کانگریس میں نتن یاہو کا خطاب یا امریکی اخلاقیات کا زوال؟: ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ

0

ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ

امریکی صدر جو بائڈن کو ان کی پیرانہ سالی کی بناء پر دوسری بار عہدۂ صدارت کیلئے منتخب نہیں کیا گیا۔ سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے ساتھ ہوئے مناظرہ میں جو فضیحت ہاتھ آئی تھی اس کو مد نظر رکھتے ہوئے خود ڈیموکریٹس کے ارباب حل و عقد نے یہ محسوس کیا کہ جو بائڈن کو امیدواری عطا کرنا یقینی شکست کے مترادف ہوگا اور اسی لئے ان پر مسلسل دباؤ ڈالا گیا کہ وہ خود ہی اس مقابلہ سے باہر نکلنے کا اعلان کر دیں۔ جو بائڈن چونکہ اپنی ہٹ دھرمی کے لئے مشہور ہیں، اس لئے ڈیموکریٹس کے دباؤ کا ابتدائی مرحلہ میں کوئی زیادہ اثر نہیں پڑا، لیکن بائڈن کی ذہنی و جسمانی قابلیت پر جس قدر عدم اعتماد کی آواز بلند ہوتی گئی اسی قدر بائڈن کو اپنا مستقبل دور ہوتا نظر آیا اور آخر کار اس صہیونی امریکی صدر کو صدارتی انتخابات کی دوڑ سے باہر جانے کا اعلان کرنا ہی پڑا۔ جس وقت بائڈن نے دوڑ سے باہر ہونے کا اعلان کیا تھا اس وقت تک صہیونی ریاست کے وزیر اعظم نتن یاہو نے (جس کو بجا طور پر جنگی جرائم کا مجرم گردانا جاتا ہے) اپنے دورہ امریکہ کا اعلان کر دیا تھا کیونکہ اس کی تیاریاں کئی مہینوں سے جاری تھیں۔ بائڈن کے اعلان کے بعد نتن یاہو نے اپنے دورہ کے آغاز سے چند گھنٹے قبل جو بیان دیا تھا اس سے اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ کس قدر محتاط ہیں۔ شاید نتن یاہو کے اس بیان کا محرک ان کا یہ خیال رہا ہو کہ امریکہ کی کرسی صدارت پر اگلی بار کون متمکن ہوگا اس کی تصویر ابھی تک واضح نہیں ہے۔اگر جوبائڈن امیدوار ہوتے تو اس احتیاط کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ ڈونالڈ ٹرمپ کی جیت کے امکانات زیادہ روشن نظر آ رہے تھے اور ان سے ہی نتن یاہو کو عموما زیادہ امیدیں وابستہ رہتی ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ 2020 میں بائڈن کی جیت پر جب نتن یاہو نے انہیں مبارک باد دی تھی تو ڈونالڈ ٹرمپ نے نتن یاہو کے اس عمل کو ذاتی توہین کے درجہ میں رکھا تھا اور اسرائیلی وزیر اعظم کے لئے ‘‘F’’ لفظ کا استعمال کرکے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔ اس کے باوجود نتن یاہو پر امید تھے کہ ٹرمپ اگر جیت جاتے ہیں تو انہیں اور ریپبلکن پارٹی کا منا لینا کوئی مشکل کام نہیں ہوگا اور ان کا اپنا سیاسی مستقبل بھی محفوظ رہے گا، لیکن اب چونکہ میدان میں بائڈن کی جگہ کاملا ہیریس کی امیدواری کا قوی امکان بڑھ گیا ہے اس لئے نتن یاہو بہت احتیاط سے اپنی باتیں کہہ رہے ہیں تاکہ مستقبل میں ان کو پریشانیوں کا سامنا نہ کرنا پڑے تو کیا یہ سمجھا جانا چاہئے کہ امریکی سیاست اور اس کی خارجہ پالیسی میں اخلاقیات اور ان انسانی قدروں کے لئے اب بھی اتنی گنجائش باقی ہے کہ ایک جنگی مجرم کو محتاط رہنے کی ضرورت محسوس ہو؟ یا پھر بائڈن کی بوسیدہ عمر کی طرح امریکی اخلاقیات کو بھی گھن لگ چکا ہے اور اب ان میں اس کی سکت باقی نہیں رہی کہ وہ اپنی عظمت کا جھنڈا بلند رکھ پائے؟ اس نقطہ کو سمجھنے کے لئے ہمیں نتن یاہو کے اس خطاب کو سمجھنا ہوگا جو انہوں نے امریکی کانگریس میں گزشتہ ہفتہ دیا ہے۔ اس خطاب کو سننے کے بعد دنیا کا کوئی بھی مہذب معاشرہ اس بات پر یقین نہیں کرے گا کہ امریکہ ایک عظیم ملک اور صاحب عظمت عالمی قوت ہے۔ دنیا پر امریکہ کے دبدبہ کی بنیاد تین چیزوں پر قائم رہی ہے: اقتصادی قوت، عسکری قوت اور سوفٹ پاور جس میں کلچر سے متعلق تمام تر عناصر شامل ہیں۔ اس سوفٹ پاور میں امریکی اخلاقیات کو بڑی اہمیت حاصل رہی ہے۔ امریکہ نے ہمیشہ جمہوری قدروں، انسانی حقوق، مذہب و فکر کی آزادی، حقوق نسواں اور اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت جیسے نعروں کا استعمال کرکے اپنی برتری ثابت کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ انہی نعروں کا غلط استعمال کرکے نہ جانے کتنے ممالک کو تباہ کیا اور ان ملکوں کے عوام کے حقوق کو کھلے عام پامال کیا۔ ان دنوں فلسطینی عوام کے ساتھ جو کچھ کیا جا رہا ہے وہ اس کا بیّن ثبوت ہے۔ لیکن ان مظالم کے باوجود بھی امریکی دبدبہ قائم ہے۔ البتہ اب اس میں صرف شگاف ہی نہیں پڑ رہے ہیں بلکہ بڑے بڑے سوراخ پیدا ہوگئے ہیں جن سے امریکی پالیسی سازوں کی گھناؤنی شکلیں دنیا کے سامنے واضح ہوگئی ہیں۔ اس گھناؤنے امریکی اخلاق کا سب سے نمایاں پہلو وہ تھا جس کی بولتی چالتی تصویر دنیا نے امریکی کانگریس میں دیکھا جب نتن یاہو جیسے جنگی مجرم کو عزت و احترام کے ساتھ دعوت دی گئی اور امریکی کانگریس کے دونوں ایوانوں کے عوامی نمائندوں کو نتن یاہو کے خطاب کے لئے مدعو کیا گیا۔ حالانکہ سب اس بات کو جانتے تھے کہ نتن یاہو جس کا پورا وجود فلسطینی معصوموں کے خون سے لت پت ہے وہ اپنے لئے پروانی حمایت لینے آیا ہے تاکہ مزید فلسطینی زندگیوں کو خاک و خون میں تڑپاتا رہے اور وہ تمام اعلی قدریں جن کی دہائی امریکہ ہمیشہ دیتا رہتا ہے ان کو اپنے صہیونی جوتوں کے تلے روند ڈالے۔ اگرچہ سو سے زائد امریکی عوامی نمائندوں نے اس خطاب میں حصہ نہیں لیا اور یہودی عوامی نمائندہ سینیٹر برنی سانڈرز نے نتن یاہو کو دی گئی دعوت کی مخالفت بھی کی تھی اور انہیں جنگی مجرم گردانا تھا۔ اس کے علاوہ خود امریکی عوام کی بڑی تعداد نتن یاہو کی آمد اور کانگریس میں ان کے خطاب کے خلاف احتجاج کرنے کے لئے سڑک پر اتر آئی تھی اور جس ہوٹل میں نتن یاہو کو ٹھہرایا گیا تھا اس کے سامنے اپنی صدائے احتجاج بلند کرتے رہے اور نتن یاہو کو جنگی مجرم قرار دے کر رائے عامہ کو صہیونی پالیسی کی حقیقت سے آگاہ کرتے رہے، جس کا اثر یہ ہوا کہ نتن یاہو کو ہوٹل میں اپنے کمرہ کو بدلنا پڑا، لیکن امریکی نظام کی پالیسیوں میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ اس کے برعکس اس جنگی مجرم نے جب کانگریس میں موجود عوامی نمائندگان کو خطاب کرنا شروع کیا تو تالیوں کی گونج سے اس کا استقبال کیا گیا۔ نتن یاہو نے اپنے خطاب کا آغاز اس انداز میں کیا کہ انہوں نے امریکہ و اسرائیل کو تہذیب کا علمبردار قرار دیا اور فلسطین کے غیرت مند اور آزادی کے متوالے ارباب مقاومت کو بربریت کا نمائندہ گردانا۔ اس بات پر کانگریس کے اندر موجود امریکی سیاست دانوں نے خوب تالیاں بجائیں۔ پوری دنیا ان تالیوں کی شور پر دنگ تھی کہ ایک جنگی مجرم کو ایسا استقبال پیش کرکے امریکہ آخر کیا پیغام دینا چاہتا ہے؟ کیا نتن یاہو نے ٹھیک انہی اصطلاحات کا استعمال نہیں کیا تھا جن کے ذریعہ مغربی قوتوں نے ایشیا و افریقہ کو کئی صدیوں تک اپنے استعمار کے جال میں پھنسائے رکھا تھا اور جس سے آزادی کی بڑی قیمت الجزائر سے لے کر ہندوستان تک سب نے چکائی ہے؟ کیا امریکہ اب کھلے عام استعماری قوتوں کو نہ صرف تحفظ فراہم کر رہا ہے بلکہ اس استعماری نظام کو برقرار رکھنے کے لئے اسلحہ اور مال و زر سے بھی لیس کرنے کی پالیسی پر گامزن رہنے کا فیصلہ کر لیا ہے؟ اگر ایسی بات ہے تو پھر امریکی عظمت کا زوال اپنے آخری مرحلہ میں داخل ہوچکا ہے۔ اس میں اب کوئی شک باقی نہیں رہا کہ امریکہ اخلاقی اور تہذیبی طور پر زمیں بوس ہو چکا ہے کیونکہ ہمارے عہد میں دنیا کی کھلی آنکھوں کے سامنے امریکہ نے فلسطینیوں کے خلاف وحشیانہ جرائم کے ارتکاب میں خود کو اسرائیل کا شریک و ساجھی بنا لیا ہے۔ امریکہ کی یہ اخلاقی گراوٹ بائڈن کی بوسیدہ عمر کی طرح اس درجہ کو پہنچ چکی ہے کہ اس میں دوبارہ زندگی کی رمق پیدا نہیں کی جا سکتی ہے۔
برطانوی مورخ ارنولڈ ٹوینبی نے بجا طور پر کہا تھا کہ تاریخ میں اب تک جو تئیس تہذیبیں روئے زمین پر وجود میں آئی ہیں ان میں سے انیس تہذیبیں اس وقت تباہ ہوگئیں ،کیونکہ ان کی اخلاقی حالت ویسی ہوگئی تھی جیسی آج امریکہ کی ہے۔ امریکہ نے دنیا کی بہت سی قوموں اور تہذیبوں کو اپنی طاقت و عظمت کے زعم میں مٹایا ہے اور اس کی وجہ سے دنیا بھر میں اس کا وقار مسلسل گھٹتا رہا ہے، لیکن کانگریس میں نتن یاہو کو دعوتِ خطاب دے کر اس نے اپنے زوال کے تابوت میں اپنے ہی ہاتھوں سے آخری کیل ٹھونکنے کا کام کر دیا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ شب و روز میں ہی اس کی عظمت مٹ جائے گی لیکن سنت الٰہی اور تاریخ کے شواہد سے یہ طے ہوچکا ہے اب اس کی عظمت کی عمارت قائم نہیں رہ سکتی۔ uql
مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS