیاگیا ہے۔ حیرت ناک بات تو یہ بھی ہے کہ عوام کو ہیلتھ انشورنس یعنی میڈی کلیم پالیسی پر دوہرا ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے۔ ٹیکس ایک بار پالیسی کی خریداری کے وقت اور دوسری بار میڈیکل کلیم بل کی ادائیگی کے وقت ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔
اس اضافہ کے خلاف آج کانگریس سمیت اپوزیشن ’ا نڈیا‘ اتحاد نے پارلیمنٹ احاطہ میں احتجاج کیا۔اس مظاہرہ میں کانگریس کے رکن پارلیمنٹ اور لوک سبھا میں قائد حزب اختلاف راہل گاندھی،این سی پی کے شرد پوار، شیو سینا کے یو بی ٹی کے سنجے راوت، ترنمول کانگریس کے رکن سدیپ بندوپادھیائے سمیت تمام اپوزیشن پارٹیوں کے ممبران پارلیمنٹ نے حصہ لیا۔ راہل گاندھی نے اس اضافہ پر حکومت کو نشانہ تنقید بناتے ہوئے کہا کہ ہر آفت سے پہلے ’ٹیکس کا موقع‘ تلاش کرنا بی جے پی حکومت کی غیر حساس سوچ کا ثبوت ہے۔ اپوزیشن نے مجموعی طور پرا س اضافہ کو موقع پرستانہ سوچ بتاتے ہوئے مطالبہ کیا کہ ہیلتھ اور لائف انشورنس کو جی ایس ٹی سے پاک کرنا ہوگا۔اس سے قبل یہ مسئلہ کل پیر کے روز ترنمول کانگریس کے رکن پارلیمنٹ ڈیرک اوبرائن نے بھی پارلیمنٹ میں اٹھایاتھا جس کی تمام جماعتوں نے حمایت کی تھی۔ ترنمول کانگریس کی سربراہ اور مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتابنرجی اس سلسلے میں وزیرخزانہ نرملا سیتارمن کو پہلے خط بھی لکھ چکی ہیں جس میں انہوں نے لائف اور ہیلتھ انشورنس سے جی ایس ٹی ہٹانے کامطالبہ کیا ہے۔
انشورنس پالیسیوں پر زیادہ جی ایس ٹی اور دیگر وجوہات کی بنا پر دوسرے ممالک کے مقابلے ہندوستان میں لوگ کم پالیسیاں خریدتے ہیں۔ عالمی سطح پر 7 فیصد سے زیادہ لوگوں کو ہیلتھ انشورنس تک رسائی حاصل ہے، جب کہ ہندوستان میں انشورنس کی رسائی 4 فیصد سے بھی کم ہے۔حکومت کی ناقص پالیسی کی وجہ سے ہندوستان کے انشورنس سیکٹر میں ایک طرح سے عدم توازن ہے۔ ملک بھر میں لی جانے والی بیمہ پالیسیوں کا 75فیصد لائف انشورنس ہوتا ہے اور صرف 25 فیصد ہی ہیلتھ انشورنس پالیسیاں ہوتی ہیں۔ اس شعبہ میں کام کرنے والی کمپنیوں کی زیادہ تر دلچسپی لائف انشورنس سے ہوتی ہے جن میں طویل مدت کے بعد منافع دیاجاتا ہے جب کہ ہیلتھ انشورنس یعنی میڈی کلیم پالیسیوں میں ہنگامی بنیاد پر اچانک علاج کے اخراجات برداشت کرنے ہوتے ہیں جن سے زیادہ تر کمپنیاں گریز کرتی ہیں۔حکومت اپنی لائسنسنگ پالیسی میں بھی تبدیلی نہیں کر رہی ہے کہ لائف انشورنس پالیسی لانے والی کمپنی کو ہیلتھ انشورنس پالیسی بھی لانی ہوگی۔25فیصد جو انشورنس پالیسیاں فعال ہیں، وہ بھی غریبوں کیلئے عذاب جان بنی ہوئی ہیں کیوں کہ انشورنس کی وجہ سے غریب لوگ علاج کیلئے بڑے پرائیویٹ اسپتالوں میں جارہے ہیں لیکن 60 فیصد علاج انشورنس کے تحت نہیں آتا اور مریض کو یہ رقم اپنی جیب سے خرچ کرنی پڑتی ہے۔ دوسری جانب انشورنس پریمیم اور اس پر لگنے والا بھاری بھرکم جی ایس ٹی اسے مزید مہنگا کرے گا اور پھر نتیجہ یہ ہوگا کہ کہ لوگ انشورنس خریدنا ہی چھوڑ دیں گے۔مرکزی وزیر بی جے پی لیڈر نتن گڈکری بھی اس اضافہ کے خلاف ہیں۔ انہوں نے لائف اور ہیلتھ انشورنس پر جی ایس ٹی کو زندگی کی غیر یقینی صورتحال پرٹیکس لگانے کے مترادف قرار دیتے ہوئے وزیرخزانہ کو خط لکھ کراسے واپس لینے کی درخواست کی ہے۔لیکن وزیرخزانہ اس سلسلے میں کچھ کرنے سے یہ کہہ کر معذرت کرلیتی ہیں کہ ان کی ترمیم کو جی ایس ٹی کونسل بدل دے گی۔
اپوزیشن وزیرخزانہ کی اس دلیل کو بجاطور پر ناقص قرار دے رہاہے کیوں کہ جی ایس ٹی کونسل میں این ڈی اے کی حکمرانی والی ریاستوں کی تعداد فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہے۔اپوزیشن کی حکمرانی والی ریاستوں کے ارکان کی تعداد کم ہے۔ وہ رکاوٹیں کیوں پیدا کریں گی؟ جی ایس ٹی کونسل ایک مشاورتی ادارہ ہے، وزیر خزانہ کو جی ایس ٹی کونسل کے پردے کے پیچھے نہیں چھپنا چاہیے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS