پروفیسر عتیق احمدفاروقی
دنیا آٹھ ارب کی تعداد کو عبور کرچکی ہے اوراس میں سب سے بڑی حصہ داری کس کی ہے ؟ بلاشبہ ہندوستان کی! اور ہمارے لئے یہ بات قابل فخر ہے یا قابل تشویش؟ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آئی ٹی یادیگر شعبوں میں اپنے پیشہ ور نوجوانوں کی تعداد دیکھ کر ہمارا دل وقتی طور پر تو خوش ہوسکتاہے لیکن ایک بڑی نوجوان آبادی ہاتھوں میں درخواست لئے حکومتوںکے دروازے کھٹکھٹارہی ہے۔ سڑکوں پر امنڈتا ہجوم اس بات کی نشاندہی کررہاہے کہ ہمیں اپنی آبادی کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے۔
ہمیں فائدے مند آبادی چاہیے ، یا بے سود بھیڑ؟وزیرخزانہ نرملا سیتارمن نے اس سال کے عبوری بجٹ میں تیزی سے بڑھ رہی آبادی وآبادی پر مبنی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے چیلنجز پر وسیع غور وفکر کے لئے ایک اعلیٰ سطحی کی کمیٹی کی تشکیل کاانتظام کیاہے۔ ممکنہ طور پر یہ سارے ملک میں آبادی کنٹرول کے لئے لگاتار اٹھ رہی آواز کا ہی نتیجہ ہے ۔ یاد رہے کہ اپنی دوسری حکومت کی تشکیل کے بعد 15 اگست 2019ء کو وزیر اعظم نریندرمودی نے لال قلعہ کے رمپارٹ سے ذمہ دار سرپرست بن کر اگلی نسل کے تابناک مستقبل کے لئے کوشش کرنے کا پیغام دیاتھا۔
ملک کے ایک طبقہ کا خیال ہے کہ آبادی کنٹرول سے متعلق کسی بھی طرح کی پالیسی وضع کرنے سے پہلے یہ ضروری تھا کہ سبھی فرقوں کیلئے الگ الگ انفرادی قوانین کو ختم کرکے یونیفارم سول کوڈ نافذ کیاجائے مگر یہ بات عملی طور پر ہندوستان جیسے متنوع ملک میں ممکن نہیں ہے۔ اس طرح کی باتیں صرف سیاسی مفاد میں کی جاتی ہیں۔ مختلف فرقوں وگروپس کے الگ الگ قوانین آبادی کنٹرول سے متعلق کسی پالیسی میں کبھی حائل نہیں ہوسکتے۔ یہ الگ بات ہے کہ سال 2022ء میں یونیفارم سول کوڈ کا مسودہ تیار کرنے کیلئے ماہرین کی کمیٹی کی تشکیل کے ساتھ اترا کھنڈکی پشکر سنگھ دھامی حکومت نے اس کی شروعات کردی ہے۔ ایک کمیٹی اس کے ضوابط تیارکررہی ہے اورضوابط تیار ہونے کے بعد یونیفارم سول کوڈ اترا کھنڈمیں نافذ ہوجائے گا۔ ہوسکتاہے کہ اب لوک سبھا چناؤ کے نتیجے کو دیکھتے ہوئے دھامی سرکار اتراکھنڈمیں اسے نافذ کرنے میں جلد بازی نہ کرے۔ سبھی یہ سوال اٹھارہے ہیں کہ کیا وزیراعظم مودی کے اس تیسرے مدت کار میں پورے ملک کیلئے یونیفارم سول کوڈ اورآبادی کنٹرول جیسے قانون آپائیںگے؟ میرا مانناہے کہ یونیفارم سول کوڈ تو نہیں آپائے گا لیکن آبادی کنٹرول سے متعلق پالیسی کو نافذ کرنے میں کوئی دقت نہیں ہونی چاہیے۔
این ڈی اے حکومت کا ایک بڑا خواب’ ایک ملک ایک چناؤ‘کاہے۔ مگر اس خواب کو پورا کرنے کیلئے بھی سب سے پہلے ضرورت تو یہی ہے کہ مرکز 2021ء سے ٹلتی آرہی مردم شماری کو جلد پورا کراکر حدبندی کمیشن کی تشکیل کرے۔ ہندوستانی سیاست پر آبادی پر مبنی تبدیلی کا کافی اثر پڑتاہے۔ کسی لوک سبھا میں پچاس ہزار بھی رائے دہندگان نہیں ، اورکہیں کہیں بیس لاکھ سے بھی زیادہ ہیں۔ نئی حدود بندی کیلئے آبادی پر مبنی تبدیلی ایک بڑا چیلنج ہوگا۔ شاید اسی بات کے مدنظر وزیرخزانہ کے ذریعے اعلیٰ اختیاری کمیٹی بنانے کا اعلان کیاگیاہے۔ حالانکہ اس کمیٹی کی تشکیل کی کوئی اطلاع ابھی تک دستیاب نہیں ہوسکی ہے۔ ایسے میں سوال اٹھنے لگاہے کہ کہیں یہ مدعہ دوبارہ ٹھنڈے بستے میں تونہیں چلاجائے گا؟ملک کے تابناک مستقبل کیلئے یہ بہت ضروری ہوگیاہے کہ تیزی سے بڑھ رہی آبادی اورآبادی پر مبنی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے چیلنجز کو سنجیدگی سے لیاجائے۔ اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کیاجاسکتاکہ عالم میں سب سے پہلے فیملی پلاننگ کی پہل کرنے والا ہمارا ہندوستان آج دنیا میں سب سے زیادہ آبادی والا ملک بن چکاہے۔ اس لئے اس مدعے کو سیاسی مجبوریوں کے بجائے قومی مفاد کی نظرسے دیکھنے کی ضرورت ہے ۔
وزیراعظم نے 15اگست 2019ء کے اپنے خطاب میں بھی مختلف الفاظ میں یہی کہاتھاکہ اپنے وسائل کے موافق ہی گھرمیں بچوں کی تعداد ہونی چاہیے اوریہی بات ملک پر بھی لاگوہوتی ہے۔ ہمیں اپنے ملک کے وسائل پر غور کرناچاہیے۔ جس ملک کے پاس دنیا کی قریب 2.4فیصد زمین اورمحض چار فیصد پانی ہے۔ وہاں دنیا کی تقریباً 18فیصد آبادی رہتی ہے۔ ہندوستان میں نقل مکانی ،بیروزگاری، آلودگی ،ناخواندگی جیسے متعدد مسائل کا بنیادی سبب وسائل کے موافق ملک کی آبادی کا نہ ہوناہے جو لوگ ہندوستان کی آبادی کو دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت بننے کی خاص بڑی وجہ بتاتے ہیں ، انہیں ترقی یافتہ ممالک کے وسائل اوران کی آبادی کی جانب ضرور دیکھناچاہیے۔ ہمارے ملک کے کچھ مسائل کی طرف سنجیدگی سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ملک کی ایک بڑی آبادی ایسی ایسی بیماریوں کی چپیٹ میں آتی جارہی ہے جن پر ہمارے بہت وسائل خرچ ہونے والے ہیں۔ دراصل اس وقت زیادہ تر خوردنی اشیاء صاف یابناملاوٹ کے نہیں ہیں، پینے کے لائق پانی کی کمی ہے، ندیوں اورہوا کی آلودگیوں کے سبب ہمارے شہر ساری دنیامیں بدنام ہورہے ہیں۔ ایک بہت بڑی آبادی کا پیٹ بھرنے کیلئے زراعت کے کام میں بڑے پیمانے پر ہونے والے کیمیکلس کے استعمال نے گاؤوں میں کینسر جیسی بیماریوں کا پہنچادیاہے۔ بڑھتی آبادی کے سبب زراعت کے لائق زمین لگاتار کم ہوتی چلی جارہی ہے اورخاندانوں کے بٹنے کے سبب کھیتوںکا رقبہ کم ہوتاجارہاہے۔ ملک میں کسانوں کی بدحالی کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے ۔ لیکن ہماری حکومتیں بنیادی بیماری کو علاج نہ کرکے صرف ان کے آثار کے علاج میں مصروف ہیں۔ ہماراسیاسی طبقہ ملک کی آبادی کے مسئلے کو بھی ووٹ بینک کی سیاست کے چشمے سے دیکھنے کا عادی ہوچلاہے۔ ابھی زیادہ دن نہیں ہوئے ہیں، میزورم حکومت نے بنگلادیش سے آکر ریاست میں بس گئے لوگوں کو واپس بھیجنے سے انکار کردیاہے۔ یہ ایک خطرناک رجحان ہے۔
ملک کا ہراہل دانش ، ٹیکس دہندگان ،محب وطن اورنوجوان امیدبھری نظروں سے مرکز کی طرف اورخصوصاًوزیراعظم کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ اس یوم آزادی کے موقع پر وہ تیزی سے بڑھ رہی آبادی اورآبادی پر مبنی تبدیلیوں سے پیداہوئے مسئلے پر کیا کہتے ہیں؟ابھی موجودہ مرکز کی بیساکھی حکومت سے ہم بہت کچھ امید نہیں کرسکتے ۔
[email protected]
تیزی سے بڑھتی آبادی کے چیلنجز پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت: پروفیسر عتیق احمدفاروقی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS