شاہد زبیری
گزشتہ ہفتہ آل انڈیا مسلم پر سنل لاء بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا فضل الرحمن مجددی کی قیادت میں مولا خالد رشید فرنگی، مولانا عتیق الرحمن بستوی،ڈاکٹر قاسم رسول الیاس اور ایڈوو کیٹ سعود رئیس سمیت 5رکنی وفد نے یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ سے ان کی سرکاری رہائش گاہ پر ملاقات کی اور مدارس کی بابت سابق سکریٹری اتر پردیش درگا شنکر مشرا کی جانب سے یوپی کے 8449مدارس کو جاری نوٹس پر اپنا اعتراض جتا یا اور بتا یا کہ اس نوٹس کے بعد اضلاع کے کلکٹرصاحبان کی طرف سے مدارس کو غیر منظور شدہ قرار دیتے ہوئے انتباہ دیا جا رہا ہے کہ مدارس میں زیر تعلیم بچوں کو بیسک پرائمری اسکولوں میں داخل کرائیں ۔جن 8449مدارس کی فہرست جاری کی گئی ہے ان میں دارالعلوم دیوبند ،ندوۃ العلماء لکھنؤ ،جامعہ سلفیہ بنارس، جامعہ اشرفیہ مبارکپور ،جامعۃ الفلاح اور مدرستہ ا لاصلاح جیسے مدارس شامل ہیں ۔بورڈ کے وفد نے نیشنل کمیشن فور دی پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس (NCPCR) کی جانب سے جاری مکتوب پر بھی اعتراض درج کرایاجو یوپی کے چیف سکریٹری کو 7جون کو بھیجا گیا جس میں ہدایت دی گئی کہ غیر منظور شدہ مدارس کا سروے کرا کر ان کی میپنگ کرائی جائے اور ان مدارس میں تعلیم پارہے مسلم اور غیر مسلم بچوں کو مدارس سے اٹھا کر اسکولوں میں داخل کرا یا جائے۔ اسی کے ساتھ وفد نے وزیر اعلیٰ کو آگاہ کیا کہ مدارس میں دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم بھی دی جا رہی ہے۔ علاوہ ازیں مدارس میں طلبہ کو دی جانے والی دیگر مراعات اور سہولیات کی بابت بھی وزیر اعلیٰ کو بتا یا گیا، ساتھ ہی وفد نے سابق چیف سکریٹری کے حکم نامہ کی بابت آئین ہند کی مختلف دفعات کا حوالہ دیا اور سابق چیف سکریٹری کے حکم نامہ کو اقلیتوں کو دئے گئے آئینی حقوق سے متصادم بتا یا ۔وفد نے وزیر اعلیٰ سے مدارس کی خدمات اور کارناموں کا بھی ذکر کیا اور رائٹ ٹو ایجوکیشن ایکٹ کے حوالہ سے بھی بات کی۔ملاقات کی جو تفصیلات سامنے آئی ہیں ان سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ وزیر اعلیٰ کی طرف سے جواب میں کیا کہا گیا اس لئے نہیں کہاجاسکتا کہ اس ملاقات کا کوئی نتیجہ بر آمد ہوگا کہ نہیں ۔
ہمارے علم کے مطابق 2014میں مرکز میں قائم ہونے والی بی جے پی کی مودی سرکار اور بی جے پی کی یوگی سرکار کے قیام سے اب تک کسی مؤقر مسلم تنظیم کا یہ پہلا وفد ہے جس نے مسلمانوں کے کسی مسئلہ پر کسی وزیر اعلیٰ سے ملاقات کر نے کی پہل کی ہے۔ یوپی کی یوگی سرکار کے علاوہ مدھیہ پردیش کی بی جے پی کی موہن یادو کی سرکار بھی مدارس پر شکنجہ کس چکی ہے اور اس سرکار نے بھی حال ہی میں مدھیہ پردیش کے شیو پور ضلع کے 56مدارس کی منظوری ردّ کردی ہے ۔اس سے پہلے یو پی سرکار نے یوپی کی سرکار کے تحت چلنے والے یو پی مدرسہ ایجو کیشن بورڈ جو پہلے عربی فارسی بورڈ الٰہ آبادکے نام سے جانا جاتا تھاکے خلاف بھی بڑی کارروائی کرتے ہوئے بورڈ کو ہی تحلیل کردیا تھا اس وقت بھی ہم نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ اگلا قدم دینی مدارس کے خلاف ہو گا، لیکن اس وقت بورڈ سے الحاق شدہ مداس کے اسا تذہ کی تنظیم کے علاوہ دیگراربابِ مدارس اور ملّی تنظیموں سب نے چپّی سادھ لی تھی۔ الحاق شدہ مدارس کے اساتذہ کی تنظیم نے اس کے خلاف سپریم کورٹ کے دروازہ پر دستک دی اور سپریم کورٹ نے فوری طور عبوری راحت دیتے ہو ئے یو پی سرکار کے اس حکم نامہ پر روک لگا ئی تھی جو تاحال لگی ہوئی ہے اور معاملہ سپریم کورٹ میں زیرِ سماعت ہے ۔
مسلم پرسنل لاء بورڈ کا قیام 1972-73 میںہوا تھا جس کا مقصد 1937کے مسلم پر سنل لاء ایکٹ کے تحت اسلام کے عائلی قوانین کا تحفظ تھا۔ بورڈ نے اسی کے تحت اپنی جدو جہد جاری رکھی۔ یکساں سول کوڈ کا مسئلہ ہو یا شاہ بانو کیس ،بورڈ سرگرم رہا یہ اور بات کہ بورڈ نے شاہ بانو کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کو بے اثر قرار دینے کیلئے راجیو گاندھی سرکار سے ایک قانون پاس کرا لیا، اس کے ثمرات اور مضمرات میں جانے بغیر ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ بورڈ نے اسلام کے آئینی قوانین کے تحفظ کے دائرہ کار سے باہر قدم رکھتے ہوئے آگے چل کر بابری مسجد کیس کو اپنے ہاتھ میں کیوں لیااور اب مدارس کے معاملہ پر بھی بورڈ نے سر گرمی کیوں دکھائی ہے ؟۔ہماری نظر میں مدارس کی جو مذہبی اہمیت مسلمانوں کے نزدیک ہے اس سے کسی کو انکار نہیں ہے۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ اپنے طے شدہ مقاصد، حدود اور اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے اگر بابری مسجد کیس کو اپنے ہاتھ میں لے سکتا ہے اور اب اس نے مدارس کے مسئلہ پر پہل کی ہے تو بورڈ یوپی، اترا کھنڈ اور مدھیہ پردیش میں مساجد ،مدارس پر چلنے والے بلڈوزر پرخاموش کیوںہے کیا مساجد اور مدارس شعائر اسلام میں شامل نہیں۔ علاوہ ازیں مسلمانوں کے مکانوں اور تجارتی ٹھکانوں پر بھی بلڈوزر کا قہر جا ری ہے ۔یوپی اور اترا کھنڈ میں یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی تیاریاں ہو رہی ہیں اترا کھنڈ سرکار نے تو یکساں سول کوڈ کا مسودہ بھی تیار کرا لیا ہے ۔ یو پی سرکار نے پہلے مذہب کی تبدیلی کا قانو پاس کیا اور اب اسمبلی کے مانسون اجلاس میں لو جہاد معاملہ میں ایک اور بل پاس کرا لیا جس میں لوجہاد کے مرتکب کیلئے عمر قید کی سزا مقرر کی گئی ہے ۔ ایسا ہی معاملہ ماب لنچنگ کا ہے اخلاق سے لے کر پہلو خان تک ،تبریز اورجنید سے لے کر گنگوہ کے صدام و اس کے دیگر دوساتھیوں کے علاوہ علیگڑھ کے فرید تک ماب لنچنگ جیسے سنگین ترین واقعات پر مسلم پرسنل لاء بورڈ ہو یا دیگر ملّی تنظیمیں کوئی پیش قدمی کے لئے تیار نظر نہیں آتی ہیں۔ بعض ملّی تنظیموں نے عموماً ان مسائل پر سکوت اختیار رکھا ہے ۔ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ دیارِ ہند میں آزادی کے بعد سے ہی مسلمان امتیازی سلوک کی شکا یات کرتے آرہے ہیں اور اب تو حد ہو گئی دھرم سنسدوں میں مسلمانوں کو نسل کشی کی دھمکیاں دی جا نے لگی ہیں، تبدیلئی مذہب قانون کے بعد لو جہاد قانون کیا غضب ڈھا سکتا ہے کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔ماب لنچنگ ہو یا پولیس انکائونٹر یا بلڈوزر کا قہر یا فرقہ وارانہ فسادات یا ملازمتوں کا سوال حکومتوں کا امتیازی سلوک صاف دکھائی دیتا ہے۔ آخر مسلمان کس سے امید رکھیں کون ہے جو مسیحائی کرے گا۔ دعائوں اور مناجات سے انکار ممکن نہیں لیکن کیا بے عملی کے مرض میں یہ نسخہ کار گر ہو سکتا ہے اگر ہوتا تو کچھ تو نتائج سامنے آتے ۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ مسلم پر سنل لاء بورڈ نے اپنے دائرہ کار میں جو توسیع کی ہے وہ اس کو بہت پہلے کر نی چا ہئے تھی۔ اربابِ اقتدار سے ملاقاتوں کے ذریعہ ہی کم ازکم ان مسائل کو اجا گر کیا جا سکتا ہے لیکن ملّی تنظیمیں ہی نہیں مسلم دانشور بھی یہ کام نہیں کر پائے انہوں نے اقتدارِ وقت کی بجا ئے سنگھ پریوار کی زنجیر ہلا ئی اور اس کو بھی صیغۂ راز میں رکھنے کی کوشش کی۔ آخر ملّی تنظیمیں مسلمانوںکے مسائل کے لئے کب تک غیر بی جے پی اور سیکولرزم کی دعویدار جماعتوں پر تکیہ کرتی رہیں گی۔ غیر بی جے پی جماعتوں کا حال یہ ہے کہ مسلمانوں کے مسائل پر بولنا تو دور مسلمانوں کانام لیتے ہو ئے ان کے منھ میں دہی جم جاتی ہے وہ مائنارٹیز کی بات تو کرتی ہیں مسلمانوں کا نام لینے سے ان کو ڈر لگتا ہے۔ سب جا نتے کہ مائنارٹیز میں شامل مسلم اور عیسائی اقلیت کے علاوہ کسی حد تک سکھ اقلیّت کو مسائل کا سامنا ہے باقی اقلیتیں خواہ وہ جین ہوں یا پارسی اور بودھ کسی کو اس ملک میں ان مسائل سے کوئی واسطہ نہیں جن مسائل سے مذکورہ اقلیتوں کو جھو جھنا پڑ رہاہے ۔ کہنے کو تو جین،پارسی اور بودھ اقلیتیں ہیں لیکن عملاً یہ ہندو سماج کا جزو لاینفک ہیں۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے وفد نے یوگی سے ملاقات کی ہے اور مودی کے بعد ہندتوا کا بڑا چہرہ اگر کوئی ہے تو وہ یوگی آدتیہ ناتھ کا چہرہ ہے، لیکن ان سے کسی اچھے کی توقع زیادہ نہیں رکھنی چا ہئے بلکہ ملک کی سول سوسائٹی اور کمزور اور محروم طبقات کے ساتھ مل کراپنے مسائل کے حل کیلئے پُر امن اور آئین کے دائرہ میں رہ کر جدو جہد شروع کرنی چا ہئے اور جتنا جلد ہو میدانِ عمل میں آنا چا ہئے ۔ اس لئے کہ حشر بپا ہو چکا ہے اور زمانہ قیامت کی چال چل چکا ہے اب ہمیں کس کا انتظار ہے ؟ اگر ہم نے اب بھی نوشتۂ دیوار نہیں پڑھا اور اپنے مسائل کے حل کیلئے جدو جہد نہیں کی تو آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔
[email protected]