عبدالماجد نظامی
فلسطین کی مزاحمتی تحریکوں کی فہرست میں سب سے اوپر اپنا مقام بنانے والی تحریک کا نام ’’حماس‘‘ہے یعنی حرکۃ المقاومۃ الاسلامی جس کی تاسیس شیخ احمد یٰسین نے بیسویں صدی کی آٹھویں دہائی میں اپنے رفقاء کے ساتھ مل کر کی تھی تاکہ مسجد اقصیٰ اور ارض فلسطین کو صہیونی و صلیبی قبضہ سے آزاد کرا سکیں۔ اس تحریک کا سفر گرچہ ایک چھوٹی جماعت کی شکل میں شروع ہوا تھا لیکن بانیوں کے اخلاص اور مقصد پر مکمل ارتکاز کی وجہ سے یہ تحریک نہایت کامیاب ہوئی۔ لیکن اس کی کامیابی ہمیشہ اس سے وابستہ مخلصین کی صبر آزما محنتوں اور قربانیوں کی مرہون منت رہی ہے۔ اس کا آغاز گرچہ ایک سماجی تنظیم کے طور پر ہوا تھا اور ابتدائی ایام میں نئی نسل کی تربیت، تعلیم و صحت اور رفاہی امور سے متعلق مختلف ذمہ داریوں کی ادائیگی پر اس تحریک نے اپنی توجہ مرکوز رکھی، البتہ اس کا بنیادی مقصد ہمیشہ فلسطین کی آزادی کی راہ میں پوری کوشش کرنا اور صہیونی ایجنڈہ کے سامنے گھٹنے ٹیکنے سے انکار پر قائم رہا اور آج تک اسی نہج پر قائم ہے۔ حماس کی عظمت کا ستارہ اس وقت تیزی سے بلند ہونا شروع ہوا جب1993میں اوسلو کا معاہدہ ہوا اور یاسر عرفات جیسی بلند قامت شخصیت نے بھی امریکی فریب میں آکر اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرلیا۔ اس معاہدہ کے تحت ہی یاسر عرفات کی پی ایل او نے فلسطین کی آزادی کے لیے مسلح کوششوں سے دستبرداری کا اعلان کر لیا۔ یہ معاہدہ بظاہر بہت دلکش معلوم ہو رہا تھا اور امریکہ و مغرب کے لیڈران کے ذریعہ اس کی امید جگائی گئی تھی کہ فلسطینیوں کو ان کی آزاد ریاست ملے گی اور وہ ایک آزاد و با اختیار قوم کی طرح باعزت زندگی گزاریں گے۔ اس معاہدہ کی تفصیل کے ذکر کا یہ وقت نہیں ہے اور نہ ہی یہ مختصر کالم اس کا متحمل ہے۔ مختصر یہ ہے کہ یاسر عرفات نے جس توقع کے ساتھ اپنی قوم کے لیے اتنی بڑی قربانی پیش کی تھی، اس کا نتیجہ صفر نکلا کیونکہ اسرائیل کے تشدد پسند صہیونیوں نے اس معاہدہ کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور جس اسرائیلی لیڈر نے اس معاہدہ میں کلیدی کردار ادا کیا تھا، ان کو یہودیوں کی اس متشدد جماعت نے معاہدہ کے ایک سال بعد ہی قتل کر دیا۔
بعد میں فلسطینیوں کو یہ محسوس ہوگیا کہ ان کی آزادی اور آزاد ریاست کا جو پر فریب نقشہ امریکہ نے بطور ثالثی اوسلو معاہدہ کے وقت پیش کیا تھا، وہ محض ایک سراب تھا کیونکہ وہ صرف کاغذ کا ایک ٹکڑا ثابت ہوا اور اس میں درج معاہدہ کی شقوں پر عمل کرنے کا کوئی امکان اب باقی نہیں رہا۔ صہیونی ریاست کی سیاست پر اب ان تشدد پسند یہودیوں کا قبضہ ہوچکا ہے جو سرے سے فلسطینیوں کے حقوق کے منکر اور انہیں ان کے گھروں اور زمینوں سے اسی طرح نکال باہر کر دینا چاہتے ہیں جس طرح1948میں فلسطینی زمینوں پر غاصبانہ قبضہ کرکے ایک ناجائز ریاست قائم کرلی تھی اور فلسطینیوں کو نہ صرف بے گھر کیا گیا تھا بلکہ ان کا قتل عام بھی کیا گیا تھا۔ دیر یٰسین کا قتل عام آج تک صہیونی بربریت کی بدترین مثال کے طور پر تاریخ میں ثبت ہے۔ (دیر یٰسین فلسطین کا وہ مقام ہے جو اب اسرائیل کے اندر ہے۔ 1948 میں وہاں فلسطینیوں کا بے دریغ قتل عام ہوا تھا)۔ ایسے ماحول میں جبکہ پی ایل او کی اہمیت اور معنویت ختم ہورہی تھی اور اس کا امکان پیدا ہو رہا تھا کہ کہیں فلسطین کی آزادی کے لیے جنگ کا کوئی نیا آغاز اب نہ ہوسکے اور انبیاء و قبلۂ اولیٰ کی امین یہ سر زمین ہمیشہ کے لیے بے نام و نمود نہ بنا دی جائے، ایک نئی قوت اور امید کے طور پر ’’حماس‘‘ افق پر نمودار ہوتی ہے اور جس مسلح مزاحمت سے براء ت کا اظہار عرفات اور ان کی تنظیم کر چکی تھی، اس کا جھنڈا ’’حماس‘‘نے اٹھا لیا اور یاسر عرفات کی تنظیم کے مقابلہ زیادہ بہتر اور منظم انداز میں نئی نسل کی تربیت کے ساتھ ساتھ فلسطین اور مسجد اقصیٰ کی آزادی کے لیے کوشاں رہنے کا عزم دکھایا اور ہر طرح کی قربانیوں کے لیے خود کو پیش کیا۔ اس کے قائدین اور اراکین کے پائے ثبات میں کبھی بھی ادنیٰ درجہ کا بھی تزلزل پیدا نہیں ہوا۔ اس کی شاندار مثال اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتی ہے کہ ’’حماس‘‘ کے تقریباً تمام ممتاز قائدین صہیونی دشمن کے ہاتھوں شہادت پا کر سرخ رو رہے ہیں۔ ’’حماس‘‘ کے بانیوں میں شیخ احمد یٰسین اور ان کے رفیق عمل عبدالعزیز الرنتیسی کے نام سب سے نمایاں ہیں۔ ان دونوں شخصیتوں کو بھی محض تھوڑے وقفہ کے بعد ہی اسرائیل نے شہید کر دیا تھا۔ اس کے بعد ممتاز ترین نام شیخ اسماعیل ہنیہ کا آتا ہے جن کی تربیت شیخ احمد یٰسین نے کی تھی اور تحریک کو کامیاب طریقہ سے چلانے کا ہنر انہیں سکھایا تھا۔ شیخ اسماعیل ہنیہ نے امید سے بڑھ کر اپنی ذمہ داریاں نبھائیں۔ سیاسی محاذ پر بڑی کامیابیاں حاصل کیں۔ عالمی سطح پر فلسطینیوں کے عظیم رہنما کے طور پر قبول کیے گئے اور 2006کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد غزہ میں حکومت قائم کی اور وزارت عظمیٰ کے منصب پر سر فراز ہوئے۔ اپنے ستم رسیدہ لوگوں میں امید پیدا کی اور ان کا خیال ایک مشفق باپ کی طرح رکھا۔ جب اپنی اولاد کی شہادت پر انہوں نے کہا تھا کہ غزہ میں شہید ہونے والا ہر بچہ، مرد و عورت ان کی اولاد کی مانند ہے تو وہ کوئی رسمی جملہ نہیں کہہ رہے تھے بلکہ وہ حقیقت بیان کر رہے تھے۔ ان کی شہادت کے بعد فلسطینیوں نے ان کی جدائی پر جس درد و غم کا اظہار کیا ہے، وہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ مرد مجاہد کتنا ہر دلعزیز تھا۔ عالم اسلام بھی سوگوار ہے۔ چند بے ضمیر عرب فرمانرواؤں کو چھوڑ کر مسلم دنیا کا شاید ہی کوئی ایسا باخبر انسان ہوگا جو ان کی شہادت کے غم میں نڈھال نہ ہوا ہو۔ ایک ایسے وقت میں جبکہ پوری امت انتشار اور بے جہتی کا شکار ہے، مرد مجاہد شیخ اسماعیل ہنیہ نے مسلم امت کو متحد کر دیا۔ ان سے عالمی سطح پر اتنی گہری محبت اس لیے ہے کیونکہ کتاب الٰہی کے اس حافظ نے فلسطین کی آزادی کی لڑائی کو اس مرکز تک پہنچا دیا جس سے ہر مومن کا قلب مربوط ہوتا ہے۔ یعنی انہوں نے اپنی آئندہ نسل کو یہ یقین دلایا کہ فلسطین کی آزادی کی لڑائی زمین کے ایک ٹکڑے کے لیے نہیں ہے بلکہ اس فکر اور عقیدہ کے لیے ہے جس کے بغیر اس امت کا کوئی وجود نہیں ہے۔ جب تک اس عقیدہ کے تحت یہ جنگ نہیں لڑی جائے گی اور اس کی راہ میں شہادتیں پیش نہیں کی جائیں گی تب تک قبلۂ اول مسجد اقصیٰ کو آزاد کروانے کا خواب پورا نہیں ہوگا۔ شہید اقصیٰ اسماعیل ہنیہ نے اپنے افراد خاندان کے ساتھ ساتھ اپنی بھی شہادت پیش کرکے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اس امت کو اپنے مقصد کی خاطر قربانیوں سے گھبرانا نہیں چاہیے اور اس وقت تک جدوجہد کرنی چاہیے جب تک اس امت کی عظمت بحال نہیں ہوجاتی۔ ظاہر ہے کہ جب تک مسجد اقصیٰ کی آزادی کو یقینی نہیں بنایا جاتا ہے تب تک یہ کام پایۂ تکمیل کو نہیں پہنچے گا۔ جب صہیونیوں نے مذہب کا غلط استعمال کرکے فلسطین کی سر زمین پر غاصبانہ قبضہ جما لیا ہے تو اس کو واپس لینے کا بھی راستہ ایمان و عقیدہ کی راہ سے ہوکر ہی گزرتا ہے۔ اسماعیل ہنیہ کی یہ خوبی تھی کہ وہ اس نہج پر آخری دم تک قائم رہے اور اسی راہ میں شہید بھی ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ عالم اسلام اپنے اس عظیم قائد کو کھو دینے پر سوگوار ہے۔ ان کی شہادت سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جو ایمان و عقیدہ کو اپنا مقصد حیات بنالیتے ہیں، وہ آج بھی اسلامی دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں خواہ ان کے پاس تیل اور گیس کے خزانے ندارد ہی کیوں نہ ہوں۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]