ہنیہ کی شہادت، فلسطینی تحریک مزاحمت کا مستقبل اور ایران کی سیکورٹی: پروفیسر اخترالواسع

0

پروفیسر اخترالواسع

31جولائی بدھ کے روز علی الصباح ایرانی دارالحکومت تہران کے ایک ہوٹل میں فلسطینی تحریک مزاحمت کے قدآور رہنما اور حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کی میزائل حملے میں شہادت جہاں فلسطین اور فلسطینیوں کے لیے ایک بڑا صدمہ ہے، وہیں امن عالم کے ان وکیلوں کے لیے بھی ایک بڑا جھٹکا ہے جو عالمی سطح پر امن کی کسی بھی خواہش کو مسئلۂ فلسطین سے جوڑ کر دیکھتے ہیں۔ ان کے مطابق امن عالم کی کوئی بھی کوشش اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک کہ فلسطین میں امن قائم نہیں ہو جاتا اور فلسطین میں امن اس وقت قائم ہو سکتا ہے جب کہ فلسطینیوں کے ساتھ انصاف ہو اور ان کو ان کے تمام جائز حقوق دیے جائیں۔ اسماعیل ہنیہ فلسطینی تحریک مزاحمت کے مقبول ترین رہنماؤں میں سے ایک تھے۔ یہ ان کی فلسطینی عوام میں مقبولیت ہی تھی جو 2006کے فلسطینی انتظامیہ کے عام انتخاب میں ان کی قیادت والے سیاسی گروہ کو بھاری اکثریت ملی اور نتیجے کے طور پر وہ فلسطینی انتظامیہ کی منتخب حکومت کے وزیر اعظم بھی بنے۔
اسماعیل ہنیہ اور ان کی نسل کی فلسطینی قیادت نے بنیادی طور پر مسئلہ فلسطین کی کوکھ سے جنم لیا ہے۔ ان کے والدین کا تعلق ایک ایسے خاندان سے تھا جسے1948کی جنگ کے دوران عسقلان( موجودہ اشکلان) کے شہر سے مہاجرت اختیار کرنی پڑی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اقوام متحدہ کی تقسیم میں ان کا علاقہ اسرائیل کی ریاست کا حصہ بنا دیا گیا تھا۔ 1962میں اسماعیل ہنیہ کی پیدائش ایک مہاجر کیمپ میں ہوئی، انہوں نے نامساعد حالات میں تعلیم حاصل کی اور زندگی کے ہر مرحلے میں فلسطینیوں پر مظالم کے پہاڑ ٹوٹتے دیکھے۔ ان حالات میں نوجوان اسماعیل ہنیہ کا مزاحمتی تحریک کی طرف رجحان اور بعد ازاں اس سے وابستگی بالکل فطری امر تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ1980کی دہائی میں تعلیم کی تکمیل کے ساتھ ہی مزاحمتی تحریک سے وابستہ ہوگئے۔ اس سلسلے میں کئی بار انہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھی جانا پڑا۔ یہ قید چند مہینوں سے لے کرسالوں تک طویل تھی اور بالآخر انہیں جلاوطنی کی زندگی پر مجبور ہونا پڑا۔1993 میں اوسلو معاہدے کے بعد وہ غزہ کی پٹی میں واپس لوٹے اور تدریس کے شعبے سے وابستہ ہو گئے۔1997میں شیخ احمد یٰسین کی اسرائیلی جیل سے رہائی کے بعد اسماعیل ہنیہ کو ان کا معادن مقرر کیا گیا۔ شیخ احمد یٰسین سے اسماعیل ہنیہ کی قربت نے بہت جلد انہیں فلسطینی تحریک مزاحمت حماس کے اہم رہنماؤں میں شامل کر دیا۔ اس دوران ان پر کئی بار جان لیوا حملے بھی ہوئے البتہ ہر بار وہ محفوظ رہے۔
اسماعیل ہنیہ کی زندگی میں سب سے اہم موڑ اس وقت آیا جب جنوری2006میں فلسطینی انتظامیہ کے پارلیمانی انتخابات کے دوران حماس کی انتخابی مہم کی قیادت ان کے حوالے کی گئی اور جب ان کی قیادت میں حماس نے ان انتخابات میں غیرمعمولی کامیابی حاصل کرتے ہوئے 132 میں سے76پارلیمانی نشستیں جیت لیں تو وزارت عظمیٰ کے لیے قرعہ فال بھی ان ہی کے نام کا نکلا۔ اسماعیل ہنیہ نے اپنی جماعت اور کچھ ٹیکنو کریٹس پر مشتمل حکومت تشکیل دی البتہ مختلف بہانوں سے اکثریت کے باوجود اندرونی اور بیرونی دونوں طرح کے دباؤ میں ان کی حکومت کو کام کرنے نہیں دیا گیا، ان کی حکومت برخاست کر دی گئی اور اس کے نتیجے میں غزہ اور مغربی کنارے میں فلسطینیوں کی دو الگ الگ حکومتیں کام کرتی رہیں۔ حالاں کہ مبصرین کی ایک تعداد کا کہنا ہے کہ اگر اسماعیل ہنیہ کی حکومت کو آزادانہ کام کرنے دیا جاتا تو حماس تشدد کا راستہ چھوڑ کر مذاکرات کی میز پر آسکتی تھی اور دوریاستی حل کی مفاہمت کے لیے راستہ زیادہ آسانی سے ہموار ہو سکتا تھا۔ اسماعیل ہنیہ کی قیادت میں حکومت کا قیام ہی اس بات کا ثبوت تھا کہ مزاحمتی تحریک حماس فلسطین کے دور یاستی حل میں یقین رکھتی ہے اور اس کی حکومت میں اس جانب اگر کوئی پیش رفت ہوتی ہے تو زیادہ قابل قبول ہوگی۔
اسماعیل ہنیہ میں سیاسی فراست اور قیادت کے جو اوصاف تھے، ان کے پیش نظر یہ بات کہی جاتی تھی کہ مستقبل میں مسئلہ فلسطین کے کسی بھی سیاسی حل میں(اگر وہ حل ہوتا ہے) ان کا اہم رول ہوگا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اسماعیل ہنیہ نہ صرف یہ کہ فلسطینی تحریک مزاحمت حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ تھے بلکہ وہ فلسطینی انتظامیہ کی حکومت کی قیادت کا تجربہ بھی رکھتے تھے اور عملیت پسندی سے بہت قریب تھے۔ حماس کی اعلیٰ قیادت میں وہ ایک ایسے فرد تھے جو مسئلہ فلسطین کے سیاسی حل میں شاید سب سے زیادہ یقین رکھتے تھے۔ انہوں نے اپنی حکومت کے دوران امریکہ اور یوروپی یونین کے ممالک کے ساتھ تعلقات برقرار رکھے، ان پر زور دیا کہ و فلسطینی انتظامیہ کی مالی اعانت جاری رکھیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے بین الاقوامی ثالثوں کے ساتھ مذاکرات کے بھی خواہاں ہیں، تاہم وہ یہ بھی چاہتے تھے کہ فلسطینیوں کو آزادی کے حصول کے لیے جدو جہد جاری رکھنے کا حق ملنا چاہیے۔ اپنی حکومت کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ہماری حکومت خطے میں انصاف کے حصول، قبضے کو ختم کرنے اور اپنے حقوق کی بحالی کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑے گی۔
اسماعیل ہنیہ کی شہادت جن حالات میں ہوئی ہے، ان میں اسرائیل نے حالاں کہ براہ راست ان کی ہلاکت کی ذمہ داری نہیں لی ہے لیکن پوری دنیا جانتی ہے کہ اس میں اسرائیل پوری طرح ملوث ہے۔ ا ٓج نہیں تو کل حقائق نکل کر کے سامنے آئیں گے۔ اب بڑا سوال یہ ہے کہ اسماعیل ہنیہ کے بعد فلسطینی تحریک مزاحمت حماس کا مستقبل کیا ہے؟ اس میں شک نہیں کہ اسماعیل ہنیہ موجودہ وقت میں حماس کے سب سے بڑے سیاسی رہنما اور چہرہ تھے۔ حماس کے عالمی سطح پر روابط ہوں یا مسئلۂ فلسطین کے حوالے سے ہونے والے مذاکرات سب ان ہی کی نگرانی میں انجام پاتے تھے، اس لیے کسی قدران کا متاثر ہونا یقینی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ پر تشدد کارروائیوں میں یقین رکھنے والا حماس کا گروپ اسماعیل ہنیہ کی غیر موجودگی میں مزید قوت کے ساتھ ابھرے۔ حالاں کہ یہ کہا جارہا ہے کہ خالد مشعل، جو پہلے بھی حماس کا سیاسی شعبہ دیکھتے رہے ہیں، ان کی قیادت میں حماس اپنی بین الاقوامی سیاسی شناخت کو محفوظ رکھ سکے گی۔ دوسرا اہم سوال اسماعیل ہنیہ کی ایرانی دارالحکومت تہران میں شہادت کو لے کر ہے؟ یہاں یہ سوال قطعی بے معنی ہے کہ اس شہادت میں ایران کا بھی کوئی رول ہوسکتا ہے۔ البتہ شہادت کو لے کر ایران کی سیکورٹی کی صورت حال پر سوال ضرور اٹھائے جارہے ہیں کیوں کہ اسماعیل ہنیہ کی شہادت تہران کے سب زیادہ محفوظ سمجھے جانے والے علاقے میں ہوئی ہے اور ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب نومنتخب ایرانی صدر کی تقریب حلف برداری کے موقع پر مختلف ممالک اور خود ایران کی اہم سیاسی شخصیات تہران میں موجود تھیں۔ سوال یہ ہے کہ ایران جب اپنے دارالحکومت کے سب سے زیادہ سیکورٹی انتظامات والے علاقے میں محفوظ نہیں ہے تو پھر اور کہیں کیسے خود کو محفوظ رکھ سکتا ہے یا کسی کی حفاظت کی ذمہ داری لے سکتا ہے۔
دوسری طرف ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ اسرائیل کی خفیہ ایجنسیاں اور ادارے اس حد تک دوسرے ملکوں میں نفوذ رکھتے ہیں کہ ایران جیسا اس کا کٹر دشمن بھی اس کی کارروائیوں سے محفوظ نہیں ہے تو پھر دنیا کا کوئی تیسرا ملک اسرائیلی خفیہ ایجنسیوں سے کیسے محفوظ رہ سکتا ہے۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ اسرائیلی خفیہ ایجنسیاں کسی بھی سیاسی و عسکری شخصیت کو دنیا کے کسی بھی خطے میں نشانہ بنا سکتی ہیں۔ یہ سوال صرف ایرانی سیکورٹی کی صورت حال کو لے کر نہیں ہے بلکہ پوری دنیا کی سیکورٹی پر یہ سوال برابر عائد ہوتا ہے۔ قابل غور پہلو یہ بھی ہے کہ اگر ایران میں اسرائیلی ایجنسیوں کی کارروائیوں پر دنیا بھر سے آواز نہیں اٹھے گی تو پھر یہ اسرائیلی ایجنسیاں کل کو کسی بھی ملک میں اس کے یا کسی بھی دوسرے ملک کے سیاسی رہنما کو نشانہ بنانے سے نہیں چوکیں گی، اگر وہ اسرائیلی مفادات کے خلاف جاتا ہے۔ لہٰذا یہ بھی ضروری قرار پاتا ہے کہ عالمی سطح پر اسرائیل اور اس کی خفیہ ایجنسیوں کو سبق دیا جائے کہ کسی بھی ملک کی سالمیت اور خود مختاری کو چیلنج کرنے والا ان کا کوئی بھی اقدام برداشت نہیں کیا جائے گا۔
(مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پروفیسر ایمریٹس اسلامک اسٹڈیز ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS