عبدالغفار صدیقی
اگر کوئی مجھ سے معلوم کرے کہ مسلم حکمرانوں نے ہندوستان کو سب سے قیمتی کیا چیز دی ہے تو میں بلا مبالغہ کہوں گا ’’ اردو زبان‘‘۔مسلم حکمرانوں نے اس ملک کو یوں تو بہت کچھ دیا ۔انھوں نے یہاں کے قدیم باشندوں کو جینے کا سلیقہ سکھایا ۔ایک سے ایک لذیذپکوان دئے ۔انھیں مہذب لباس عطا کیا ۔شاندار عمارات بنوائیں ۔مگر جو سب سے قیمتی وراثت چھوڑی وہ اردو زبان ہے ۔اردو زبان کی حلاوت اور شیرینی کے قائل اس کو مٹانے والے بھی ہیں ۔جو سنتا ہے وہ اپنا سر دھنتا ہے ۔ کوئی فصیح و بلیغ اردو لکھنوی لہجے میں بولتا ہے تو جی چاہتا ہے کہ بولنے والا کبھی خاموش نہ ہو ۔اس زبان میں کسی کی تعریف کے لیے وہ الفاظ ہیں کہ اپنی تعریف سننے والے کا دماغ آسمان پر پہنچ جائے ۔ عجزو انکسار کے اظہار کے لیے لفظوں کا وہ ذخیرہ ہے جو شقی القلب انسان سے بھی اپنی بات منوا لیتا ہے ،اس زبان میں کسی کو ذلیل و رسوا کرنے کے لیے لفظوں کے وہ تازیانے ہیں کہ وہ کہہ اٹھتا ہے :
اگر تلوار کے ہوتے تو کب کے بھر گئے ہوتے
مگر یہ زخم تو دل پر تری باتوں نے ڈالے ہیں
اس زبان کی ایک خوبی یہ ہے کہ یہ ہم زبانوں کے درمیان سے غیریت کے سارے حجاب ختم کردیتی ہے ۔جب دو لوگ اردو میں بات کرتے ہیں تو اپنائیت کا وہ احساس ہوتا ہے جو حقیقی بھائیوں کی ملاقات سے ہوتا ہے ۔میں نے پردیس میں جب کسی کی زبان پر اردو الفاظ گشت کرتے ہوئے دیکھے ہیں تو مجھے لگا کہ یہ کوئی میرا غمخوار و ہمدرد ہے اور میں نے بلا تکلف اس سے عرض حال کردیا ہے۔انھیں خوبیوں کے سبب اس کے چاہنے والوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے ۔اہل اقتدار نے بہت کوشش کی کہ وہ اس کی جگہ کسی دوسری زبان کو دے دیں مگر دے نہ سکے ۔آج کے وہ حکمران جو اس زبان کو خاص مذہب سے جوڑ کر دیکھتے ہیں اور جن کی خواہش ہے کہ اہل ہند اس میں کلام کرنا چھوڑ دیں وہ بھی جب تقریر کرتے ہیں تو نہ چاہ کر بھی بہت سے اردو الفاظ ان کی زبان سے اد اہوتے ہیں ۔
اردو کسی مذہب اور قوم کی زبان نہیں ہے ۔یہ میں نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ خود اس زبان میں ایسا جادو ہے جو سر چڑھ کر بولتا ہے ۔اس وقت کی بات تو چھوڑئیے جب اس ملک پر مسلمانوں کی حکومت تھی اور اردو یہاں کی سرکاری زبان تھی ۔ظاہر ہے اس وقت ملک کے ہر شہری کی مجبوری تھی کہ وہ اردو بولے اور لکھے ۔لیکن آج جب کہ ملک کو آزاد ہوئے بھی 77سال ہوچکے ہیں اور اردو پڑھنے لکھنے کے ذرائع محدود و مسدود کردیے گئے ہیں اب بھی اس زبان کی حلاوت کتنوں کو اپنی جانب راغب کرتی ہے ۔اسی میں ایک نام جناب راجیوپرتاپ گڑھی کا ہے جس کو اس زبان نے ’’ریاض ‘‘ بنا دیا ہے ۔وہ اردو زبان کی پاسبانی اسی طرح کررہے ہیں جس طرح مسلمان کررہے ہیں اوراردو زبان کی زبوں حالی کا غم انھیں بھی اسی طرح ہے جس طرح اردو کے مسلم شعراء اور ادباء کو ہے ۔اسی لیے وہ کہتے ہیں :
وہی اردو جسے حاصل تھا رتبہ راج رانی کا
اب اپنے ہی محل میں بن کے وہ دربان رہتی ہے
راجیو ریاض پرتاپ گڑھی جو اب دہلی میں رہتے ہیں نہ صرف اردو زبان میں شاعری کرتے ہیں بلکہ وہ اردو کو اردو رسم الخط میں ہی لکھتے ہیں ۔انھیں اردوشاعری کے فن پر بھی دسترس ہے ۔وہ فن عروض سے اچھی طرح واقف ہیں ۔اسی وجہ سے وہ آج اردو شعراء کی صف اول میں شمار ہوتے ہیں ۔راجیو ریاض پرتاپ گڑھی نے اردو زبان و ادب کا گہرا مطالعہ کیا ہے ۔انھوں نے اساتذہ کے سامنے زانوئے تلمذ طے کیا ہے ۔انھوں نے دہلی کی اردو مجالس سے استفادہ کیا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی شاعری میں پرشکوہ الفاظ اور معنیٰ خیز تراکیب کا خوب استعمال کرتے ہیں ۔
ہوا سے جب بھی کوئی شاخ گل لچکتی ہے
وطن کی یاد مرے سینے میں ہمکتی ہے
لے گیا کم ظرف کوئی تھام کر خوشیوں کے ہاتھ
درد کا دریا سنبھالے بے بسی ٹھہری رہی
گردش وقت نے رہ رہ کے ستم توڑا ہے
تب مری قوت پرواز نے دم توڑا ہے
راجیوریاض کی شاعری میں سب سے ابھرا ہوا پہلو ’’ دردو الم ‘‘ ہے ۔صرف ان کا ذاتی غم نہیں بلکہ و ہ ہر مظلوم و بے کس کے دکھ کو الفاظ کا لباس عطا کرتے ہیں ۔چند اشعار ملاحظہ کیجیے:
چاہتے تھے درد ہم کرنا زمانے سے بیاں
بس اسی کوشش میں جانے کب سخنور ہو گئے
اتنے ٹکڑوں میں میں ٹوٹا ہوں کہ گننا مشکل
اس پہ ظالم یہ سمجھتا ہے کہ کم توڑا ہے
پھر ٹھٹھرتی رات میں فٹ پاتھ پر ہوگا غریب
آ گیا پھر وہ مہینہ اس لئے بے چین ہوں
ہم کو غموں سے کوئی شکایت نہیں ریاضؔ
غم ہم کو ہم غموں کو سنبھالے چلے گئے
اس کی وجہ ایک تو خود ان کی اپنی ذاتی زندگی کے نشیب و فراز ہیں اور دوسری وجہ غالباً مرحوم منور رانا سے ان کی قربت و عقیدت ہے ۔منور رانا (اللہ انھیں غریق رحمت کرے) ان کے آئیڈیل ہیں ۔وہ ان کو اپنا مسیحا سمجھتے ہیں اور منور رانا بھی ان سے اس طرح محبت کرتے تھے جس طرح ایک باپ اپنی فرماں بردار اولاد سے کرتا ہے ۔منور رانا نے اپنے انتقال سے چند ماہ قبل ان کے زیر طبع مسودہ ’’ اس لیے بے چین ہوں ‘‘ پر لکھا تھا۔
’’خدا جانے کس بزرگ کی دعا ہے کہ غزل اپنے لا تعداد چاہنے والوں میں شب و روز اضافہ ہوتے دیکھتے رہتی ہے۔ نوجوان شاعرراجیو ریاض پرتاپ گڑھی کا شمار بھی ایسے ہی نوجوانوں میں ہوتا ہے جو گیسوئے غزل کو سنوارنے میں ہر وقت مصروف رہتے ہیں۔اس بے پناہ بھاگتی دوڑتی زندگی میں سماج کی بگڑی ہوئی تصویر کو سنوارنے کے لئے غزل کا سہارا لینا بہت دشوار کام ہے۔ لیکن شاید زندگی اسی جدو جہد کا نام ہے۔ قلم اور کاغذ کے سہارے اپنے سنسکاروں کی حفاظت کرنا ، اپنی تہذیبی ذمہ داریوں سے نبرد آزما ہونا ، سماج کی بے ہودہ رسموں کے خلاف آواز اٹھاناہی سچی جنگ ہے اور اسی جنگ کو شاعری کہتے ہیں۔ میں مبارکباد دیتا ہوں راجیو ریاض کو ان کی اور ان کے قلم کی سلامتی کی دعا کرتا ہوں اور یہ مشورہ بھی دیتا ہوں کہ زندگی کے آخری پڑائو تک آپ اپنے آپ کو طالب علم سمجھئے گا ورنہ زمانہ تو اتنا خراب آگیاہے کہ دو غزلوں کے مالک استاد کے منہ پر سگریٹ کا دھواں چھوڑ رہے ہیں۔ خدا آپ کو سلامت رکھے ۔ مہذب رہتے ہوے بڑا شاعر بنائے۔آمین‘‘
راجیو ریاض کے یہاں اردو غزل اپنی جملہ نزاکتوں اور لوازمات کے ساتھ موجود ہے۔ان کی غزلوں میں ایمائیت ہے ،عصری حسیت اور ذو معنویت ہے ،اس میں محبوب سے التفات کی باتیں بھی ہیں اور شکوے گلے بھی ۔مثلاً
کوئی صورت نہ اس کو راس آئی
ہم نے چہرہ بدل کے دیکھ لیا
بس مجھے اتنا بتا دے کہ میں کیا دوں گا جواب
سب ترے بارے میں پوچھیں گے جدھر جائوں گا
اتنے چہرے نہ دکھا اپنے کہ پھر تیرے بعد
کوئی بھی شکل ان آنکھوں کو گوارہ ہو جائے
راجیو ریاض کی شاعری میں وطن کی محبت کا عنصر بھی نمایا طورپر نظر آتا ہے ۔انھیں ملکی رہنمائوں سے اختلاف ضرور ہے ۔لیکن مادر وطن کی مٹی کا ہر ذرہ انھیں عزیز ہے ۔اسی ضمن میں وہ ملک کے تمام باشندوں میں محبت و یگانگت کے قائل ہیں اور دین و مذہب کے اختلاف کے باوجود سارے ہندوستانیوں کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ :
چاہے کسی بھی دین کے یا پھرزباں کے ہیں
دنیا مگر یہ جان لے ہندوستاں کے ہیں
گوتم کبیر نانک چشتی جہاں ہوئے
ہے ناز کہ ہم پھول اسی گلستاںکے ہیں
اپنے وطن سے محبت کی مثالی جذبہ درج ذیل اشعار میں ملاحظہ کیجیے
ہم تیرے خواب کی تعبیر نہیں دینے کے
تجھ کو جنت کی یہ تصویر نہیں دینے کے
دے دیا تجھ کو مرے بھائی کراچی لاہور
اب کسی طور بھی کشمیر نہیں دینے کے
نعت کہنا اردو شعرا کا خاصہ رہا ہے ۔وہ غیر مسلم شعرا ء جو اردو زبان میں شاعری کرتے ہیں ان میں اکثر لوگوں نے نعتیں کہی ہیں۔پھر راجیو تو ریاض ہیں یعنی ان کے نام کا ایک حصہ مسلم ہے ۔وہ کیوں اس کار ثواب میں پیچھے رہتے ۔اس لئے ان کی کی دونعتوں کے چند اشعار مجھے یاد آرہے ہیں آپ بھی ملاحظہ کرلیجیے:
جو بھی سچا حضور والا ہے
وہ اندھیروں میں نوروالا ہے
ڈوب کر سن رہا ہوں ذکر نبی
لمحہ لمحہ سرور والا ہے
نسبتیں آپ سے ہیں روحانی
سب سمجھتے ہیں دور والا ہے
یقیناً وہیں پر ہے جنت کا زینہ
جسے لوگ کہتے ہیں شہر مدینہ
نہ ہوتی کبھی ایسی پھولوں میں خوش بو
نہ ہوتا اگر مصطفیٰ کا پسینہ
قدم چوم کر ہوگئیں دور لہریں
نہ ڈوبا غلام نبی کا سفینہ
کہتے ہیں کہ گھر کے افراد اپنے کھوٹے سکے کو بھی ’’ہیرا ‘‘ کہتے ہیں ۔ماں کے لیے مٹی بھی ’’ لعل‘‘ سے کم نہیں ،بات تو جب ہے کہ ہمسایہ آپ کی تعریف کرے اور پڑوسی آپ کی قدردانی کرے ۔ اہل دانش کا قول ہے کہ جب تک ہمسایہ کسی کے اعلیٰ اخلاق کی گواہی نہ دے اس کے اخلاق و کردار پر یقین نہ کرو۔راجیو ریاض کی تعریف میں وطن عزیزکے مایہ ناز شاعر کی گواہی مندرجہ بالا پیراگراف میں سپردقلم کی جاچکی ہے ۔ذیل میں ہمسایہ ملک کے شعراء کی شہادتیں بھی ملاحظہ فرمائیں۔
’’راجیو ریاض کی غزل کے تیکھے تیور، باور کرواتے ہیں کہ ان کی غزل میں تخلیقی رچائو اور فطری بہائو، اپنے قدرتی اور مانوس رنگوں کے ساتھ اس طرز میںہم آہنگ ہوتا ہے کہ تمام تر جذبے اور انسانی رویے ، اپنے خاص فنکارانہ انداز میں اظہار ہوتے نظر آتے ہیں۔ ‘‘رانا سعید دوشی ٹیکسلا (پاکستان)
’’اردو کا سفر کسی حدود و قیود میں نہیں۔ اظہارِ رائے اور ادب پروری یکساں طور پر دونوں ملکوں میں دکھائی دیتی ہے۔راجیو کی دل موہ لینے والی شاعری اپنا الگ مزاج رکھتی ہے۔ راجیو کے یہاں لفظ لفظ نہیںرہتے بلکہ جذبے کا روپ دھار لیتے ہیں۔الفاظ تو جیسے راجیو کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے ہیں۔ یہ دلوں کو چھو جانے والی شاعری ہر زمانے کی شاعری ہے۔‘‘راشدہ ماہین ملک ۔اسلام آباد، پاکستان
راجیو ریاض ایک اچھے شاعر کے ساتھ اچھے انسان بھی ہیں ۔انھوں نے جس سماج میں آنکھیں کھولیں ہیں وہ ہزاروں سال سے ظلم کے سائے میں زندگی گزاررہا تھا اور ابھی بھی اس کی حالت میں قابل ذکر تبدیلی نہیں آئی ہے ۔انھوں نے اپنی قوم کی ذلت و رسوائی کے واقعات کا مطالعہ کیا ہے ۔انھوں نے اپنے قومی ہیروز کے ساتھ اپنی ہم مذہبوں کاظالمانہ سلوک کتابوں کے اوراق میں دیکھا ہے ۔انھوں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ جیوتی باپھولے سے لے کر کانشی رام تک کے مصلحین قوم کا ساتھ ہندوستان میں اگر کسی نے دیا ہے تو وہ صرف مسلمان ہیں ۔اسی لیے وہ مسلمانوں کے ساتھ خیر خواہی کے جذبات رکھتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ میری قوم کے رہنمائوں کے ساتھ مسلمانوں نے جو حسن تعاون کیا ہے وہ میرے کاندھوں پر ایک قرض ہے ۔جسے میں چاہتا ہوں کہ ادا کروں۔سادگی پسند طبیعت کے مالک راجیو ریاض اپنی خودی کا سودا کبھی نہیں کرتے ۔
راجیوریاض ابھی جوان ہیں ۔ان کی شاعری کا سفر جاری و ساری ہے ۔ان کے ذہن و فکر کی پرواز کی رفتار روشنی سے زیادہ تیز ہے ۔ ان کے لفظستان کی خوشبو محبان اردو کو اپنی طرف کھینچ رہی ہے ۔مجھے پوری امید ہے کہ آج کا یہ نوجوان شاعر جس کی شاعری نے اہل علم کی نظروں میں اپنا نمایاںمقام بنا لیا ہے، آنے والے دنوں میں مزید تجربات اور مشق کے ساتھ اردو شاعری کے اساتذہ کی اس فہرست میں اپنا نام ضرور درج کروائے گا جس پر ہماری ادبی تاریخ فخر کرے گی ۔
درد نے ہی تو بنایا ہمیں راجیو ریاض
ہم کسی کو بھی یہ جاگیر نہیں دینے کے
٭٭٭