ذاکر حسین
ہندوستانی سیاست کا مرکز اگر بہار کو کہا جائے تو غلط نہیںہوگا۔ کیونکہ یہ وہ سرزمین ہے جس نے ہندوستانی سیاست کو نئی سمت دی ہے۔ بہار کی سرزمین سے لوک نائک جے پرکاش نارائن نے ایک ایسی تحریک چلائی جس نے ہندوستانی سیاست کا رخ ہی بدل ڈالا۔ اسی سیاسی تحریک کے پیداوار لالو پرساد یادو، نتیش کمار، رام ولاس پاسوان اور سشیل کمار مودی ہیں۔ یہ سبھی بہار کی سیاست میں اسی وقت چھا گئے۔ لالو پرساد، نتیش کمار اور رام ولاس پاسوان نے تو ایک ساتھ سیاست میں قدم رکھا۔ لیکن کچھ دنوں کے بعد ان تینوںکی راہیں جداہوگئیں اور تینوں نے الگ پارٹیاں بناکر بہار کی سیاست کرنے لگے۔ وہیں جارج فرنانڈیز اور شرد پوار نے بہار کو اپنا میدان عمل بنایا اور یہیں سے انتخاب لڑکر پارلیمنٹ کی زینت بنے۔ آج سے 18برس قبل بہار کی سیاست میں لالو پرساد یادو کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ نتیش کمار نے لالو پرساد سے الگ ہوکر اپنی الگ پارٹی بنالی تھی۔ دونوں کی راہیں جدا ہونے کے بعد ایک دوسرے کے سیاسی حریف بن کر اپنی سیاست چمکانے لگے۔ لالو پرساد یادو کا اس وقت سیاسی ستارہ بلند تھا۔ انہیں شکست دینے کے لیے نتیش کمار کو بہار کی سیاست میں بڑی محنت کرنی پڑی ۔ نتیش کمار کی قیادت میں جنتادل یو مزید مضبوط ہوتا گیا اور ایک دن ایسا آیا جب لالو پرساد کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے بعد وہ خود بہار کے وزیراعلی بن گئے۔ چونکہ ان کی پارٹی کو واضح اکثریت نہیں ملی تھی جوڑ توڑ کر وزیراعلیٰ بننے کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ اسمبلی میں اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے میں ناکام رہے اور انہیں استعفیٰ دینا پڑا۔ ان کی پارٹی کو آج تک بہار اسمبلی میں واضح اکثریت کبھی نہیں ملی لیکن وہ 18برسوںسے بہار کے وزیراعلیٰ بن کر اپنی سیاسی بصیرت کا لوہا منوا رہے ہیں۔ نتیش کمار نے اپنے نام ایک ایسا ریکارڈ قائم کیا جو کسی سیاسی لیڈر کے لیے آسان نہیں ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ واضح اکثریت نہیں ہونے کے باوجود 18برسوں تک بہار کے وزیراعلی کے عہدہ پر قابض رہنا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ موجودہ وقت میں ہندوستانی سیاست نتیش کمار کے ارد گرد گھوم رہی ہے۔ ان کے ایک فیصلے سے ہندوستانی سیاست میں زلزلہ آسکتا ہے۔ نتیش کمار کا سیاسی کریئر بڑا اتھل پتھل والا رہا ہے۔ وہ کبھی بی جے پی توکبھی آرجے ڈی کی حمایت سے بہار میں حکومت چلاتے آرہے ہیں۔اسی وجہ سے عوام میں یہ بات عام ہوگئی کہ نتیش کمار کب کس کے ساتھ ہوجائیں کہا نہیں جاتا ۔ نتیش کمار کو ہندوستانی سیاست کا بازیگر یوں ہی نہیں کہا جاتا۔ ہر پارٹی ان سے اتحاد کرنے کا خواہاں رہتی ہے۔ جس کی تازہ مثال سابق مرکزی وزیر سریش رام کا یہ بیان کہ اگر وزیراعلی نتیش کمار پارلیمانی انتخاب میں بی جے پی سے اتحاد نہیں کرتے تو بی جے پی صفر پر آؤٹ ہوجاتی۔ نتیش کمار بہار کی سیاست کے ساتھ ساتھ مرکز کی سیاست کے بھی اتنے ہی اہم ہیں کہ بی جے پی ان کی مرضی کے خلاف کوئی کام نہیں کرسکتی کیونکہ بہار اور مرکز میں ان کے بدولت ہی اقتدار پر قابض ہے۔ ایسے میں ان کی مرضی کے خلاف کوئی کام کرتی ہے تو بہار اور مرکز کی اقتدارسے باہر ہوسکتی ہے۔ نتیش کمار سیاسی ہوا کا رخ سمجھنے کے ماہر ہیں۔ انہیں کب کس پارٹی سے اتحاد کرنی ہے بخوبی جانتے ہیں۔ وہ یہ بھی جانتے ہیںکہ کس لیڈر کو کتنی اہمیت ملنی چاہئے۔ ان کا فیصلہ ہمیشہ عوام کو چونکانے والا ہوتا ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ جب کسی سبب انہیں وزیراعلی کی کرسی سے ہٹنا پڑا تو انہوں نے ایک ایسے لیڈر کو وزیراعلی کی کرسی پر بٹھا دیا جسے بہار کی سیاست میںکوئی بڑا چہرہ نہیں سمجھا جاتا تھا،جیسے جیتن رام مانجھی کہا جاتا ہے ۔ نتیش کمار نے یہ سمجھ کر ان کو اقتدار سونپا تھا کہ میں جو کہوںگا وہ وہی کریںگے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اور جیتن رام مانجھی اپنی مرضی سے فیصلے لینے لگے ۔ جب انہیں یہ محسوس ہوا کہ یہ فیصلہ ان کی سیاست کے لیے اچھا نہیں ہے تو انہوںنے فوراً جیتن رام مانجھی سے استعفیٰ دلاکر خود وزیراعلی بن گئے اور پھر انہیں پارٹی سے بھی نکال دیا۔ اس سے قبل جے ڈی یو کے بانیوں میں شمار سینئر رہنما جارج فرناڈیز اور شرد یادو کے ساتھ بھی ان کا جو رویہ رہا وہ سبھی جانتے ہیں۔ آرسی پی سنگھ جو پارٹی کے قومی صدر تھے اور نتیش کمار کے سب سے قریبی مانے بھی جاتے تھے، جب یہ محسوس ہوا کہ یہ پارٹی میںرہ کر پارٹی کو کمزور کررہے ہیں تو انہوںنے ان کو بھی باہر کا راستہ دکھا دیا۔ نتیش کمار ایک ایسے سیاستداں ہیں جو ہر سیاسی لیڈر کے مزاج کو سمجھنے کا ہنر جانتے ہیں۔ کس لیڈر کے ساتھ کب اورکیسا رشتہ رکھا جائے وہ بخوبی جانتے ہیں۔ پارلیمانی انتخاب سے قبل ایسا لگ رہا تھا کہ یہ پارٹی اب ٹوٹ جائے گی اور نتیش کمار خود الگ تھلگ پڑجائیں گے، مگر سیاسی نبض پکڑنے والے نتیش کمار نے پہلے تو ہوا کا رخ جانتے ہوئے مخالفین کو ایک ایک کرکے پارٹی سے نکالا اور پارٹی کے قومی صدر آرسی پی سنگھ کو پارٹی سے نکال کر خود پارٹی کی کمان اپنے ہاتھوں میںلے کر پارلیمانی انتخاب کی تیاریوں میں کود پڑے۔ جو لوگ یہ کہہ رہے تھے کہ اس بار جنتادل یو کی کارکردگی مایوس کن رہے گی ۔ پارلیمانی انتخاب میں اپنے بل پرپارٹی کو جیت دلاکر یہ ثابت کردیا کہ وہ کتنے بڑے سیاستداں ہیں۔ نتیش کمار ہندوستانی سیاست کے ایسے بازیگر ثابت ہوئے کہ ان کے آگے وزیر اعظم نریندر مودی کی سیاست بھی تھوڑی پھیکی پڑ گئی کیونکہ بی جے پی کو پارلیمنٹ میں واضح اکثریت دلانے میں وزیراعظم مودی ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ انہیں مرکزمیں حکومت سازی کے لیے نتیش کمار اور تلنگانہ کے وزیراعلیٰ چندر بابو نائیڈو کے سامنے ہاتھ پھیلانا پڑا۔ اگرچندر بابو نائیڈو نے مودی حکومت کو حمایت جاری رکھتے ہیں اور نتیش کمار اپنافیصلہ بدلتے ہیں تو مودی کی حکومت خطرے میں پڑ جائے گی۔ اس لیے نتیش کمارہندوستانی سیاست میں ایک ایسے لیڈر کے طور پر جانے جاتے ہیں کہ ان کی مرضی کے خلاف مرکز کی حکومت نہیں چل سکتی۔ وزیراعظم مودی نے جس طرح سے 10برسوں تک اپنی مرضی کی حکومت چلائی ہے وہ اب ایسا نہیں کرسکتے۔ کیونکہ وہ وزیراعظم ضرور ہیں لیکن ریموٹ کنٹرول وزایراعلی نتیش کمار کے پاس ہے۔ اگر وزیر اعظم نتیش کمار کی مرضی کے خلاف کوئی فیصلہ لیتے ہیں تو ان کیلئے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے اور انہیں اقتدار سے ہاتھ بھی دھونا پڑسکتا ہے۔ اس لیے نتیش کمار کو موجودہ وقت میں ہندوستانی سیاست کا بازیگر کاجائے تو بیجا نہ ہوگا۔
’نتیش کمار‘ ہندوستانی سیاست کے بازیگر: ذاکر حسین
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS