ڈاکٹر سیّد احمد قادری
بہار کے گزشتہ اسمبلی انتخاب سے قبل حکومت بہارنے اپنے ایک حکم نامہ 799 مورخہ 15 مئی 2020 اور اس کے بعد ایک دوسرے نوٹیفیکیشن نمبر155 مورخہ 28اگست2020 کے ذریعہ بہار کی دوسری سرکاری زبان اردو کو میٹرک اور پلس ٹو کے نصاب سے بڑے ہی منظم اور منصوبہ بند طریقے سے لازمی زبان کے زمرے سے نکال کر اختیاری مضمون قرار دے دیا تھا، ساتھ ہی ساتھ اساتذہ کی تقرری کے لئے منظور ضابطہ مانک منڈل سے بھی لازمی اردو اساتذہ کے عہدہ کو ختم کر دیا تھا۔ جس کے باعث بہار کے نصاب میں اردو زبان لازمی سے اختیاری مضمون کے زمرے میں شامل ہوکر فارسی اور بنگلہ زبان کی صف میں کھڑا کردیا گیا۔ جس کی وجہ سے بہار میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کے درجہ حاصل ہونے کے باوجود اسے بنیادی سطح سے ختم کرنے کرنے کی سازش رچی گئی ہے۔بہار میں اردو زبان کی زبوں حالی کے سلسلے میں مسلسل وزیراعلیٰ بہار کی توجہ دلائی جا رہی ہے۔اسمبلی میں بھی مختلف اوقات میں مختلف اراکین اسمبلی نے سولات اٹھائے۔ ابھی ابھی 24 جولائی کو مجلس اتحاد المسلین کے ممبر اسمبلی اخترالایمان نے مانسون اجلاس کے دوران ہی اسمبلی کے احاطہ میں بہار میں اردو زبان کے ساتھ ہو رہی ناانصافی اور بڑھتے مسائل کا بڑا سا بینر ہی لے کر احتجاج اور مظاہرہ کرتے ہوئے حکومت بہار کی توجہ مبذول کرانے کوشش کی تھی۔ لیکن افسوس کہ ایسی ہر کوشش صدا بہ صحرا ثابت ہو رہی ہے۔حکومت یا اس کا کوئی معتبر نمائندہ اس مسئلہ پربات کرنے کو بھی تیار نہیں ہے۔ جس سے حکومت کی منشا کیا ہے ،اس کا صاف پتہ چلتا ہے۔بہار حکومت نے ادھر کچھ اردو اسسٹنٹ پروفیسروں کی بحالی ضرور کی ہے ،جو ایسا ہی ہے کہ اردو کے تناور درختوں کی خوب شاخوں پر آبپاشی کی جائے اور جڑوں میں تیزاب ڈالا جائے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ ریاست بہار میں اردو زبان کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ بہت مشکلوں سے لمبی لڑائی ، تحریک ،تگ و دو اور ایثار و قربانی کے بعد ملاتھا، تاکہ آنے والی نسلیں اپنی مادری زبان کی محافظت کریں اپنی مادری زبان سے وابستہ شاندار روایات، تہذیب، تمدن، قدروں کی اہمیت و افادیت کو برقرار رکھتے ہوئے اس زبان میں موجود اپنے قیمتی اثاثہ اور اسلاف کی اہمیت اور افادیت سے استفادہ کریں، لیکن افسوس کہ گزشتہ چند برسوں سے حکومت بہار کے متعصب نوکر شاہوں کی متعصبانہ کوششوں سے یہاںاردو زبان اور اقلیتی ادارے زبوں حالی کے شکار ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے وزیر اعلیٰ بہار اور حکومت کی ہمہ وقت تعریف و توصیف کا ورد کرنے والی شخصیات جو اردو زبان اور اقلیتی اداراوں کی زبوں حالی کے خلاف آواز اٹھا سکتے ہیں لیکن ان لوگوں کی زبان پر سیاسی مفادات اور مصلحت پسندی نے قفل ڈال رکھے ہیں۔
اردو زبان کے تئیں ایسے متعصبانہ اقدام کے بعد اردو زبان کا حال بھی وہی ہوگا جو آج فارسی و عربی زبان کا ہو رہا ہے۔ اس لئے بہتر ہے کہ اس مذکورہ اردو مخالف سرکولر کو حکومت فوری طور پر واپس لے کر سابقہ صورت حال کو بحال کرتے ہوئے بہار میں میٹرک اور پلس ٹو تک اردو زبان کی تعلیم کو اختیاری کے بجائے لازمی حیثیت بحال رکھنے کا حکم نامہ جاری کرکے، بہار کی اردو آبادی کے جائز مطالبہ کو پورا کرے۔ تاکہ اردو زبان کو آئینی اور دستوری حق اور انصاف مل سکے۔اسکولوں میں بہت سارے سرکاری اسکول ایسے ہیں،جہاں اردو یونٹ پر دوسری زبان کے اساتذہ بحال ہیں۔ ٹی ای ٹی کے تحت اردو اساتذہ کی بحالی کا معاملہ بھی سپریم کورٹ کے فیصلہ کے باوجود التوا میں پڑا ہے۔ اس جانب بھی حکومت بلا تاخیر توجہ دے کر ہزاروں کی تعداد میں کامیاب ہونے والے اور بحالی کے منتظراساتذہ کاخواب شرمندۂ تعبیر ہو۔
گزشتہ کئی برسوں سے ریاست بہار کے کئی اہم اقلیتی اور اردو زبان کے اداروں کی تشکیل نونہ ہونے کے باعث ان اداروں کی ساری کارکردگی معطل ہو کر رہ گئی ہے۔ تشکیل نو کے انتظار میں بہاراسٹیٹ مدر سہ بورڈ بھی ان دنوں تعطل کا شکار ہے۔ پچھلی بار مدرسہ بورڈ کا چیئرمین ایک ایسے متنازعہ اور انتظامی امور سے نابلد شخص کو بنا کر اس کی ناقص کارکردگی سے مدرسہ بورڈ کو نقصان پہنچایا جا چکا ہے۔ بڑے نقصان کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ریاست بہار کے محکمہ تعلیم نے بہار مدرسہ بورڈکے تین ضابطوں میں تبدیلی کرتے ہوئے اس ادارہ کی خود مختاری کو ختم کر نے کی منظم کوشش کی ہے۔اس کوشش کے خلاف بہار کی اردو آبادی میں بہت زیادہ تشویش دیکھی گئی ہے اور کئی طرح کے خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ نوکر شاہوں کی اس سازش کو سمجھتے ہوئے ریاست بہارکے کئی علاقوں میں احتجاج و مظاہروں کا سلسلہ بھی رہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ مدرسہ بورڈ کے نئے ضابطے آئین کے منافی ہیں اور مدارس کے اقلیتی کردار پر حملہ کے مترادف ہے۔ بہار میں اردو زبان و ادب کے حوالے سے ایک خاص پہچان رکھنے والا ایک ہم ادارہ بہار اردو اکادمی بھی گزشتہ 6 برسوں سے معطل پڑاہے۔ جس کے باعث بہار کی سطح سے فروغ پانے والی اردو زبان اور ادب کا بڑا نقصان ہو رہا ہے۔ بہار کے ادیبوں، شاعروں و دانشوروں کے درمیان بہار اردو اکادمی کے اس تعطل کے باعث خاصی ناراضگی پائی جا رہی ہے۔ریاستی حکومت تک اردو زبان کے مسائل کے سلسلے میں مشورہ دینے کے لئے ایک بہت اہم ادارہ بہار اردو مشاورتی کمیٹی ہوا کرتی تھی۔جس نے پچھلے دور میںاپنی بے مثال کارکردگی سے پورے ملک کی توجہ اپنی طرف مرکوز کرائی تھی۔ اس ادارہ سے شمائل النبی، کلیم عاجز ، شفیع مشہدی اور عبد الصمد وغیرہ جیسی نامور شخصیات منسلک رہی ہیں، لیکن افسوس کہ بہار کا یہ اہم ادارہ بھی گزشتہ چھہ برسوں سے اپنی نئی اور متحرک زندگی کے لئے ترس رہا ہے۔ بہار کے قلب میں اشوک راج پتھ پر قائم قدیم گورنمنٹ اردو لائبریری بھی اس بات کی منتظر ہے کہ گزشتہ 12سال سے لائبریرین کا عہدہ خالی پڑا ہے۔یہاں نئے لائبریرین اور دیگر ملازمین کی باضابطہ بحالی ہو۔ادارہ تحقیقات عربی و فارسی اور ایک بے حد قدیم اور ملک و بیرون ممالک میں اپنی شناخت رکھنے والا مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ بھی گزشتہ کئی برسوں سے اساتذہ اور پرنسپل کی خالی جگہوں کو کانٹریکٹ کے بجائے باضابطہ بحالی سے پْر نہیں کئے جانے کے باعث بے رونق اور ویران پڑا ہے۔ افسوس کہ ہمارے اسلاف کی انتھک کوششوں سے تعمیر شدہ ان اہم اور تاریخی اداروں کا اس وقت کوئی پرسان حال نہیں۔ افسوس اس بات کا بھی ہے کہ اس وقت بہار میں ایسا کوئی اردو زبان اور اقلیتی طبقہ کا کوئی قائد نہیں ہے۔ جو اردو اور اقلیتی اداروں کے ان مسائل پر حکومت سے آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کرے اور اردو زبان اور اقلیتی داروں کے مسائل کو حل کرانے اور ان کے تدارک کی کوشش کرے۔ بہار کے قانون سازایوان میں اردو آبادی اور اقلیتی طبقہ سے تعلق رکھنے والے ممبران کی بھی کئی بار توجہ دلانے کی کوششیں بعض اداروں نے کی ،لیکن اس کا بھی کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلا کہ ایوان میں بیٹھنے والے ممبران کی ان مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ وقت رہتے اگر ان مسائل پر توجہ نہیں دی گئی تو اردو اور اقلیتی اداروں کا وجود ختم ہو جائے گا۔ جس کے لئے تاریخ اور آنے والی نسل ہمیں معاف نہیں کرے گی۔
( کالم نگار سینئر صحافی اور معروف ادیب ہیں )
[email protected]