تنازعات میں ثالثی یا سمجھوتہ

0

کسی بھی تنازع میں فریق مخالف کوعدالت میں گھسیٹنا اورلمبی قانونی لڑائی لڑناشاید ہی کوئی پسند کرتاہے، کیونکہ قانونی لڑائی ایک تو آسان نہیں ہوتی، دوسرے بہت خرچیلی اور پریشان کن ہوتی ہے اور قانونی لڑائی میں ہار ہوگئی، توبہت زیادہ تکلیف بھی ہوتی ہے ۔ ایسے میں گائوں میں اس طرح کا رواج یا رجحان ہے کہ لوگ اپنے تنازعات کو تھانوں یا کورٹ میں لیجانے کے بجائے خاندان کے بزرگوں،پردھان یا سرپنچ کے سامنے پنچایت کی صورت میں لے جاتے ہیں، وہاں عموما کچھ لے دے کر سمجھوتہ ہوجاتاہے اورتنازع حل ہوجاتا ہے۔ شہروں میں مقامی سطح پر عموماً ایسا کوئی نظم نہیں ہوتا، حالانکہ خانگی اورلوک عدالتیں ہوتی، تاہم لوگوں میں اس کے تئیں ناواقفیت اوربیداری نہیں ہوتی، تووہ عدالتوں کا رخ کرتے ہیں اورپھر برسوںخود بھی عدالتوں کا چکر لگاتے ہیں اور مخالف فریق سے بھی لگواتے ہیں۔ اس طرح وہ ارادتایا غیر ارادتاًمعمولی معمولی تنازع میں عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ بڑھانے کاکام کرتے ہیں۔ پنچایت ،ثالثی یا سمجھوتہ ایک ایساآزمودہ سسٹم ہے ، جس سے بڑے بڑے تنازعات دنوں نہیں، بلکہ چند گھنٹوں میں بات چیت کے ذریعہ حل ہوجاتے ہیں اورمعاملہ کا تصفیہ ہوجاتاہے۔عدالتی یا قانونی انتظامات کی بات کریں ، تو خاندانی اورلوک عدالتیں بھی خوشگوار ماحول میں بات چیت اور مصالحت کے ذریعہ جھگڑوں کو حل کرتی ہیں ۔عموماوہاںمسائل حل ہوجاتے ہیں ، بہت کم عام عدالتوں میں جانے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے ۔گزشتہ دنوں سپریم کورٹ کی طرف سے منعقدہ ایک تقریب میں مرکزی وزیرقانون ارجن میگھوال نے کہاکہ ثالثی طویل عرصے سے ہندوستانی کلچر کا حصہ رہی ہے اور خود احتسابی تنازعات کو حل کرنے میں مدد کرتی ہے۔ اپنے قیام کے 75 سال کی یاد میں سپریم کورٹ نے معاوضے، حصول اراضی، ازدواجی اختلافات کے تنازعات کو حل کرنے کیلئے ایک خصوصی لوک عدالت ہفتہ کا اہتمام کیا ، تو ایک ہزار سے زیادہ معاملات حل ہوگئے ۔
ادھرچیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کابھی کہناہے کہ لوگ عدالتی مقدمات سے اتنے تنگ آچکے ہیںاورپریشان ہیں کہ کسی طرح بس تصفیہ یاسمجھوتہ چاہتے ہیں ، کیونکہ قانونی لڑائی ان کیلئے ایک سزا بن گئی ہے، جو ہم سب ججوں کیلئے بھی لمحہ فکریہ ہے۔ انہوں نے بھی لوک عدالتوں کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ لوک عدالتیں وہ فورم ہیں، جہاں عدالتوں میں زیر التوا معاملات یا قانونی چارہ جوئی سے پہلے ہی خوش اسلوبی سے طے پاتے ہیں یا سمجھوتہ کر لیا جاتا ہے اوروہاں ہوئی باہمی رضامندی کے خلاف کوئی اپیل عدالت میں داخل نہیں کی جا سکتی، غرضیکہ چیف جسٹس اورمرکزی قانون دونوں کاماننا ہے کہ عدالتوں کے باہر تنازعات کو ثالثی یا سمجھوتہ کے ذریعہ حل کرنا بہت ہی کارگرہے ۔ اس میں سبھی کیلئے فائدہ ہے ، لوگوں کو یہ فائدہ ہوتاہے کہ باہمی تنازعات کے حل کیلئے زیادہ بھاگ ڈور اورخرچ کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ عدالتو ں کو فائدہ یہ ہے کہ وہاں چھوٹے چھوٹے تنازعات نہ پہنچنے کی وجہ سے مقدمات کا انبار نہیں لگے گا۔اہم مقدمات میں عدالتوں کے اوقات زیادہ صرف ہوں گے، ان کی تیز سماعت ہوگی اور جلد فیصلے ہوں گے، جو برسوں تک زیرالتوا رہتے ہیں ۔اس میں سکون اورراحت سب کیلئے ہے ، ورنہ آج عدالتوں کا حال یہ ہے کہ ایک تو وہاں تک عام لوگوں کی رسائی نہیں ہوپاتی ، وہاں کسی طرح پہنچ بھی گئے ،تو طویل عرصے تک مقدمات لڑتے رہتے ہیں ، اس میں جتنی پریشانی مدعی علیہ یا فریق مخالف کو ہوتی ہے ، اس سے کم مدعی کو نہیں ہوتی ۔عام طور پر لوگ نچلی عدالت کے فیصلہ تک تھک جاتے ہیں، ان کو لگتا ہے کہ نچلی عدالت سے انصاف نہیں ملا،پھر بھی ایک تو پیسے کی کمی دوسرے اتنی انرجی نہیں رہتی ہے کہ ہائی کورٹ اوراس کے بعد سپریم کورٹ کا رخ کریں اوروہاں بھی قانونی لڑائی لڑیں۔
عدالتوں کے باہر تنازعات کا تصفیہ ثالثی یا سمجھوتہ کے ذریعہ کرناآسان ہوتاہے اور اس میں تعلقات بھی خراب ہونے کا اندیشہ کم رہتاہے ، لیکن عدالتوں کے ذریعہ تنازعات کوحل کرانا بہت مشکل امر ہے ۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عدالتوں کے باہر تنازعات کے حل کیلئے صرف سسٹم بنادینے سے کام نہیں چلے گا، اس کیلئے لوگوں میں بیداری پیداکرنے کی ضرورت ہے اورانہیں سمجھانا ہوگا کہ وہ عدالتوں کا رخ مجبوری میں کریں، اپنے تنازعات خاندان کے بزرگوں، پردھانوں، سرپنچوں کی پنچایت میںیا خانگی اورلوک عدالتوں میں بات چیت کے ذریعہ حل کرنے کی کوشش کریں ۔اسی میں ان کی بھلائی ہے اورملک کا بھی فائدہ ہے ۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS