لکھنو (محمد غفران نسیم):طلبا کے احتجاجی مظاہرہ کے دروران علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پولیس کو طلب کیا جانا یونیورسٹی کی تاریخ میں ایک بدنما داغ ہے۔ وائس چانسلر سے لے کر پراکٹر، ڈین اور دیگر عہدیداران اسی لےے ہوتے ہیں کہ وہ طلبا کی سرپرستی کریں۔ ان کے جذبات ، مطالبات پر توجہ دیں۔ کسی بھی تعلیمی ادارے میں پولیس کا داخلہ اور کارروائی قابل مذمت اور ادارہ کے انتظامیہ کی کمزوری و نااہلی کا عکاس ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اولڈبوائزایسوسی ایشن لکھنو¿ نے 16دسمبر کی میٹنگ ہی میں اس پورے واقعہ کی مذمت کی ہے اور فوری طورپر رجسٹرار کو ہٹائے جانے کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ کہنا ہے ایسوسی ایشن کے صدر محمد طارق صدیقی علیگ کا۔ طارق صدیقی نے کہاکہ اگر رجسٹرار، اور وائس چانسلر سے یونیورسٹی نہیں سنبھالی جارہی ہے توانہیں اس منصب سے علاحدہ ہوجانا چاہئے ۔طارق صدیقی نے کہاکہ وائس چانسلر کو تدریس کا شوق ہے تو وہ میڈیکل کالج میں پروفیسر ہےں وہاں تدریسی خدمات انجام دی۔ اگر وہ وائس چانسلر بنے ہیں تو انہیں پوری یونیورسٹی کو سنبھالنا چاہئے۔ مسٹر صدیقی نے ایک سوال کے جواب میںکہاکہ وائس چانسلر انتظامی امور میں کمزور ثابت ہوئے ہیں۔ انہوں نے اپنے اختیارات رجسٹرار کو منتقل کردئے۔ اس کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے رجسٹرار نے مداخلت شروع کردی۔ انہوں نے کہاکہ اگر یونیورسٹی میں طلبا کو کوئی پریشانی ہے تو اس کو حل کرانے کے لیے پراکٹر ہوتا ہے۔ پراکٹر کی ذمہ داری ہے کہ وہ طلبا کے مسائل کو سمجھے ، ان کے جذبات کی قدر کرتے ہوئے یونیورسٹی کے ماحول کو خوشگوار بنائے رکھے۔ لیکن یہاں پراکٹر کے بائی پاس کرتے ہوئے رجسٹرار کے ذریعہ براہ راست پولیس کو طلب کرلیا گیااور پولیس نے جو سلوک کیا وہ انتہائی قابل مذمت ہے۔ رجسٹرار کو فوراً یونیورسٹی سے واپس کردینا چاہئے۔طلبا کے ساتھ ساتھ اساتذہ و غیر تدریسی عملہ کی جانب سے اس کی مذمت کرتے ہوئے وائس چانسلر، رجسٹرار کو سابق لکھے جانے کے سوال پر طارق صدیقی نے کہاکہ وہ ذاتی طورپر طلبا و اساتذہ کے اس موقف کی تائید کرتے ہیں۔ طارق صدیقی نے کہاکہ کسی بھی یونیورسٹی یا تعلیمی ادارہ میں پولیس کے داخلہ سے طلبہ کا مشتعل ہونا لازمی ہے۔ طلبا کوئی جرائم پیشہ نہیں ہوتے ہیں کہ ان سے پولیس ایسے بدسلوکی کرے۔
طارق صدیقی نے کہاکہ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی صرف تعلیمی ادارہ نہیں بلکہ ایک تاریخ اور تہذیب کا نام ہے۔ آزادی سے قبل اور اس کے بعد ہر موقع پر علی گڑھ کی خدمات نمایاں رہی ہیں۔وہا ں کے اساتذہ و طلبہ دوسروں کے لیے مثال و تحریک بنے ہیں۔ ان پر پولیس مظالم کسی بھی صورت میں قابل معافی نہیں ہوسکتے ہیں۔ طارق صدیقی نے کہاکہ جس طرح دباو¿ میں راتوں رات یونیورسٹی کو خالی کرایاگیا وہ باعث تشویش و باعث مذمت ہے۔ کیرالہ، آسام، کشمیر سمیت دور دراز کی طالبات کو بے سروسامانی کی حالت میں نکال دیاگیا۔ بغیر کوئی معقول بندوبست کئے انہیں علی گڑھ سے دہلی منتقل کردیاگیا۔ ان کے پاس گھر جانے کے لیے ٹکٹ کے پیسہ ہیں کہ نہیں۔ ان کے گھر(ریاستوں)میں جانے لائق حالات ہیں کہ نہیں ، کسی بھی بات پر غور نہیں کیاگیا۔ مسٹر صدیقی نے کہاکہ سرپرست اپنے بچوں ، بچیوں کو وائس چانسلر پر اعتماد کرکے یونیورسٹی بھیجتے ہیں۔ لیکن حالیہ واقعہ میں نہ طلبا کو اعتماد میں لیاگیا، نہ والدین اور سرپرستوں کو۔ یونیورسٹی انتظامیہ کو طلبا و خاص طورپر طالبات کو ان کے سرپرستوں کے حوالے کرنا چاہئے تھا۔ مسٹر طارق نے کہاکہ یونیورسٹی پر جنا کی تصویر والے معاملہ ہی سے نگاہ بد لگی ہوئی ہے۔ پولیس کارروائی میں طلبا پر اقدام قتل کے تحت دفعہ 307 تک کے مقدمات درج ہوئے۔ ان میں منٹوسرکل کے چھوٹے بچے بھی شامل تھے، جنہیں ملزم بنایاگیا۔
یونیورسٹی نہیں سنبھل رہی تو طارق منصور استعفیٰ دے دیں:طارق صدیقی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS