ڈاکٹر محمد اقتدار حسین فاروقی
احادیث نبویؐ بہ سلسلہ قسط، کست، قسط البحری اور عود الہند
1-نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ کے گھر میں داخل ہوئے تو ان کے پاس ایک بچہ تھا جس کے منہ اور ناک سے خون نکل رہا تھا۔ حضور نے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ جواب ملا کہ بچہ کو عذرہ ہے۔ حضور نے فرمایا کہ اے خواتین تم پر افسوس ہے کہ اپنے بچوں کو یوں قتل کرتی ہو۔ اگر کسی بچے کو حلق میں عذرہ کی تکلیف ہو یا اس کے سر میں درد ہو تو قسط الہندی کو رگڑ کر اسے چٹا دو۔ چنانچہ حضرت عائشہ نے اس پر عمل کروایا اور بچہ تندرست ہوگیا۔ (راویہ۔ حضرت عائشہ۔ مسلم)
2-رسول اللہ نے فرمایا : ’’اے عورتو! اپنے بچوں کے حلق کو سوزش سے جلایا نہ کرو۔ جب کہ تمہارے پاس قسط الہندی اورورس موجود ہیں۔ یہ ان کو چٹا دو‘‘۔ (راوی حضرت جابر بن عبداللہ۔ مستدرک الحاکم۔ ابو نعیم۔ ابن السنی)۔
3- رسو ل اکرمؐ نے فرمایا : ’’تم اس۔العود الہندی کو بطور دوا استعمال کرو۔ اس لئے کہ اس میں سات بیماریوں کے لئے شفا ہے۔ ذات الجنب (نمونیا یا پلوریسی) ان میں سے ایک ہے‘‘۔ (راویہ حضرت ام قیس۔مسند احمد)۔
4-رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذ۱ت الجنب کے لئے ورس، قسط اور روغن زیتون کے پلانے کو مفید بتایا۔ (راوی حضرت زید بن ارقم۔ ابن ماجہ)
5-رسول خدا نے فرمایا : ’’جن چیزوں سے تم علاج کرتے ہو ان میں سب سے بہترین دوا پچھنا (الحجام) اور قسط الجری ہے‘‘۔ (راوی حضرت انس بن مالک، بخاری، مسلم، نسائی)۔
6-رسول کریم نے فرمایا : ’’اللہ سے ڈرو۔ اپنے بچوں کو حلق دبا کر ان کو تکلیف کیوں دیتی ہو۔ عودالہند استعمال کرو۔ کیونکہ اس میں سات (بہت سی) بیماریوں کاعلاج ہے۔ ذات الجنب (پلیوریسی۔ نمونیا) ان میں سے ایک ہے‘‘۔(راویہ حضرت ام قیس۔ بخاری)
7-رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عودالہندی (حدیث۔ العود الہندی) بہ معنی کست (حدیث۔ الکست) کو سات امراض میں مفید بتایا جس میں ایک ذات الجنب بھی ہے۔ (راویہ۔ حضرت ام قیس بنت محصن۔ ابن ماجہ)
8-ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ہم ذات الجنب (پلوریسی) کا علاج ۔ قسط الجری اور زیتون سے کریں۔ (راوی۔ حضرت زید بن ارقم۔ ترمذی، مسند احمد،ابن ماجہ)
9-حضور اکرمؐ کو حضرت اْم سلمہ اور حضرت اسماء نے مشورہ کرکے ان کی شدید بیماری کے دوران جو دوا پلائی اس میں کتھ (حدیث۔
عودالہندی)، ورس اور زیتون کے چند قطرے شامل تھے۔ (طب نبوی۔ بخاری،مسلم)
10-قسط الہندی وقسط البحری وہی ہے جوکست۔ جیسے کافور اور قافور۔ یاکشت اور قشطت۔ (باب سعوط۔ کتاب طب نبوی، بخاری)
11- حضور ؐ اس امر پر خفا ہوئے کہ تم لوگ اپنے بچوں کو کیوں اذیت دیتے ہو۔ جب کہ تمہارے پاس عود الہندی (قسط البحری) موجود ہے، جس میں سات بیماریوں سے شفاء ہے جن میں ذات الجنب (پھیپھڑوں میں پانی کی بیماری) بھی ہے۔ ذات الجنب میں یہ کھلائی جائے جب کہ عذرہ میں چٹائی جائے۔ (بخاری)
ضروری وضاحت: علامہ انور شاہ کشمیریؒ نے اس حدیث کی تفسیر میں قرار دیا ہے کہ رسول اللہ کی عود ہندی سے مراد قسط الہندی (قسط البحری) ہی ہے۔
12-مفہوم: وہ حضرت عکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہ کی بہن تھیں ، خبر دی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنے بیٹے کو لے کر حاضر ہوئیں۔ انہوں نے اپنے بچے کا کوا گرنے میں تالو دبا کر علاج کیا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ سے ڈرو کہ تم اپنی اولاد کو اس طرح تالو دبا کر تکلیف پہنچاتی ہو عود ہندی ( کوٹ ) اس میں استعمال کرو کیونکہ اس میں سات بیماریوں کے لیے شفاء ہے جن میں سے ایک نمونیہ بھی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد عود ہندی سے کست تھی جسے قسط بھی کہتے ہیں یہ بھی ایک لغت ہے۔(کتاب الطب۔ بخحاری۔مسلم۔ ابی دائود)
قسط کے سلسلہ کی تمام احادیث پر ایک ساتھ غور کرنے کے بعدیہ بات کسی حد تک واضح ہوجاتی ہے کہ حضور اکرم نے قْسط، کْست، قسط الہند، قْسط السجری اورعودالہند کے ناموں سے جس دوا کااستعمال حلق اور ذات الجنب جیسی بیماریوں کے لئے بتایا ہے وہ ایک ہی دوا (جڑی) کے کئی نام ہیں۔ جیسا کہ مسلم اور بخاری کی ا حادیث سے ظاہر ہئے۔ عودالہندی سے مراد قسط اس لئے ہے کہ عود بمعنی قسط کی جڑ یا لکڑی (عربی میں لکڑی کوعود کہتے ہیں) ہندوستان سے در آمد کی جاتی تھی۔ اس طرح قسط السجری سے مراد ایسی قسط ہے جو سمندر پار سے لائی جاتی تھی نہ کہ خود سمندر سے۔ سچ تو یہ ہے کہ سمندر میں کوئی بھی نبات ایسی پیدا ہی نہیںہوتی ہے جو قسط کی طرح لمبی اورمضبوط جڑ کی طرح ہو۔
کچھ محققین نے مصر کی ایک جڑ کو Costus کہا ہے جو نباتاتی اعتبار سے Costus speciosa ہے۔ لیکن حضور اکرم کے زمانہ میں عربوں میں اس کی مقبولیت تاریخی حوالوں سے ثابت نہیں ہے۔
’’عود‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے لغوی معنیٰ لکڑ ی یا درخت کی شاخ کے ہیں۔ اس طرح کسی بھی درخت کی لکڑی یا شاخ کو عود کہا جاسکتا ہے لیکن ہندوستان میں ’’عود‘‘ کا مفہوم صرف ’’اگر‘‘ (Aquilaria agollocha) کی لکڑی سے لیا جاتا ہے۔ یہ ہندوستانی پودہ ہے اور صرف آسام کے پہاڑی علاقوں میں پایا جاتا ہے۔تاریخی اعتبار سے کوئی ایسے ریکارڈ نہیں ملتے ہیں کہ آسام سے ہی رسول اللہؐ کے دور میں عرب درآمد کی جاتی تھی۔
یوں تو بعض لوگ لوبان کو بھی عود کا نام صرف اس لئے دے دیتے ہیں کیونکہ دونوں کا استعمال بطوربخورکیا جاتا ہے۔ برخلاف اس کے عربی زبان او رعرب ومصر کی طب میں مختلف طبی اہمیت کی لکڑیوں کو عود کے نام سے جانا جاتا ہے مثلاً قے پیدا کرنے والی Cyperus articulata
کی لکڑی کو عود القئی اور پھوڑے پھنسیوں پر لگانے والی لکڑی عود القرح کہلاتی ہے۔
عود البرق (Myrica esculenta) بھی طبی اعتبار سے اہم لکڑی ہے۔ وہ لکڑی جس پر حضرت عیسیٰ کو صلیب پر چڑھایا گیا۔ عودالصلیب کہلاتی ہے۔ عود الانجبار اور عود قاقائی کچھ دوسری اہم لکڑیوں کے نام ہیں۔ عود قاقائی غالباً اسی درخت کی لکڑی ہے، جس کا ذکر مولانا سید سلیما ن ندوی نے ارض القرآن میں عود قاقلی کے نام سے کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس کے جنگلات حضرموت میں پائے جاتے ہیں۔
یہ تاریخی حقیقت اب بہت کچھ واضح ہوچکی ہے کہ عرب ہند کے درمیان تجارت کا سلسلہ اسلام کے قبل ہی شروع ہوچکا تھا۔ نباتاتی ادویات ہندوستان سے بڑ ے پیمانے پر عرب لے جائی جاتی تھیں۔ ا ن ادویات میں کٹھ نام کی لمبی اور موٹی جڑیں بھی کافی مقدار میں شامل ہوتی تھیں جن کو عرب کے حکماء قسط او رکست کے نام سے مختلف امراض کے لئے استعمال کرتے تھے۔ اسے عود ہندی (ہندوستان کی لکڑی) بھی کہتے تھے۔ جن کا نباتاتی نام Saussurea costusہے۔پہلے اسے Saussurea lappa کا نام دیا گیا تھا۔ قسط کی جڑیں کشمیر کے علاقے کی پیداوار ہیں۔کچھ اسے جنوبی ہند کے مغربی علاقہ میں بھی یہ پایا جاتا ہے۔ ہندوستان میں اسے متعدد نام سے جانا جاتا ہے۔ جیسے کشت۔ کتھ۔کٹھ وغیرہ۔ کشمیر میں اس کوکتھ اور پوست کھائی بھی کہتے ہیں۔
صحیح بخاری شریف کی کتاب الطلاق کے باب 203اور 203 کے تحت احادیث میں عورتوں کو اجازت دی گئی ہے کہ وہ سوگ کے دوران قسط کی خوشبو کا استعمال کرسکتی ہیں۔ اس کے علاوہ کتاب الطب کے باب 418 میں عود ہندی اور قسط کے بارے میں ایک حدیث یوں درج ہے۔
مولانا عبدالحکیم نے بخاری شریف کی ایک حدیث ترجمہ اسطرح کیا ہے ’’عبیداللہ بن عبداللہ کا بیان ہے کہ حضرت ام قیس بنت محصن رضی اللہ تعالیٰ عنہا جو اسد خزیمہ کی نسبت سے اسدیہ اور سب سے پہلے ہجرت کرنے والی عورتوں میں سے ہیں اور جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تھی اور یہ حضرت عکاثہ کی بہن ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ اپنے بچے کو لیکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئیں جس کو گلے میں تکلیف تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اپنی اولاد کو تالو دباکر تکلیف کیوں دیتی ہو۔ تمہیں چاہئے کہ عود ہندی (بخاری شریف، العود ہندی) استعمال کیا کرو کیونکہ اس کے اندر سات بیماریوں کی شفا ہے، جن میں ایک نمونیہ (بخاری شریف، ذات الجنب) ہے۔ عود ہندی سے مراد کست (قسط) ہے۔
الطب نبوی کے باب 405و 408، 416 اور 421 کے تحت بھی احادیث میں قسط (کست) بنام عود ہندی کا ذکر ایک ایسی دوا کے طور پر ہوا ہے جس کو سات بیماریوں میں مفید بتایا گیا ہے۔ واضح رہے کہ موجود سائنسی تحقیق کی روشنی میں قسط کی جڑ گلے اور دمہ (Bronchial Asthama) کی بیماری میں بہت مفید ہے کیونکہ اس میں موجود کیمیاوی جز (Saussurin) کو بہترین Bronchodilator پایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ وہ امراض جن میں قسط مفید ہیں وہ ہیں کالرا، بخار، جلدی امراض، ناسور، معدہ کی خرابی (Dyspepsia)، دانت کا درد اور Rheumatism۔
مندرجہ بالااحادیث نبویؐ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جس عود ہندی اور قسط کا ذکر کتاب الطب میں ملتا ہے وہ اصل میں ہندوستانی ’’کٹھ‘‘ (سنسکرت، کشٹ) کی جڑ ہے (Saussurea Costus، نہ کہ آسامی ’’اگر‘‘ کی لکڑی یعنیAquilaria malaccensis طب نبوی کے ضمن میں اس کی وضاحت نہایت ضروری ہے ۔
[email protected]