شاہد زبیری
اقتدار کی جنگ سے تاریخ بھری پڑی ہے تاریخ انسانی کا کوئی دور ایسا نہیں جو اس جنگ سے پاک ہو ۔اقتدار کس کے ہاتھ میں رہے اس کیلئے جنگیں ہوتی رہی ہیں۔ ماضی کے سلطان وشہنشاہ ،راجائوں مہا راجائوں کو جیسا اقتدار کا نشہ تھا وہی نشہ آج جمہوری حکمرانوں کو ہے ،آگے پیچھے لائو لشکر اور ہٹو بچو کی آوازوںسے کس کے منھ میں پانی نہیں آتا ۔ ان دنوں یوپی میں وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ ایک طرف ہیں ا ور نائب وزیر اعلیٰ کیشو پرساد موریہ اور نائب وزیر اعلیٰ برجیش پاٹھک دوسری طرف جو ایک دوسرے کے سامنے تلوارے سونت کر میدان میں کھڑے ہیں لیکن دہلی میں 26 جولائی سے جو جنگ لڑی جارہی ہے اس میں یوگی کا ہی پلڑا بھاری دکھائی دے رہا ہے ۔اصل میں اس جنگ کی بنیاد 2017میں اس وقت پڑ گئی تھی جب بی جے پی نے یوپی اسمبلی کا انتخاب لڑا اس وقت کیشو پرساد موریہ یوپی بی جے پی کے صدر تھے پارٹی نے ان انتخابات میں کامیابی کے جھنڈے گاڑے تھے جس کا سہرا ان کے ہی سر بندھتا تھا اور وہ خود کو وزیر اعلیٰ کی کرسی کا حقدار سمجھتے تھے اور ایسا سمجھنے کے لیے وہ حق بجانب تھے وہ اس لیے پُر امید تھے ۔ وہ آر ایس ایس کی پاٹھ شالہ کے تربیت یافتہ تھے وہ سمجھتے تھے کہ آر ایس ایس ان کی پشت پر ہے اس لیے ان کی راہ کون روک سکتا ہے لیکن جب ستارے گردش میں ہوں تو کوئی کیا کرے اچانک نہ جانے کہاں سے گورکھپور مٹھ سے ہندو واہنی کے بانی یو گی آدتیہ ناتھ آسمان سے ٹپک پڑے اور قرعہ فال ان کے نام نکل آیا بیچارے کیشو پرساد موریہ دل مسوس کر رہ گئے لیکن ان کی اشک شوئی کیلئے مودی اور شاہ کی ایماء پر ان کو نائب وزیر اعلیٰ کی کرسی پر بٹھا دیا گیا،لیکن وزیر اعلیٰ یو گی آدتیہ ناتھ نے ان کو کبھی بھائو نہیں دیا یہ کا نٹا تب سے کیشو پرساد موریہ کے دل میں چبھا ہوا تھا ۔2017کے بعد جب 2022میں اسمبلی انتخابات ہوئے اور بی جے پی مکمل اکثریت کے ساتھ واپس اقتدار میں لوٹی ۔کیشو پرساد موریہ کے دل میں پھر سوئی ہوئی اقتدار کی امید جا گی لیکن شومئی قسمت پھر وہ خالی ہاتھ رہ گئے اور یوگی دو بارہ وزیر اعلیٰ بنا دئے گئے ۔بلّی کے بھاگ چھینکا دو سال بعد اس وقت ٹوٹا جب لوک سبھا کے انتخابات میں یوپی میں بی جے پی کی لٹیا گنگا میں ڈوب گئی اوراب کی بار 400پار کے غبارہ کی ہوا نکل گئی اور اتنی سیٹیں بھی ہاتھ نہیں لگی کہ اپنے بل پر بی جے پی سرکار بنا پاتی 240پر سوئی اٹک گئی ۔ اس ہار میں یوپی کا اہم رول تھا جہاں توقع تو 80میں 70کی تھی لیکن سیٹیں گھٹ کر 62سے 33رہ گئیں ۔اس ہار کا ٹھیکرا مودی کے سر پھوڑ نے کی ہمّت کس میں تھی ڈھکے چھپے انداز میں سنگھ سر سنچالک موہن بھاگوت نے ایک دو مرتبہ ضرور اس طرف اشا رے کئے اور ’اہنکار‘ کو ہار کی وجہ بتا یا۔
ظاہر ہے کہ موہن بھاگوت کا اشارہ مودی کی طرف تھا لیکن یوپی میں یہ ہار تو کیشو پرساد موریہ کیلئے بلّی کے بھاگ چھینکا ٹوٹنے جیسا تھا انہوں نے اغل بغل سے ایسے افراد کو اکھٹا کر لیا اور انہوں نے یو پی میں ہار کا ٹھیکرا یو گی کے سر پھوڑنے کی مہم شروع کر دی۔4جون کو جب سے نتائج آئے ہیں کیشو پرساد جب سے یہ مہم چھیڑے ہوئے ہیں لیکن یوگی نے لوک سبھا انتخابات میں شکست کے جائز ے کیلئے بلائی گئی پہلی ہی میٹنگ میں یہ کہہ کر اپنا پلّہ جھا ڑلیا تھاکہ بی جے پی شکست کی وجہ حد سے زیادہ خوش فہمی اورکا میابی کا غیر ضروری یقین تھا ۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ ہار یوگی اور بی جے پی کی نہیں مودی کی تھی لیکن انگلیاں یوگی کی طرف اٹھیں اس میں کیشو پرساد موریہ پیش پیش رہے۔یو گی کو چاروں طرف سے گھیرنے کی ان کی کوششیں جاری رہیں انہوں نے دوسرے نائب وزیر اعلیٰ برجیش پاٹھک کو بھی اپنے خیمہ میں شامل کر لیا ۔ اسی پربس نہیں کیا بلکہ انہوں نے ممبران اسمبلی اوریو پی کے پسماندہ لیڈروںسے ملاقاتیں کیں علاوہ وزیر داخلہ امت شاہ کے دربار میں بھی برابر حاضری لگا تے رہے اور پارٹی کے قومی صدر جے پی نڈا کو بھی علیک سلیک کرتے رہے ہیں اسی بنا پر یہ قیاس لگا ئے جا رہے ہیں کہ یوگی کے خلاف اس مہم کی ڈور امت شاہ ہلا تے رہے ہیں اور ان کی شہ پر ہی شہ اور مات کا یہ کھیل کھیلا جا تارہا اوریوگی کو گھیرا جاتا رہا۔ یوپی کے اقتدار کی جنگ میں آخر امت شاہ کو کیا ضرورت پڑی کہ وہ پردے کے پیچھے سے یہ سب کچھ کرتے رہیں؟ اندرون خانہ نظر رکھنے والوں کی مانیں تو امت شاہ مودی کے بعدخود کو وزیر اعظم کی کرسی کا حقدار سمجھتے ہیں ان کو اگر کسی دوسری کی دعویداری کا ڈر ہے تو وہ یوگی ہیں مودی کے بعد یو گی ہی ہندوتوا کا دوسرا بڑا چہرہ ہیں اور پارٹی اور ہندوئوں کے ایک بڑے طبقہ میں یوگی اپنے سخت گیر ہندوتوا کے نظریہ سے کافی مقبول ہیں انتخابات میں وہ بی جے پی کے نمبر ون اسٹار کمپینر تھے اور ان کی ڈیمانڈسب سے زیا دہ تھی یوگی کو راستہ سے ہٹا نے کیلئے امت شاہ نے کیشو پرساد موریہ کو مہرہ کے طور پر استعمال کیا، کیشو پرساد موریہ کے دل میں بھی وزیر اعلیٰ بننے کی خواہشیںآرزوئیں کب سے پل رہی ہیں اسی لئے دوست کا دوست اور دوست کا دشمن دشمن کے فارمولہ پر شاہ اور موریہ عمل کر تے رہے ہیں کیشو پرساد موریہ اور برجیش پاٹھک نے یوگی کی میٹنگوں سے بھی کنارا کرلیا تھا جو پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی تھی، مگر یہ سب ہوتا رہا کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ ان کے خلاف کا نہیں ہوگی، اس لیے کیشو پرساد اقتدار کی خاطر یوگی کے خلاف پارٹی کے اندر بھی اور باہر بھی مہم چلاتے رہے لیکن یوگی کی پشت پر موہن بھاگوت کا ہاتھ ہے چونکہ آر ایس ایس سمجھتا ہے کہ مودی کے بعد یو گی ہی اس کیلئے اپیوگی ہیں اور مودی کے بعد ہندتوا کا سخت گیر چہرہ ہیں جو آر ایس ایس کے ایجنڈہ کو آگے بڑھا سکتے ہیں ۔
گزشتہ دنوں جب آر ایس ایس کی ایک ورکشاپ گو رکھپور میں تھی تو اس موقع پر سنگھ سر سنچالک موہن بھاگوت اور یو گی کے مابین گپ چپ ملاقات کی خبریں سامنے آئی تھیں پس پردہ آر ایس ایس کی حمایت ملنے کے بعدیوگی دفاعی نہیں بلکہ اقدامی جنگ لڑتے دکھائی دیے۔ انہوں نے کمشنری کی سطح پر پارٹی کارکنان لیڈران کی میٹنگیں لینے اور افسران کے کان اینٹھنے شروع کئے26جولائی کو دہلی میں نیتی آیوگ کی میٹنگ میں ملک کے وزرائے اعلیٰ بلائے گئے تو یوگی بھی گئے آیوگ کی میٹنگ سے پہلے یوگی نے بی جے پی کے قومی تنظیمی سکریٹری بی ایل سنتوش سے ملاقات کی اور سارے حالات سے ان کو آگاہ کیا قومی سکریٹری آر ایس ایس اور بی جے پی کے درمیان رابطہ کی کڑی ہیں ۔بی جے پی کے وزرائے اعلیٰ کی میٹنگ میں بھی یوگی موجود تھے یوگی اپنے ساتھ اپنی کارکر دگی کا لیکھا جوکھا بھی ساتھ لے کر دہلی گئے ہیں۔ چھن چھنا کر جو خبریں باہر آرہی ہیں ان کے مطابق پارٹی ہائی کمان نے کیشو پرساد موریہ اور برجیش پاٹھک پر یہ واضح کردیا ہے کہ وہ پارٹی ڈسپلن نہ توڑیں اور مت بھید کو من بھید نہ بنائیں ہائی کمان نے یہ بھی صاف کردیا کہ پارٹی یوگی کو بدلنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی اسمبلی کی 10 سیٹوں پر ضمنی انتخابات کے علاوہ 2027یو پی اسمبلی کا انتخاب بھی یوگی کی ہی کمان میں لڑا جا ئے گا ۔
بی جے پی کو معلوم ہے کہ یو گی اقتدار سے بیدخل کئے جانے سے جتنا نقصان پارٹی کو ہو گا اتنا نقصان کیشو پرساد موریہ اور برجیش پاٹھک کی ناراضگی سے نہیں چونکہ یوگی کی پشت پر آر ایس ایس کا ہاتھ ہے اور آر ایس ایس بی جے پی کے قومی صدر کے اس بیان پر پہلے ہی نالاں ہے جس بیان میں نڈا نے کہا تھا کہ بی جے پی کو اب آر ایس ایس کی ضرورت نہیں ان حالات میں بی جے پی ہائی کمان نہ آر ایس ایس کو ناراض کرنے کا حوصلہ رکھتا ہے اور نہ یو گی کو اقتدار سے بیدخل کرنے کا رسک لے سکتا ہے بی جے پی ہائی کمان جانتا ہے کہ اس کے پاس یوگی جیسا ہندوتوا کا کوئی دوسرا چہرہ یوپی میں نہیں ہے اس لحاظ سے اگر دیکھا جا ئے یوپی کے اقتدار کی جنگ میں فی الحال یو گی کا ہی پلڑا بھاری نظر آرہا ہے ۔ ہر چند کہ بی جے پی ہائی کمان نے ڈیمج کنٹرول کر لیا ہے لیکن یوگی جی کی کرسی کب تک محفوظ رہے گی اور یوگی اورکیشو پرساد موریہ اور برجیش پاٹھک کی تلواریں کب تک میان میں رہیں گی یہ دیکھنا باقی ہے۔
[email protected]
یوپی بی جے پی میں اقتدار کی جنگ : شاہد زبیری
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS