سرکاری ملازمین کو آر ایس ایس میں شمولیت کی ملی چھوٹ قومی مفادات کے منافی : ڈاکٹر سیّد احمد قادری

0

ڈاکٹر سیّد احمد قادری

ملک کی سیکولر کہی جانے والی بہار کی نتیش کمار کی پارٹی جنتا دل متحدہ اور آندھرا پردیش کی چندرا بابو کی پارٹی تلگو دیشم کی حمایت پر ٹکی مرکزی حکومت نے 9؍جولائی 2024کو بڑی خاموشی سے 58سال قبل یعنی 1966 میں قومی مفاد میں سرکاری ملازمین کو آر ایس ایس میں شامل ہونے پر جو پابندی عائد تھی،اسے ختم کر دیا ہے۔اس متنازع اور غیر آئینی فیصلہ پر اعتراض اور احتجاج فطری ہے ۔ لیکن افسوس کہ مرکزی حکومت کے پرسنل اینڈ ٹریننگ محکمہ کے اس غیر آئینی فیصلہ پر نتیش کمار اور چندرا بابو کا کوئی تاثریا بیان سامنے نہیں آیا ہے۔ طویل عرصہ سے راشٹریہ سیوئم سنگھ میں سرکاری ملازمین کی شمولیت پر لگی پابندی جو 1977 میں جنتا پارٹی کی بنی حکومت میں جن سنگھ نہیں کرا سکی ، 1998 میں اٹل بہاری واجپئی کی سربراہی میں بننے والی حکومت اور پھر خود مودی حکومت جو گزشتہ دس برسوں میں برسراقتدار ہے نہیں کر سکی ، وہ کام اب د و سیکولر جماعتوں کے ساتھ حکومت بنانے پر کر دکھایا ۔سچ تو یہ ہے کہ مذکورہ فیصلہ کی تو بھنک بھی نہیں لگتی اگر کانگریس پارٹی کے ترجمان جے رام رمیش سوشل میڈیا پر اس فیصلہ کا نوٹیفیکیشن دکھاتے ہوئے اس کی تنقید نہیں کرتے ۔اس فیصلہ پر سخت تنقید کرتے ہوئے آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ یہ فیصلہ ملک کی سا لمیت اور اتحاد کے منافی ہے ۔ انھوں نے اس متنازع راشٹریہ سیوئم سنگھ کے بارے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ یہ وہی سنگٹھن ہے جو آئین ،قومی پرچم اور قومی ترانے کو ماننے سے انکار کر چکی ہے ۔ اس متنازعہ تنظیم کا ہر رکن جو حلف لیتا ہے اس میں وہ ہندوتوا کو ملک سے اوپر رکھتا ہے ۔ کوئی بھی سرکاری ملازم اگر وہ اس تنظیم کی رکنیت اختیار کرتا ہے تو قوم کا وفادار نہیں ہو سکتا ہے ۔ کانگریس کے قومی صدر ملکارجن کھرگے نے بھی اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ اس فیصلہ سے سرکاری ملازمین کی غیر جانب داری متاثر ہوگی ۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ حکومت ہند کے اس فیصلہ سے ملک کا سیکولر آئین شدید طور پر متاثر ہوگا اور ملک کی شاندار تہذیبی و ثقافتی روایت بھی اثرانداز ہوگی ۔ اس غیر جمہوری فیصلہ کے مستقبل میں کتنے مضر اثرات مرتب ہوںگے ، اس کے تصور سے ہی لرزہ طاری ہوجاتا ہے ۔ ملک کے اندر تقریباََ چالیس لاکھ مرکزی ملازمین اور ایک کروڑ سے زائد ریاستی ملازمین میں یہ ضروری نہیں ہے کہ ان میں سے سب کے سب اس فیصلہ کے بعد متنازعہ راشٹریہ سیوئم سنگھ کے رکن بنیں گے یا اس کی شاکھاؤں میں شامل ہوںگے ۔پھر بھی جتنی بھی تعدادا میں شامل ہوںگے ،وہ سرکاری ملازمت میں شامل ہوتے وقت جو حلف ملک کے آئین کے تئیںوفاداری ، سا لمیت ، ایمانداری اور غیر جانب داری کا لیتے ہیں وہ پوری طرح اس کے منافی ہوگا ۔
راشٹریہ سیوئم سنگھ بہت ہی منظم اور متحرک ہندوتوا کی نظریہ والی تنظیم ہے۔ اس کی بنیاد ہی اکھنڈ بھارت میں ہندو راشٹر قائم کرنے کے لئے 27 ؍ ستمبر 1925 کو ناگپور میں ڈاکٹر کیشو بلی رام ہیڈگوار نے ڈالی تھی ۔ شروع سے ہی یہ تنظیم متنازعہ رہی ہے ۔کہنے کو یہ خود کو قوم پرست تنظیم بتاتی ہے ۔لیکن دراصل یہ ایک فاشسٹ تنظیم ہے ۔ جس کے فرقہ وارانہ حرکت و عمل کی پاداش میں اس تنظیم پر برطانوی حکومت نے ایک بار اور آزادیٔ ہند کے بعد تین بار پابندی لگا ئی جا چکی ہے ۔ ناگپور میں اپنے قیام کے دو سال بعد ہی 1927 میں اسے ناگپور ہی میں فرقہ وارانہ فساد کرانے کا مرتکب پایا گیا تھا۔ اس کے بعد تو ملک کے مختلف حصوں میں فرقہ وارانہ فسادات میں اس تنظیم کی شمولیت رہی ہے ۔ جس کے ثبوت فسادات کے بعد قائم ہونے والی انکوائری کمیشن کی وہ رپورٹیں ہیں جن میں اس تنظیم کی شمولیت کو خاص طور پر نشان زد کیا گیا ۔ مثال کے طور پر 1969 میں احمد آباد فساد پر جگموہن رپورٹ ،1970 میںبھیونڈی فساد پر ڈی پی ماڈن رپورٹ، 1971 میں تلشیری فساد پر وتا یاتیل رپورٹ،1979 میںجمشید پور فساد پر جتندر نرائن کی رپورٹ، 1982میں کنیا کماری فساد پر وینو گوپال کی رپورٹ ، 1989 میں بھاگلپور فساد پر جسٹس این این سنگھ کی رپورٹ ۔ راشٹریہ سیوئم سنگھ کے خلاف ایسی رپورٹوں سے تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں ۔ مالیگاؤںبم دھماکہ ، حیدرآباد مسجد بم دھماکہ ، اجمیر بم دھماکہ ، سمجھوتہ ایکسپریس بم دھماکہ وغیرہ ایسے نہ جانے کتنے دھماکے ہیں جو اس تنظیم کے نام سے منسوب ہیں ۔ مہاتما گاندھی کے قتل کی وجہ یہ تھی کہ مسلمانوں کے ساتھ ان کی ہم آہنگی تھی ۔ جو اس تنظیم کو ناگوار خاطر ہوا ،جس کی پاداش میں انھیں قتل کیا گیا ۔ قتل کے بعد ملک کے پہلے وزیر داخلہ سردار ولبھ بھائی پٹیل نے راشٹریہ سیوئم سنگھ پر پابندی عائد کر دی تھی ۔ بعد میں جبکہ مقدمہ میں اس تنظیم کو اس الزام سے بری کر دیا گیا تو گوالکر نے پنڈت نہرو کو راشٹریہ سیوئم سنگھ پر سے پابندی ہٹانے کیلئے خط لکھا ۔جس کے جواب میں نہرو نے لکھا تھا کہ یہ کام وزیر داخلہ سردار پٹیل کا ہے ان سے رجوع کیا جائے اور جب پٹیل سے گزارش کی گئی تو انھوں نے گوالکر کے سامنے شرط رکھ دی کہ وہ عوامی طور پر ہندوستان کے آئین سے اپنی وفاداری کا اعلان کریں ، انڈیا کے قومی پرچم ترنگے کو قبول کریں اور اپنی تنظیم میں اصلاحات لائیں ۔ یہ سب ایسے حقائق ہیں جو راشٹریہ سیوئم سنگھ کے عزائم کو واضح کرتا ہے ۔ راشٹریہ سیوئم سنگھ میں سرکاری ملازمین کی شرکت کے لئے کھولے گئے دروازے دراصل وزیر اعظم مودی کی راشٹریہ سیوئم سنگھ کی ناراضگی دور کرنے کی ایک کوشش کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے ۔ اس لئے کہ نریندر مودی نے راشٹریہ سیوئم سنگھ کی سیاسی پارٹی بھارتیہ جنتا پارٹی کو مودی پارٹی میں بدل دیا تھا اور وہ اس قدر خوش فہمی کے شکار ہو گئے تھے کہ انھیں لگنے لگا تھا کہ بی جے پی کو ہر بڑی کامیابی صرف ان ہی کے چہرہ اور مقبولیت کی وجہ سے مل رہی ہے ۔ اس تکبر کا اظہار وہ خود تو نہیں کر سکے،بلکہ اپنے اعتماد خاص جے پی نڈا سے یہ بیان دلوایا کہ اب بی جے پی کو آر ایس ایس کی ضرورت نہیں ہے ۔ اس بیان کے پیچھے چھپے عزم پر راشٹریہ سیوئم سنگھ خیمہ میں زبردست ناراضگی دیکھی گئی جس کے اثرات بی جے پی کی شکست کی شکل میں سامنے آئی اور انتخاب کے نتائج کے بعد راشٹریہ سیوئم سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت نے اپنی خفگی کا اظہار عوامی طور پر بھی گورکھ پور کے ایک جلسہ میںیہ کہہ کر کیا کہ ’کچھ لوگ بھگوان بننا چاہتے ہیں ایسے لوگوں کو چاہئے کہ غرور چھوڑ کر پہلے انسان بنیں ۔۔۔۔۔‘ ۔اس وقت تک مودی جی بری طرح بیک فٹ پر آ چکے تھے ۔ لہٰذا راشٹریہ سیوئم سنگھ کو خوش کرنے کیلئے اپنے دونوں حلیف پارٹیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے سرکاری ملازمین کو سنگھ میںشامل ہونے والی پابندی ہٹا کر ایک تحفہ دے کر خوش کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اگلے سال راشٹریہ سیوئم سنگھ کے قیام کے سوبرس پورے ہونے والے ہیں ۔ا ب دیکھنا ہے کہ ا س خصوصی موقع پر پی ایم مودی سنگھ کو کس طرح کا عظیم تحفہ دیتے ہیں ۔uql
( کالم نگار سینئر صحافی اور معروف ادیب ہیں )
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS