بنگال کی تقسیم کا مطالبہ انگریزوں کی راہ پر بی جے پی

0

تقسیم خاندان کی ہو، ملکیت کی ہو یا پھر کسی ریاست کی ہمیشہ المناک اور درد انگیز ہوتی ہے۔ انسانی ذہن اسے آسانی سے قبول نہیں کرتا ہے۔ لیکن یہ تقسیم آج سیاست کی مرغوب غذا بن چکی ہے۔ کبھی مذہب کے نام پر انسانی گروہوں میں تقسیم کا بیج بویا جاتا ہے تو کبھی ذات پات اور فرقہ وارانہ بنیاد پر تقسیم کی لمبی لکیر کھینچ کر سیاست کی روٹی سینکی جاتی ہے۔ گزشتہ 10 برسوں سے حکمراں طبقہ ہندوستانی سیاست کو اس کی مرغوب غذا وافر مقدار میں مہیا کررہا ہے لیکن باوجود اس کے اس کی سیری نہیں ہوپارہی ہے۔اب حکمراں بھارتیہ جنتاپارٹی نے تقسیم کا ایک نیا مطالبہ اٹھایا ہے اور وہ ہے ریاست مغربی بنگال کی تقسیم۔اس تقسیم کا مقصد بظاہر ترقی بتائی جارہی ہے لیکن اس کے پس پشت مسلم آبادی کی مرکزیت کو ختم کرکے انتخابی سیاست میں ان کے ووٹوں کی قدرکو بے وزن کرنا نظرآرہاہے۔
مرکزی وزیر مملکت سوکانتو مجمدار نے وزیراعظم سے مل کر یہ تجویز پیش کی ہے کہ مغربی بنگال کو دوحصوں جنوبی بنگال اور شمالی بنگال میں تقسیم کردیاجاناچاہیے۔ سوکانتو مجمدار کا کہنا ہے کہ شمالی بنگال کے 8اضلاع کوچ بہار،دارجلنگ، شمالی دیناج پور، جنوبی دیناج پور، جلپائی گوڑی، علی پور دوا، مالدہ اور کالمپونگ کو ملا کر مرکزی علاقہ بناکراسے شمال مشرقی ترقی کی وزارت کے تحت لائے جانے سے ہی حقیقی ترقی ممکن ہوگی۔یہ مطالبہ بھلے ہی مغربی بنگال کی ترقی کے نام پر کیا گیا ہو لیکن اس کے پیچھے بی جے پی کا سیاسی مقصد نظر آرہا ہے۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ سب سے پہلے 2021 میں سابق مرکزی وزیر جان برلا اور مجمدار نے یہ مطالبہ اٹھایا تھا لیکن جب اس پر ہنگامہ ہوا تو مجمدار نے خود کو اس مطالبے سے الگ کر لیاتھا۔
بی جے پی کے دوسرے لیڈرا ور ایم پی نشی کانت دوبے کا بھی مطالبہ ہے کہ مغربی بنگال کے پانچ اضلاع اور بہار کے تین اضلاع ملا کر ایک دوسرا مرکزی خطہ بنایاجاناچاہیے۔دوبے جی کے نزدیک اس عمل سے ’ در اندازی‘ کے مسئلہ پر قابو پایاجاسکتا ہے۔لوک سبھا میں یہ مطالبہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مغربی بنگال کے اضلاع مالدہ، مرشد آباد، شمالی دیناج پور، جنوبی دیناج پور اور کوچ بہار اور بہار کے اضلاع کٹیہار، ارریہ اور کشن گنج کو ملا کر مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنایا جانا چاہیے۔نشی کانت دوبے کا کہنا ہے کہ مغربی بنگال اور بہار کے مذکورہ اضلاع میں بنگلہ دیشی دراندازوں کی وجہ سے آبادی کا ڈھانچہ تبدیل ہورہا ہے۔ اس لیے مغربی بنگال اور بہار کے مسلم اکثریتی اضلاع کو مرکز کے زیر انتظام علاقہ قرار دے کروہاں این آر سی نافذ کیا جائے۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کی ریاست جھارکھنڈ میں قبائلی آبادی میں 10 فیصد کمی آئی ہے۔ نشی کانت کا دعویٰ ہے کہ بنگلہ دیشی تارکین وطن کے ساتھ قبائلی خواتین کی شادیوں کی تعداد میں اضافے کی وجہ سے یہ مسئلہ پیدا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کا تعلق سنتھال پرگنہ سے ہے۔ جب اس علاقے کو بہار سے الگ کر کے جھارکھنڈ میں شامل کیا گیا تو قبائلی آبادی 36 فیصد تھی۔ اب یہ 26 فیصد ہو گئی ہے۔ یہ ووٹ بینک کی سیاست کی وجہ سے ہوا۔ ہمارے علاقے میں بنگلہ دیشی دراندازوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ جے ایم ایم حکومت کوئی کارروائی نہیں کرتی ہے۔
ایک طرف حکمراں بھارتیہ جنتاپارٹی کے لیڈران جہاں مغربی بنگال کی تقسیم کامطالبہ اٹھارہے ہیں، وہیںدوسری جانب اسی ریاست میںالگ الگ ریاست بنانے کیلئے کئی تحریکیں بھی چلائی جارہی ہیں۔ دارجلنگ میں گورکھا لینڈریاست بنانے کا مطالبہ ہے تو کوچ بہار میں گریٹر کوچ بہار اور کامتا پوری کے مطالبہ پر شدت پسندی عسکری تحریکیں بھی چل رہی ہیں۔علیحدہ ریاست گورکھالینڈ بنانے کے مطالبہ پرہی دارجلنگ کے عوام نے بی جے پی کو دوبارنمائندگی کیلئے بھی منتخب کیا تھا، اس کے باوجود10برسوں میں بی جے پی یہ کام نہیںکرپائی، اب اچانک بی جے پی لیڈران یہ مطالبہ کیوں اٹھارہے ہیں۔اس سے تو یہی لگ رہاہے کہ ان کی نیت صاف نہیں ہے۔
اس مطالبہ کا کھلا مقصد مغربی بنگال میں ترنمول کانگریس کا اثر کم کرنا اور مسلم اکثریتی اضلاع کو ’ دوسراکشمیر‘ بنانا ہے۔اضلاع میںمسلمانوں کی فیصلہ کن آبادی ہے جو بی جے پی کے خلاف ترنمول کانگریس کی حمایتی ہے، اس لیے اگر اس علاقے کو الگ مرکزی خطہ بنا کر ریاست کے نقشے سے الگ کر دیا جائے تو نہ صرف مسلم آبادی کا مغربی بنگال سے خود بخود انخلا ہوجائے گا بلکہ ترنمول کانگریس کی طاقت بھی کم ہوجائے گی۔اسی لیے ریاست کی تقسیم اور تنظیم نو کامطالبہ کیاجارہاہے جسے کسی صورت قومی مفاد میںنہیں کہاجاسکتا ہے۔
ایسی ہی نیت انگریزوں کی تھی جب انہوں نے 1905 میں بنگال کو تقسیم کیاتھا۔انتظامی دشواریوں اور ترقی کی بنیاد پر 1905میں بھی اس وقت کے وائس رائے ہندوستان لارڈ کرزن نے بنگال کی تقسیم کی تھی۔اس تقسیم کے خلاف پانچ برسوں تک خون کی ندیاں بہتی رہیں، سیکڑوں جانیں ضائع ہوئیں اور بالآخر1911میں یہ تقسیم منسوخ کرد ی گئی۔ امید ہے کہ مغربی بنگال کی دوبارہ تقسیم کا مطالبہ اٹھانے والے بھی منہ کی کھائیں گے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS