پنکج چترویدی
ملک کی راجدھانی دہلی میں سنسد بھون سے بمشکل 4 کلومیٹر دور سیور کے پانی میں ڈوب کر 3 ہونہار بچے مر جاتے ہیں۔ رانچی میں بارش کے موسم میں شہر دریا بن گیا۔ بھوپال میں سڑکیں گڈھوں میں تبدیل ہوگئیں۔ یاد کریں 2014 میں این ڈی اے سرکار بننے کے بعد ملک نے جس بلند خواہشاتی پروجیکٹ سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کی تھیں، ان میں ملک کے 100 شہروں کو اسمارٹ سٹی بنانے کا وعدہ تھا۔ 100 شہروں کو اسمارٹ سٹی بنانے کی جون 2024 کی ڈیڈ لائن گزر چکی ہے اور ساون میں اسمارٹ سٹیز پہلے سے زیادہ ڈوب رہی ہیں۔ یہ شہر ابھی ایک ماہ پہلے تک پانی کے لیے بھی ویسے ہی ترس رہے تھے جیسے کچھ سو کروڑ خرچ کرنے سے پہلے۔ اگر سرکاری ریکارڈ کی مانیں تو جولائی 2024 تک، 100شہروں نے اسمارٹ سٹی مشن کے حصے کی شکل میں 1,44,237 کروڑ کی رقم کے 7,188 پروجیکٹوں (کل پروجیکٹ کا 90 فیصد) کو پورا کر لیا ہے۔ 19,926 کروڑ کی رقم کے باقی 830 پروجیکٹ بھی پورے ہونے کے آخری مرحلے میںہیں۔
اقتصادی ترقی کے معاملے میں مشن کے پاس 100 شہروں کے لیے 48,000 کروڑ کاحکومت ہند کا مختص بجٹ ہے۔ آج تک حکومت ہند نے 100 شہروں کو 46,585 کروڑ (حکومت ہند کے مختص بجٹ کا 97 فیصد) جاری کیا ہے۔ شہرو ںکو جاری کیے گئے ان فنڈ میں سے اب تک 93 فیصد کا استعمال کیا جا چکا ہے۔ مشن نے 100 میں سے 74 شہروں کو مشن کے تحت حکومت ہندکی پوری مالی امداد بھی جاری کر دی ہے۔ حکومت ہند نے بقیہ 10 فیصد پروجیکٹوں کو پورا کرنے کے لیے مشن کی مدت 31 مارچ 2025 تک بڑھا دی ہے۔ شہروں کو مطلع کیا گیا ہے کہ یہ توسیعی مشن کے تحت پہلے سے منظور شدہ مالیاتی بجٹ سے پرے کسی بھی اضافی لاگت کے بغیر ہوگا۔
جاننا ضروری ہے کہ اسمارٹ سٹی کا تصور کیا تھا؟ اس میںشہر کے ایک چھوٹے سے حصے کووافر مقدار میںپانی کی فراہمی، یقینی بجلی کی فراہمی، صفائی ستھرائی بشمول سالڈ ویسٹ مینجمنٹ، مؤثر شہری نقل و حمل اور پبلک ٹرانسپورٹ، سستی رہائش، خاص طور پر غریبوں کے لیے، مضبوط آئی ٹی کنکٹی وِٹی اور ڈیجیٹلائزیشن، گڈ گورننس خاص طور سے ای گورننس اور شہریوں کی شرکت، پائیدار ماحولیات، شہریوں کی حفاظت اور تحفظ، خاص طور پر خواتین، بچوں، بزرگوں کی سیکورٹی اور صحت اور تعلیم کے لیے تیار کیا جائے گا۔ اصل میں یوروپ کی طرز پر ہمارے شہروں کوترقی دیا جانا تھا جبکہ ہندوستان میں شہر کاری کا تصور اور وجہ یوروپ سے بہت مختلف ہے۔ ہمارے یہاں روزگار، بہتر صحت اور تعلیم جیسی وجوہات کی وجہ سے شہر کاری بڑھ رہی ہے اور شہر میں رہنے والی بڑی آبادی کے لیے شہر ان کا گھر نہیں بلکہ کمانے کی جگہ ہے۔ایک تو یہ بات لوگوں کو دیر سے سمجھ میں آئی کہ جن 100 شہروں کو اسمارٹ سٹی بنانے کے لیے اتنا بڑا بجٹ رکھا گیا ہے، اصل میں یہ اس شہر کے ایک چھوٹے سے حصے کی تعمیرات کا منصوبہ ہے۔ کچھ شہروں میں توبڑے شہر کا محض ایک فیصد حصہ ہی ہے۔ دوسرے لوگ ابھی تک سمجھ نہیں پائے کہ جو حصہ کاغذات پر اسمارٹ ہو گیا ہے، اس میں پانی بھرنے اور پانی کی فراہمی جیسی بنیادی سہولتیں پہلے سے بدتر کیوں ہو گئی ہیں۔ اجمیر ہو یا ایودھیا، تریویندرم ہو یا پٹنہ، بھوپال ہو یا جے پور، ہر جگہ پہلے 5 سال تک شہر کے لوگ بے دریغ کھدائی سے پریشان رہے، پھر جب کاغذات پر اسمارٹ سٹی کا کام پورا ہونا درج ہوگیا تو دقتیں اوربڑھ گئیں۔
بعض جگہوںپر تو آخری لمحات میں منصوبوںمیں کٹوتی کر دی گئی۔ پدوچیری میں اسمارٹ سٹی اقدام کے تحت آمد و رفت، سیویج، بازارکی سہولتوں اور پارکنگ سے متعلق مسئلوںکو دور کرنے کے لیے 66 ترقیاتی پروجیکٹوں میں سے 32 کو حال ہی میں ملتوی کردیا گیا تھا۔ پروجیکٹوں کا ابتدائی تخمینہ 1,056 کروڑ روپے تھا، جو 34 پروجیکٹوں کے نفاذ کے لیے تقریباً 620 کروڑ روپے تک کم ہو گیا ہے۔ مرکزی حکومت کا کہنا ہے کہ اس کے ذریعے فراہم کردہ بجٹ کا استعمال بہت کم ہوا، اس لیے اس نے منصوبے کو ملتوی کر دیا۔ ملتوی کیے گئے پروجیکٹوں میں 21 کروڑ روپے کی لاگت سے لاس پیٹ اور دوبرائن پیٹ میں 5.5 ایم ایل ڈی کی صلاحیت والے دو سیویج ٹریٹمنٹ پلانٹس (ایس ٹی پی) قائم کرنے کی تجویز بھی شامل ہے۔ یہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب سیویج کے انتظام کے مسائل سنگین ہو چکے ہیں، شہری علاقوں میں مین ہول سے سیویج کا اوور فلو ہو رہا ہے اور زہریلی گیس کا رسائو ہو رہا ہے۔ ایسے ہی ایک واقعے میں حال ہی میں تین لوگوں کی جان چلی گئی۔پارلیمنٹ کی رہائش اور شہری معاملوں پر اسٹینڈنگ کمیٹی (سربراہ راجیو رنجن) نے ’اسمارٹ شہر مشن: ایک تجزیہ‘ پر اپنی رپورٹ 8 فروری، 2024کو پیش کی تھی جس میں پروجیکٹ کے متوقع نتائج نہ آنے کی کئی وجوہات بتائی گئی تھیں، جن میں اسمارٹ سٹی مشن کو نافذ کرنے والے ایس وی پی میں مقامی شہری بلدیاتی اداروں اور ریاستوں کے شامل ہونے اور ان کے جلدی جلدی تبادلہ کی بات کہی گئی۔ ویسے بھی ایس پی وی ماڈل آئین کی 74 ویں ترمیم کے مطابق نہیں ہے۔ ایک پہاڑی شہر کا سالانہ بجٹ 100 کروڑ روپے بھی نہیں ہے اور اس کے سر پر 2500 کروڑ روپے کے پروجیکٹ کا بوجھ ڈال دیا گیا۔ اسمارٹ سٹی کے لیے بنائی گئی کمیٹی کی میٹنگیں نہ ہونا یا پھر بہت کم ہونا، میٹنگ میں ممبر پارلیمنٹ کے کام وغیرہ شامل ہونے کی بات اس رپورٹ میں کہی گئی ہے جس سے پروجیکٹ میں عوامی نمائندوں کے مشورے کم ہی شامل ہوئے۔ پارلیمانی کمیٹی نے یہ بات کہی کہ امراوتی اور امپھال میں فورم کی میٹنگیں بالکل نہیں ہوئیں اور پانچ سالوں میں زیادہ سے زیادہ آٹھ میٹنگیں دوسرے شہروں میں ہوئیں۔ یہ بھی دیکھا گیا کہ ارکان پارلیمنٹ ریاستی سطح کے مشاورتی فورموں میں شامل نہیں ہیں۔ اس کمیٹی نے یہ بھی تسلیم کیا کہ پورے شہر کے بجائے صرف شہر کے ایک چھوٹے سے حصے میں ہی اسمارٹ سٹی پروجیکٹ کے نافذ ہونے سے اس کے وسیع نتائج نہیں نظر آئے۔کچرے کا انتظام، پینے کے پانی کی فراہمی اور ٹریفک کا انتظام ایسے چیلنجز ہیں جن سے پورے شہر میں یکساں طور پر نہ نمٹا جائے تو ان کا اثر دکھنے سے رہا۔
پارلیمانی کمیٹی نے پایا کہ اسمارٹ سٹی کے لیے بڑی تعداد میں نجی اور سرکاری ڈاٹا یکجا اوراستعمال کیا گیا لیکن ان کی سیکورٹی پر کوئی کام نہیں ہوا۔ کمیٹی نے سائبر خطروں سے بچانے اور ڈیٹا پرائیویسی کو برقرار رکھنے کے لیے ایک نظام بنانے اور ڈیٹا کی پرائیویسی بنائے رکھنے کی سفارش کی۔ کمیٹی نے دیکھاکہ اسمارٹ سٹی پروجیکٹ کی ترقی کئی چھوٹے شہروں میں دھیمی ہے جن میں شمال مشرقی ریاستوں کے شہربھی شامل ہیں۔ کئی اسمارٹ شہروں کے پاس کروڑ پروجیکٹوں کا منصوبہ بنانے اور خرچ کرنے کی صلاحیت نہیں تھی۔ 90 فیصد فنڈ مہیا کرنے کے باوجود مشن ترقی کے معاملے 15 سے 8 سب سے نچلی رینکنگ والے شہر شمال مشرق سے ہیں۔ دسمبر 2023 تک، 20 سب سے نچلی رینکنگ والے شہروں میں 47 فیصد پروجیکٹ کا کام ورک آرڈر کے مرحلے میں ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ مقامی شہری بلدیات کا تکنیکی اور دیگر سطحوں پر کمزور ہونا اور اتنے بڑے پروجیکٹوںکی نگرانی میں نااہل ہوناہے۔ یہ عام بات ہے کہ اس اسکیم میں مرکزی حکومت نے شہروں کو شامل کرتے وقت مقامی ماحولیات کی بہ نسبت مقبولیت یا واہ واہی لو ٹنے پر زیادہ توجہ دی اور آج اس کا نتیجہ سرکاری فنڈس کا صحیح استعمال نہ ہونے کی صورت میں نظر آرہا ہے۔
اس پارلیمانی کمیٹی نے پایا کہ یہ اسکیم پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تصور میں بری طرح ناکام رہی اور اس سمت میں صرف 6 فیصد پرائیویٹ شراکت داری حاصل کی جا سکی۔ ارکان پارلیمنٹ کی کمیٹی نے سفارش کی ہے کہ وزارت کا کردار صرف حصص کی منتقلی تک محدود نہیں ہونا چاہیے اور اسے مستعد رہناچاہیے کہ منصوبوں کا نفاذ پوری طرح ہو۔ اس کے لیے اسے اِن پٹ اور مہارت کے ساتھ مداخلت کرنی چاہیے۔ ہمارے شہروں میں تقریباً 49 فیصد آبادی جھگی جھونپڑیوں اور کچی کالونیوں میں رہتی ہے اور اسمارٹ سٹی کا سب سے بڑا اثر ان پر نقل مکانی کی صورت میں پڑا۔ بعض مقامات میں انہیں نئی جگہ پر بسایا گیا تو ان کے کام کی جگہ دور ہوگئی جس سے روزگار کی ’’اسمارٹ دقتیں‘‘ ان کے سامنے کھڑی ہوگئیں۔ کام کے لیے زیادہ دور جانا اور اس پر وقت اور آمد و رفت کے بڑھتے ہوئے اخراجات کی وجہ سے شہروں کی اسمارٹنیس عام لوگوں کے لیے آفت بن گئی۔
آج جب نئے بجٹ میں مرکزی حکومت نے ایک بار پھر نئے کاغذی محل کھڑے کیے ہیں تو جواب مانگا جانا چاہیے کہ 100 اسمارٹ سٹی اور اس پر کئی ہزار کروڑ خرچ ہونے کے باوجود شہر کی ایک گلی بھی ’’اسمارٹ‘‘ کیوں نہیں بن سکی۔
[email protected]