سیلاب کی تباہیاں اور انسان ساختہ عوامل: صبیح احمد

0

صبیح احمد

ملک کے مختلف علاقوں میں شدید بارش کے بعد ندیوں میں پانی کی سطح میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ شمال سے جنوب تک اور مشرق سے مغرب تک تمام ندیوں میں طغیانی ہے۔ کچھ ریاستوں میں سیلاب جیسی صورتحال کی وجہ سے حالات کافی تشویشناک ہیں۔ سیلاب زدہ علاقوں میں کسی بڑی آفت سے نمٹنے کے لیے این ڈی آر ایف کی ٹیموں کو بھی تعینات کر دیا گیا ہے۔
حالیہ برسات کے موسم میں ندیوں میں پانی کی سطح بڑھنے کی وجہ سے آسام، مغربی بنگال اور بہار کے کچھ حصوں میں مسلسل سیلاب کی صورتحال ہے۔ اس کے علاوہ اتر پردیش کی مختلف ندیوں میں سطح آب میں اضافہ کی وجہ سے زبردست نقصان بھی ہوا ہے۔اتراکھنڈ اور ہماچل پردیش میں موسلادھار بارش کے دوران بادل پھٹنے اور چٹانیں کھسکنے کے واقعات نے ان ریاستوں میں بڑی تباہی مچائی ہے۔ بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان بھی ہو رہا ہے۔ جنوبی ریاستوں میں بھی ندیاں خطرے کے نشان سے اوپر بہہ رہی ہیں۔ خاص طور پر کیرالہ، تمل ناڈو اور کرناٹک جیسی ریاستوں میں سیلابی صورتحال ہے۔ ابھی گزشتہ ہفتہ ہی وائناڈ میں موسلادھار بارش لوگوں پر قہر بن کر ٹوٹی ہے۔ پہاڑی زمین کا ایک بڑا حصہ کھسکنے سے 300 سے زائد معصوم لوگوں کی جانیں چلی گئیں، متعدد اب بھی لاپتہ ہیں اور سیکڑوں زخمی لوگوں کا اسپتالوں میں علاج چل رہا ہے۔ یہ سب برسات کے موسم میں سرکار کی جانب سے غیر معقول انتظامات ،پیشگی احتیاطی اقدامات کے فقدان اور بد نظمی کا نتیجہ ہے۔ حالانکہ سبھی کو پتہ ہے کہ برسات کے موسم میں جوآفتیں آتی ہیں اور ملک کی ایک بہت بڑی آبادی کو جو مشکلات درپیش ہوتی ہیں، وہ اچانک سامنے نہیں آتیں، بلکہ سالہا سال سے یہ سلسلہ جاری ہے لیکن سرکار کی جانب سے پلاننگ کے تحت ابھی تک اس کا کوئی حل نہیں نکالا جا سکا ہے۔ ہندوستان میں تہواروں کی طرح سیلاب کی تباہیاں بھی معمول کے مطابق ہر سال آتی ہیں لیکن ان سے نمٹنے کے لیے آج تک نہ تو کوئی ٹھوس حکمت عملی تیارکی جا سکی ہے اور نہ ہی کوئی معقول نظم بن پایا ہے۔
نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی(این ڈی ایم اے) کے مطابق سیلاب کا شکار علاقے زیادہ تر گنگا اور برہمپتر ندی کے سواحل ہیں جو شمالی ریاستوں ہماچل پردیش اور پنجاب کے علاوہ اترپردیش اور بہار کا احاطہ کرتے ہیں اور یہ علاقہ شمال مشرق میں آسام اور اروناچل پردیش تک پھیلا ہوا ہے۔ اوڈیشہ اور آندھرا پردیش کی ساحلی ریاستیں، تلنگانہ اور گجرات کے کچھ حصے بھی سالانہ سیلاب کی زد میں آتے ہیں۔ جنوبی ہندوستان کے ساتھ ساتھ شمالی ہند کے اتراکھنڈ، ہماچل، آسام، یوپی، بہار، گجرات اور مدھیہ پردیش جیسی ریاستوں میں سیلاب سے ہونے والی حالیہ تباہیوں نے ہندوستان میں ایک بار پھر ہر سال آنے والے اس بحران کو اجاگر کیا ہے، جو قدرتی اور انسان ساختہ دونوں عوامل کی وجہ سے مزید سنگین ہوگیا ہے۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ڈیزاسٹر مینجمنٹ اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن جیسی تنظیموں کے ذریعہ سیلاب کو عام طور پر قدرتی آفات کے طور پر درجہ بند کیا جاتا ہے۔ جبکہ یہ درجہ بندی سیلاب کے نقصان میں کردار ادا کرنے والے انسانی عوامل کو عموماً نظر انداز کردیتی ہے۔ مانسون کی شدید بارش ان سیلابوں میں اہم کردار ادا کرتی ہے، ناقص ڈیزاسٹر مینجمنٹ اور ناکافی تیاری ان کے اثرات میں مزید اضافہ کر دیتی ہے۔ ہندوستان کی جغرافیائی پیچیدگیوں کے نتیجے میں ہر سال شدید نقصانات ہوتے ہیں، جس کے لیے ایک مربوط فلڈ مینجمنٹ سسٹم کی ضرورت ہے۔ ہر سال مانسون سے بڑی تباہی ہوتی ہے، اس لیے جانوں اور املاک کی حفاظت کے لیے سیلاب کے خطرات کو کم کرنے کی جامع حکمت عملیوں کی فوری ضرورت کو تقویت ملتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ مانسون صرف تباہی اور آفت کا سبب ہے۔ زراعت پر منحصر ہندوستان جیسی معیشت کے لیے مانسون کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔ ماحولیات میں توازن قائم رکھنے اور پانی کی ضروریات کو پوری کرنے میں بھی مانسون کا اہم کردار ہوتا ہے۔مانسون کی بارش نہ ہوتو ملک میں خشک سالی سے وہ تباہی پھیلے گی کہ جس کا اندازہ لگانا مشکل ہے اور انسان کو اکثر اس کا تلخ تجربہ ہوتا رہتا ہے۔ برسات کے موسم کے دوران بارش میں اگر کچھ دنوں کا وقفہ ہوجاتا ہے تو انسان کے ساتھ ساتھ چرند پرند اور سبھی جاندار پناہ مانگنے لگتے ہیں۔ بارش کی نعمت کا جب صحیح طریقے سے نظم نہیں کیا جاتا ہے تو یہی بارش کا پانی آفت کی شکل میں ٹوٹ پڑتا ہے اور چاروں طرف تباہیوں کا سبب بن جاتا ہے۔ آخر ہندوستان میں اس طرح کے تباہ کن سیلاب کی وجوہات کیا ہیں؟
دراصل ہندوستان میں خاص طور پر جون سے ستمبر تک مانسون کے موسم میں سیلاب کی بنیادی وجہ شدید بارش ہے۔ شدید اور بے ترتیب بارش مٹی کی جذب کرنے کی صلاحیت سے تجاوز کر جاتی ہے یا نکاسی آب کے ناقص نظام کو ناکارہ کر دیتی ہے، جس سے سیلاب آ جاتا ہے۔ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کی وجہ سے پہاڑی علاقوں میں برف اور گلیشیئر کے پگھلنے سے ندی نالوںکے پانی کی سطح میں اضافہ ہو جاتا ہے، جس کے نتیجے میں نچلے میدانی علاقوں میں سیلاب آجاتا ہے۔ مثلاًکچھ دنوں پہلے سکم میں برفانی جھیل کے سیلاب سے تقریباً 14 افراد ہلاک ہوگئے تھے اور 100 سے زائد لاپتہ ہوگئے تھے۔ سائیکلون اور طوفان سے تیز ہواچلتی ہے اور شدید بارش ہوتی ہے جو خاص طور پر ساحلی علاقوں کو متاثر کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر دسمبر 2023 میں سائیکلون میچونگ نے شدید بارش اور سیلاب کی وجہ سے تقریباً 13 افراد کی جان لے لی تھی۔ سیلاب ایسے وقت آتا ہے جب دریا کے پانی کی سطح اپنی صلاحیت سے زیادہ ہو جائے کیونکہ اوپر کی طرف سے آنے والے پانی کا بہت زیادہ بہاؤ نیچے کی طرف آ کرکم ہو جاتا ہے۔ 2023 میں ہماچل پردیش اور ہریانہ میں شدید بارش کی وجہ سے جمنا ندی میں بہت زیادہ طغیانی آ گئی تھی جس کی وجہ سے دہلی کے باندھوں پر دبائو بڑھ گیا تھا اور ندی کے ساحلی علاقوں میں سیلاب آ گیا تھا۔
قدرتی آفات کے علاوہ انسان ساختہ وجوہات بھی ہیں جن کے سبب اس مسئلہ کا آج تک کوئی قابل فہم حل تلاش نہیں کیا جا سکا ہے اور ہر سال اربوں کھربوں روپے کے مالی خسارہ کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہوتا ہے۔ غیرمنصوبہ بند شہرکاری اور شہری علاقوں کے مضافات میں کچی آبادیوں میں بے روک ٹوک اضافہ شدید بارش کی صورت میں سیلاب کی تباہ کاریوں میں اضافہ کرتا ہے۔ حیدرآباد میں 2020 کے سیلاب میںاور چنئی میں 2015 کے سیلاب میں ہزاروں مکانات ڈوب گئے تھے، یہ اس بات کی واضح مثال ہے کہ تیزی سے شہر کاری شہروں کوکس طرح سیلاب کا شکار بنا رہی ہے۔ غیر منصوبہ بند طریقے سے اسفالٹ اور کنکریٹ کے استعمال کی وجہ سے ناقص سطحوں میں اضافہ ہوا ہے جو بارش کے پانی کو جذب نہیں کرتی ہیں، جس کے سبب سطح زمین پرپانی کے بہاؤ میں اضافہ ہوتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ شدید بارش کے دوران پانی تیزی سے جمع ہو جاتا ہے، نکاسی آب کے نظام پر بھاری پڑتا ہے اور مقامی سیلاب میں اچھا خاصا حصہ ڈالتا ہے۔
بہرحال سیلاب سے مؤثر طریقے سے نمٹنے کے لیے یہ تسلیم کرنا بہت ضروری ہے کہ قدرتی اور انسان ساختہ دونوں عوامل اس جاری بحران میں حصہ ڈالتے ہیں۔ اگرچہ قدرتی وجوہات ناگزیر ہیں، لیکن انسانی اقدامات جیسے شہری تجاوزات اور بنیادی ڈھانچے کے ناقص انتظامات جو صورتحال کو نمایاں طور پر خراب کرتے ہیں، میں بہتری لائی جاسکتی ہے۔ ایک جامع حکمت عملی اپنا کر جس میں جدید پیش گوئی، پائیدار طرز عمل اور کمیونٹی بیداری شامل ہو، ہم سیلاب کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے بہتر تیاری اور اس کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS