پروفیسر اسلم جمشید پوری
مغربی اترپردیش کی اہمیت کئی اعتبار سے ہے۔ یہ پورا علاقہ گنا، گیہوں، چاول اور آم کے لیے جانا جا تا ہے۔ یہ علاقہ جاٹوں اور کسانوں کے لیے بھی مشہور ہے۔یہاں کا جاٹ-مسلم اتحاد دور دور تک مشہور جا تا ہے۔اس علاقے میں یوں تو کانگریس، بی جے پی،ایس پی اور بی ایس پی کی سیاسی جماعتیں اپنا زور رکھتی ہیں،مگر راشٹریہ لوک دل یہاں کی سب سے مقبول پارٹی ہے۔اس سے قبل یہاں بھارتیہ کرانتی دل (بی کے ڈی) نام کی پارٹی ہوا کر تی تھی۔
بی کے ڈی اس علاقے کے کسانوں کی پارٹی تھی۔اس کا وجود 1967میں کانگریس سے الگ ہو کر سابق وزیراعظم آنجہانی چودھری چرن سنگھ نے قائم کیا تھا۔پارٹی کا قیام لکھنؤ میں ہوا تھا،لیکن 1977میں اس کا انضمام جنتا دل میں ہوگیا تھا۔چودھری چرن سنگھ خود ایک کسان خاندان سے تھے،اس لیے انہوں نے وزیراعلیٰ اور وزیراعظم یا دیگر عہدے پر رہتے ہوئے کسانوں کے لیے کافی کچھ کیا۔اسی لیے کسان بھی ان کے لیے ہر طرح کی قربانی دینے کو تیا ر رہتے۔کھیتی اور کسانوں کی بے لوث خدمت کے سبب چودھری چرن سنگھ کو ’’ کسانوں کا مسیحا‘‘ کا لقب عطا کیا گیا۔
12فروری1939کوسابق وزیراعظم چودھری چرن سنگھ کے گھرچودھری اجیت سنگھ پیدا ہوئے۔ چودھری اجیت سنگھ نے 1996میں راشٹریہ لوک دل کی بنیاد ڈالی۔اجیت سنگھ آئی آئی ٹی کھڑگپور سے میکینکل انجینئر تھے۔پھر انہوں نے الیوژن انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنا لوجی،لکھنؤ سے ایم ایس کیا۔ وہ کمپیوٹر سائنس داں تھے۔وہ پہلے ہندوستانی تھے جس نے آئی بی ایم (IBM)کے ساتھ1960میں کام کیا۔ 6مئی2021میں اس عظیم لیڈر کا انتقال ہو گیا۔
اجیت سنگھ 8بار ایم پی رہے۔1996میں اجیت سنگھ کانگریس کے ٹکٹ پر ایم پی بنے،مگر انہوں نے بہت جلد ریزائن کر دیا اور اپنی سیاسی پارٹی کسان کام گار پارٹی(کے کے پی)بنائی۔1997 میں وہ باغپت سے ایم پی بنے۔ 1999 میں انہوں نے اپنی پارٹی کی نئے نام ’’ راشٹریہ لوک دل ‘‘سے از سر نوتشکیل کی۔یوں اصل معنی میں دیکھا جا ئے تو آر ایل ڈی کا قیام عمل میں آیا۔کبھی کانگریس،سماج وادی پارٹی تو کبھی بی جے پی میںاجیت سنگھ شامل ہوتے رہے۔ مرکز میں آپ کئی بار وزیر بھی بنے۔پی وی نر سمہا رائو،وی پی سنگھ،اٹل بہاری واجپئی حکومت میں اجیت سنگھ کئی اہم وزارتوں کے وزیر رہے۔ راشٹریہ لوک دل نے 2002 میں بی جے پی کے ساتھ مل کر یوپی اسمبلی کاانتخاب لڑا۔ پارٹی نے38 امید وار اتارے،جن میں سے14ایم ایل اے بنے۔یہ راشٹریہ لوک دل کا اب تک کا سب سے کامیاب مظاہرہ تھا۔پارٹی نے کسی سے بھی ہاتھ ملایا مگر کسانوں کو نہیں بھولی۔ہرت پردیش کے ایشو کو بھی کئی سال تک پوری شد و مد کے ساتھ سیاسی بنائے رکھا۔اجیت سنگھ نے راشٹریہ لوک دل کو مغربی اترپر دیش کی مقبول پارٹی بنائے رکھا۔کسانوں کی پکار پر ہمیشہ لبیک کہا۔جاٹ-مسلم کے اتحاد و اتفاق کو اہمیت دی، اسی لیے نواب کوکب حمید، ڈاکٹر معراج الدین،شاہد صدیقی،عین الدین شاہ،آفاق الرحیم خان کو اپنی پارٹی میں اہم عہدے عطا کیے۔لیکن اجیت سنگھ کا سب سے بڑا امتحان2013 کا مظفر نگر فساد تھا۔یہ فساد اپنی نوعیت کا منفرد فساد تھا۔یہ فساد شہروں سے زیادہ گائوں دیہات میں پھیلا تھا۔اس سے سب سے زیادہ متاثر دوردراز کے گائوں میں قلیل تعداد میں رہنے والے مسلم خاندان تھے۔ یہ بھی صحیح ہے کہ یہ ایس پی کے دورحکومت میں ہوا تھا،مگر اس میں کچھ فرقہ وارانہ ذہنیت رکھنے والے سیاسی افرادشامل تھے۔فساد کے متاثرین نے مسلم اکثریتی گائوں خاص کر کاندھلہ اور کیرانہ کے بڑے مدرسوں میں پناہ لی تھی۔اجیت سنگھ نے بڑی عقلمندی سے ان حالات کو سنبھالا۔ جمعیۃ علماء ہند نے سیکڑوں بے گھر متاثرین کو گھر بنا کر دیے۔
اجیت سنگھ کے بعد ان کی وراثت کو ان کے بیٹے چودھری جینت سنگھ نے سنبھا لا۔2022کے اترپر دیش کے اسمبلی انتخاب میں پارٹی نے اچھا مظاہرہ کیا۔سماج وادی پارٹی کے ساتھ مل کر 9سیٹیں جیتیں اور لوک دل کی مقبولیت کو کم نہیں ہونے دیا۔ کسانوں کے دھرنے کو بھی اپنی حمایت دے کر لوک دل نے ظلم کے خلاف آواز بلند کی۔2024 کے پارلیمانی انتخاب سے قبل ہی چودھری جینت راجیہ سبھا کے ایم پی بن چکے تھے۔2024 لوک سبھا انتخابات کا وقت قریب آنے لگا تو پورے ملک میں بی جے پی کے خلاف ایک مضبوط اتحاد بننے لگا۔چودھری جینت سنگھ بی جے پی مخالف مورچے میں اہم کر دار میں تھے۔ جینت، اکھلیش اور راہل کی تگڑی سے بی جے پی خوفزدہ تھی۔ نوجوانوں کی یہ کھیپ کچھ بھی کرسکتی تھی۔بی جے پی کو بڑی فکر تھی اور وہ اس تگڑی کو توڑنے میں لگ گئی۔بی جے پی والوں نے ایک چال چلی، انہوں نے چودھری چرن سنگھ کو بھارت رتن ایوارڈ دینے کا اعلان کیا۔بس کیا تھا،تیر نشانے پر لگا۔چودھری جینت سنگھ اس دام میں آگئے، اپوزیشن اتحاد ’انڈیا‘ کو چھوڑ کربی جے پی کے خیمے این ڈی اے میں آگئے۔بہت سے لوگوں نے سمجھایا بھی۔کسان بھی ناراض ہوگئے۔بی جے پی نے لوک دل کو صرف دو سیٹیں دیں۔اتفاق سے لوک دل نے دونوں سیٹیں جیت لیں۔جب مرکز میں مودی سرکار بنی تو راشتریہ لوک دل اور چودھری جینت کی بڑی بے عزتی ہوئی،مگر جینت نے سب کچھ بر داشت کر لیا۔کچھ دن بعد جینت مرکز میں کوشل محنت کے وزیر بنے۔
چودھری جینت کے اس اقدام سے پورے علاقے کے عوام میں ناراضگی پھیل گئی۔کسان راشٹریہ لوک دل اور چودھری جینت سے بہت زیادہ خفا ہیں۔دراصل بی جے پی سرکار نے کسانوں کے مطالبات سنے، نہ دھرنے احتجاج کو قابل اعتنا جانااور چودھری جینت اسی پارٹی کے ساتھ مل لیے۔ اوپر سے لوک دل کی شبیہ سیکولر جماعت کی ہے جبکہ بی جے پی کی فرقہ پرست ذہنیت سے سب واقف ہیں۔ کسانوں نے اپنے علاقے میں ممکنہ حد تک ’انڈیا‘ کا ساتھ دیا۔کئی اہم مسلم لیڈران بھی راشٹریہ لوک دل چھوڑ چکے ہیں، اگر جینت اپوزیشن اتحاد ’انڈیا‘ میں ہی رہتے تو مقبولیت کا الگ ہی عالم ہوتا۔کم از کم چار پانچ ایم پی ہوتے۔ تب بھی چودھری چرن سنگھ کو بھارت رتن ملتا، کسان ساتھ ہوتے،مسلمان اور جاٹ انہیں سر پر بٹھاتے۔ ہو سکتا ہے وہ وزیر نہیں بنتے مگر وزیر سے زیادہ اہمیت ہو تی۔
اترپردیش کی موجودہ سر کار نے جب کانوڑ یاترا کے راستے میں پڑنے والے دکانداروں،پھل فروشوں اور ریہڑی وٹھیلے والوں کو اپنی دکان وغیرہ پر اپنا نام لکھنے کا فرمان جاری کیا تو پورے ملک میںبی جے پی کے خلاف ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔بی جے پی کی مخالفت ہو نے لگی۔حزبِ اختلاف کو ایک اور موقع مل گیا۔حیرت تو اس وقت ہوئی جب این ڈی اے میں شامل سیاسی پارٹیوں نے بھی اس کی مخالفت شروع کر دی۔ایسے میں راشٹریہ لوک دل اور جینت کہاں پیچھے رہنے والے تھے۔ انہوں نے اس کی پرزور مخالفت کی۔عوام کو یہ بات پسند آئی۔جینت کی اس بات پر کسانوں نے خوش ہو کر یہ تک کہہ دیا کہ جینت واپس آجائو۔
لوک دل کا مقصد حکومت کرنا نہیں،بلکہ مغربی اترپردیش کے لوگوں کے مسائل حل کرنا اور ان کا ہر قدم پر ساتھ دینا ہے۔آج بھی عوام لوک دل کو پسند کرتے ہیں۔ لوک دل کو بھی چاہیے کہ عوام کے جذبات کا خیال رکھے،تاکہ مستقبل میں بھی اس کی ساکھ بنی رہے۔
[email protected]