ڈاکٹر خالد اختر علیگ
چاندی پورہ وائرس نے ایک بار پھر سر اٹھایا ہے، جس سے ہندوستان کی کئی ریاستیں متاثر ہورہی ہیں،مگر گجرات میں اس وائرس کے معاملات اور ان سے ہونے والی اموات میں اضافے نے ہر کسی کی پریشانی بڑھا دی ہے۔پونے میں واقع نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف وائرولوجی (NIV) نے چاندی پورہ وائرس کی وجہ سے گجرات میں ایک 4سالہ بچی کی المناک موت کی تصدیق کی تھی۔ریاستی محکمہ صحت کے حکام کے مطابق، گجرات میں گزشتہ ماہ کے دوران ایکیوٹ انسیفلائٹس سنڈروم (AES) یعنی دماغی جھلیوں کی سوجن کی وجہ سے کم از کم 48 افراد کی موت ہو چکی ہے، شبہ ہے کہ دماغی سوجن کے یہ معاملات چاندی پورہ وائرس (CHPV) کے پھیلنے کی وجہ سے ہوئے ہیں۔ گجرات میں جمعہ تک AES کے کل 127 کیس رپورٹ ہوئے۔ ان میں سے 39 کے چاندی پورہ وائرس کے مثبت ہونے کی تصدیق ہوئی ہے۔اسی معاملے میںایک ایک اموات مدھیہ پردیش اور راجستھان میں درج کی گئی ہیں۔ چاندی پورہ وائرس سے متعلق پہلا کیس 1966 میں مہاراشٹر میں سامنے آیا تھا۔ اس وائرس کی شناخت مہاراشٹر کے ناگپور شہر کے چاندی پورہ علاقے میں ہوئی تھی۔ اس وجہ سے اس وائرس کا نام چاندی پورہ وائرس رکھا گیا۔ سال 2004 سے 2006 اور 2019 میں اس وائرس کے زیادہ کیسز آندھرا پردیش، مہاراشٹر اور گجرات میں رپورٹ ہوئے تھے۔ چاندی پورہ وائرس ایک آر این اے وائرس ہے، 2004 میں دی لانسیٹ میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق، یہ وائرس Rhabdoviridae ںخاندان کے Vesiculovirus جینس کا رکن ہے۔ اتفاق سے اس خاندان میں ریبیز وائرس بھی شامل ہے۔یہ وائرس عام طور پرمچھر ،ریت مکھی مادہ فلیبوٹومین جیسے ویکٹر (vector) کے ذریعے پھیلتا ہے،جو دیہی اور خشک علاقوں میں پائی جاتی ہے،یہ عموماً مانسون کے ابتدائی دور میں زیادہ پائے جاتے ہیں۔ ویکٹر ایسے کیڑے یا جاندار کو کہتے ہیں، جو ایک شخص یا جانور سے دوسرے میں جراثیم کو منتقل کرکے بیماری کا سبب بنتے ہیں۔بچے چاندی پورہ وائرس کا شکار زیادہ ہوتے ہیں،چونکہ ان کا مدافعتی نظام کمزور ہوتا ہے۔ اس لیے وہ اس تعدیہ سے لڑنہیں پاتے اور ان کے دماغ شدیدطور پر متاثر ہونے کا اندیشہ بڑھ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ، سماجی و ماحولیاتی عوامل اور باہرکھلی جگہ پر کھیلنے والے بچوں کو متاثرہ ویکٹرز کے رابطے میں آنے کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔بنیادی طور پر یہ دیہی علاقوں میں 15 سال سے کم عمر کے بچوں کو متاثر کرتا ہے۔ 2003 میں آندھرا پردیش میں جب اس وائرس کا پھیلاؤ ہوا تو متاثرہ بچوں کی عمریں 9 ماہ سے 14 سال کے درمیان تھیں۔ زیادہ تر اموات اسپتال میں داخل ہونے کے 48 گھنٹوں کے اندر ہوگئی تھی۔ گجرات میں موجودہ وبا میں اب تک تمام مشتبہ اموات بچوں کی ہیں۔اب اس وائرس نے صحت عامہ کے لیے زبردست خطرہ پیدا کردیا ہے۔
چاندی پورہ وائرس سے متاثرہ شخص کو پہلے تیز بخار کی شکایت ہوتی ہے،سردی لگتی ہے،زکام ہوجاتا ہے۔ الٹیاں آتی ہیں، ذہنی توازن بگڑنے لگتا ہے،پیٹ میں درد کے ساتھ اسہال کی شکایت ہو سکتی ہے۔اعصابی کمزوریاں پیدا ہونے لگتی ہیں جیسے بولنے میں دقت،اپنا توازن برقرار نہ رکھ پانا،بینائی میں پریشانی وغیرہ،اس کے علاوہ سر درد، گردن میں اکڑن اور روشنی میں آنے سے آنکھوں میں پریشانی (فوٹو فوبیا)، دورے اور کوماجیسی علاما ت بھی سامنے آتی ہیں۔اگر فوری تشخیص ہو جائے تو مریض ٹھیک ہوجاتا ہے ،ورنہ یہ تعدیہ انسیفلائٹس کا سبب بنتا ہے جو اکثر مہلک ہوتا ہے۔چاندی پورہ وائرس کے لیے کوئی مخصوص اینٹی وائرل علاج یا ویکسین ابھی تک موجود نہیں ہے۔ اس لیے فوری ابتدائی تشخیص اور دیکھ بھال بہت ضروری ہے۔ ’چاندی پورہ انسیفلائٹس ‘کے وبائی امراض کے علاج کے سلسلے میں گجرات حکومت کی 2014 کی ایک دستاویز کے مطابق سیال اور الیکٹرولائٹ کے ذریعے توازن برقرار رکھنا، تیز بخار کو کنٹرول کرنا، بڑھے ہوئے دماغی پریشر کو کم کرنا، دوروں کو کنٹرول کرنا، اور ثانوی جراثیمی تعدیوں کو روکنے کے لیے ادویات اور ضرورت پڑنے پر آکسیجن تھراپی کا استعمال شامل ہے،جوصحت یابی کو تیز اور قلیل مدتی و طویل مدتی پیچیدگیوں کو روک سکتی ہیں۔ اس وائرس سے محفوظ رہنے کے لیے تجویز کردہ اقدامات میں مچھر دانی کا استعمال، لمبی بازوؤں کی قمیص اور پتلونیں پہننا اور کیڑے مار دوا لگانا شامل ہیں۔ تاہم، دیہی علاقوں میں محدود وسائل اور رسائی اہم چیلنجزہیں۔اس لیے جانوروں اور ان کے فضلات کامناسب طریقے سے دفاع کرنا، کھلی جگہ میں رفع حاجت سے روکنا،کیڑے مار ادویات کا چھڑکاؤ اور ریت مکھیوں کی افزائش کی جگہ کی نشاندہی اور ان کا خاتمہ، غذاو پانی کو ڈھانپنا اور مقامی طورپرحفظان صحت اور ماحولیاتی صفائی کو برقرار رکھنا ضروری ہے۔مانسون کا موسم ایک ہی وقت میں ڈینگی جیسے متعدد وائرسوں سے متاثر ہونے کا خطرہ بڑھادیتا ہے۔ جو بیماریوں کی تشخیص اور علاج کو مشکل بنا سکتا ہے، جس سے زیادہ شدید بیماری اور اموات کی شرح بڑھ جاتی ہے۔ مختلف وائرسوں کے درمیان ایک جیسی علامات ہونے کی وجہ سے درست تشخیص میں تاخیرہوتی ہے جو کہ صورتحال کو مزید خراب کرتی ہے۔ چاندی پورہ وائرس کے دوبارہ پیدا ہونے کے کئی عوامل بتائے جاتے ہیں، جن میںایک اہم عنصر ویکٹرز (مچھر، مکھی) کی بڑھتی ہوئی آبادی ہے جو وائرس کو زیادہ وسیع اور تیزی سے پھیلا سکتے ہیں۔ ویکٹر کی آبادی میں اضافہ اکثر ماحولیاتی اور موسمی تبدیلیوں سے ہوتا ہے جو ان کے لیے موزوں رہائش گاہوں میں اضافہ کرنے کاسبب بنتی ہے۔ مزید برآں، پہلے غیر آباد یا دیہی علاقوں میں انسانی تجاوزات نے بھی ماحولیاتی نظام میں خلل ڈالا ہے اور انسانوں کو وائرس کے ویکٹرز اور جنگلی حیات کے ذخائر کے ساتھ قریبی رابطے میں لاتے ہیں، جس سے ان میں ایسے وائرسوں کی منتقلی کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ بگڑتی ہوئی ہوا کا معیار اور آلودگی انسانی مدافعتی نظام کو کمزور کررہی ہے، جس سے تعدیے کا خطرہ کافی بڑھ چکا ہے۔ اس کے علاوہ ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے ویکٹر کے رویے اور ان کی حیاتی تقسیم کے نظام میںبھی تبدیلی آئی ہے،جو ایسے امراض کو کنٹرول کرنے کی کوششوں کو مزید پیچیدہ بنا سکتی ہیں۔ناقص صفائی ستھرائی اور حفظان صحت کے غیر مستند طریقے بھی وائرس کے دوبارہ پیدا ہونے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ کوڑے کچرے کوٹھکانے لگانے کا ناکافی انتظام اور پانی کی صفائی نہ ہونا بھی ویکٹروں کے لیے مثالی افزائش کا سبب بنتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ طبقات جو صاف پانی اور صفائی کی سہولیات سے محروم ہیں وہ ایسے تعدیوں کے جلد شکار ہو جاتے ہیں۔ویکٹر کے لیے ماحولیاتی موافقت کو دیکھتے ہوئے، بڑے پیمانے پر اس بیماری کے پھیلنے کا امکان ابھی موجود ہے۔اس لیے علامات کے لیے تیزی سے اسکریننگ، متاثرہ افراد کو الگ تھلگ کرنا، طبی نگرانی، اور رابطے کا سراغ لگانا وائرس کے پھیلاؤ اور اثرات کو کم کرنے کے لیے صحت عامہ کے اہم اقدامات کرنا انتہائی ضروری ہیں۔ اگرچہ چیلنجز برقرار ہیں مگرویکسین اور علاج کے بارے میں جاری تحقیق امید فراہم کرتی ہے۔چاندی پورہ وائرس کی قسم آر این اے کی ساخت انتہائی متغیر ہے جو کہ تبدیل ہوتی رہتی ہے اور ویکسین کی نشوونما کو پیچیدہ بنارہی ہے،لیکن ان رکاوٹوں کے باوجود، ویکسین کی آزمائشیں اور اینٹی وائرل ادویات پر تحقیق جاری ہے۔
(مضمون نگار معالج اور آزاد کالم نویس ہیں)
[email protected]