حادثہ یا لاپروائی

0

ہفتہ کی شام راجدھانی دہلی میں تھوڑی سی بارش کے بعد اولڈراجندر نگر میں جو کچھ ہوا وہ کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا۔سڑک پر اور3منزلہ عمارت کے بیسمنٹ میںبارش کا پانی بھرتارہا۔نہ کوچنگ سینٹر نے اورنہ انتظامیہ نے یہ سوچنے کی زحمت کی کہ وقت رہتے احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیںیا مسئلے کے حل کیلئے کوئی قدم اٹھایاجائے ، تاکہ کسی کیلئے وہ پانی جان لیوا ثابت نہ ہوجائے ۔ ہرکوئی واقعہ کے بارے میں سن کر پریشان ہے اور صدمہ میں ہے ۔نہ کوئی آندھی یا طوفان اورنہ سیلاب یا کوئی ناگہانی واقعہ پھر بھی یوپی ایس سی کے کوچنگ سنٹر میں ایک طالب علم اور2طالبات کی موت ہوگئی۔ اچھاہوا کہ علاقہ میں پانی بھرنے کے بعد بجلی کاٹ دی گئی ، اندھیرے میں فائر بریگیڈ کے اہلکاروں اوراین ڈی آرایف کی ٹیم نے رسیوں کے سہارے ریسکیوآپریشن کیا ،ورنہ کرنٹ لگنے سے بھاری تباہی مچتی ۔ کوئی نہیں کہہ سکتاکہ بارش کاپانی آفت یا ان کی موت کاسبب بنی ، بلکہ موت سراسر لاپروائی اور غفلت کانتیجہ ہے اوریہ لاپروائی اورغفلت قدم قدم پر نظر آرہی ہے ،جو جانچ میں سامنے آرہی ہے ۔اس سے پہلے کسی کو فکر نہیں تھی کہ بیسمنٹ میں کوچنگ سینٹر یا اس کی لائبریری کیسے چل رہی تھی ؟ضوابط کی پابندی کی جارہی تھی کہ نہیں ؟اگر نہیں کی جارہی تھی تو یہ کس کی ذمہ داری تھی ؟کیا اس کیلئے صرف کوچنگ سینٹر کو ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا یاانتظامیہ کی جوابدہی بھی بنتی ہے ۔اسی طرح برسات کا موسم چل رہاتھا،تو ڈرینیج سسٹم کودرست کیوں نہیں رکھا گیا ؟ محض یہ کہہ دیناکہ وہ فیل ہوگیا ، ذمہ داری سے نہیں بچ سکتے ۔ اگریہ فرض بھی کرلیا جائے کہ ڈرینیج سسٹم صحیح تھا اور بارش کے بعد فیل ہوگیا تو بارش کے دوران بھی اسے صحیح کیا جاسکتاتھا،جب یہ دکھائی دے رہا تھاکہ پانی سڑکوں پر تیزی سے بھررہاہے ۔حادثہ کے بعد ہرمحکمہ کی جو حرکت اور سرگرمیاں نظر آئیں اور واقعہ کا محرک یا سبب بتانے کیلئے کڑیاں جوڑی جانے لگیں۔یہ سرگرمیاں بارش سے پہلے یا اس کے دوران رہتیں تو حادثہ نہیں پیش آتا۔
جوانہونی ہوگئی ، اسے ذمہ دار لوگ بدل تو نہیں سکتے ، ہاں اپنی اپنی ذمہ داریوں سے بچنے کیلئے ایک دوسرے پر الزام تراشیاں ضرور کرسکتے ہیں ۔ کوچنگ سینٹر کی جتنی لاپروائی نظر آرہی ہے ، یا اسے بتایاجارہاہے ، اس سے کم انتظامیہ کی طرف سے لاپروائی نہیں ہے ۔ابھی بھی دہلی میں بیسمنٹ میں اس طرح کے کئی کارخانے ، دکانیں اور کوچنگ سینٹر چل رہے ہیں۔جوحادثہ رائو آئی اے ایس اسٹڈی سرکل میں پیش آیا ، و ہ دوسری جگہ بھی پیش آسکتاہے ۔کوچنگ سنٹر نے اگر ضوابط کو طاق پر رکھا، جیساکہ دہلی فائر سروس کاکہناہے کہ کوچنگ سینٹر بیسمنٹ میں لائبریری چلارہاتھا، جوضابطہ کے خلاف ہے۔غورطلب امر ہے کہ کوچنگ سینٹر نے اسی مہینے این اوسی تو حاصل کیا تھا،بیسمنٹ کااستعمال این اوسی کی شرائط کے مطابق اسٹوریج کے طورپر کرناتھا، لیکن اسے لائبریری کے طور پر استعمال کیا جارہاتھا۔ انتظامیہ نے این اوسی تو دے دیا، لیکن اس بات کو یقینی نہیں بنایا کہ ضوابط پرعمل ہورہاہے یا نہیں۔اس کے علاوہ دہلی کا ڈرینیج سسٹم کتنا صاف ، محفوظ اورکامیاب ہے ، یہ بات کسی سے مخفی نہیں ہے ، بلکہ اس پر سیاست ہوتی رہتی ہے ۔اس کی قلعی اس وقت کھلتی ہے، جب بارش ہوتی ہے ۔بارش کے بعد اہلکار حرکت میں آتے ہیں ۔سڑکوں پر اورگلیوں میں بھرے پانی کو نکالنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ بارش سے پہلے اس کاانتظام نہیں کیا جاتاکہ کہیں بھی پانی نہ بھرے ۔سسٹم ایساہے کہ سارے کام دفاتر میں ہی بیٹھ کر کردیے جاتے ، اہلکار سڑک پر آکربہت کم کام کرتے ہیں، جس کی وجہ سے خانہ پری تو ہوجاتی ہے ، لیکن صحیح سے کام نہیں ہوپاتا اورمسائل حل نہیں ہوپاتے۔ہمیشہ حالات حادثات کو دعوت دیتے رہتے ہیں ۔
اس سے بڑی لاپروائی کوئی ہوسکتی ہے کہ زمین سے 8فٹ نیچے کوچنگ سینٹر چل رہاتھا،جس کا گیٹ ٹوٹ کر بارش کا پانی بھرنے لگاتو بچے نہیں نکل سکے اور3 ڈوب گئے۔ نہ کوچنگ سینٹر یا طلبا نے اورنہ انتظامیہ نے سوچا کہ ہر وقت حادثہ کا خطرہ ہے۔ ایک چوک کا خمیازہ ان 3طلبا وطالبات کوبھگتناپڑا ، جن کے بہت بڑے خواب تھے۔ ان کے والدین نے اسی خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کیلئے انہیں دہلی بھیجا تھا اوران پر موٹی رقم خرچ کررہے ہیں ۔انہیں کیا معلوم کہ وہ خواب کے ساتھ خطروں سے کھیل رہے تھے۔اس میں کوئی شبہ نہیں یہ ایک بہت ہی افسوس ناک حادثہ ہے ، لیکن اس سے زیادہ لاپروائی نظر آتی ہے ۔بہر حال اس سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے ۔uql
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS