خان حبیبہ اکرام
آج اگر غور و فکر سے اپنے آس پاس دیکھا جائے تو جس طرح انگلش اکیڈمک کانوینٹ اسکولوں میں منمانے ڈھنگ سے فیس وصول کر گارجین کو خوب لوٹا جا رہا ہے، اب اسی طرح اسلامک نام والے اسکولوں میں بھی منمانے ڈھنگ سے فیس کے نام پر موٹی رقم لی جا رہی ہے اور حد تو تب ہوتی ہے جب وہاں کا تعلیمی نظام اور نظم و نسق بھی بد سے بدتر ہوتا جا رہا ہے، ساتھ ہی بچوں کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کیا جا رہا ہے آج اسکولی تعلیم صرف مذاق بن کر رہ گئی ہے، اب اسکول اپنے فائدے کے لئے اسکول میں ہی کتابیں، جوتے، کپڑے بیگ دستیاب کرا رہے ہیں جس کے ذریعے اسکول کو زیادہ سے زیادہ منافع حاصل ہو رہا ہے بلکہ یہ کہا جائے تو مناسب ہوگا کہ اسکول جس کے ذریعے دین و دنیا کی تعلیم مقصود تھی اب وہ علم و ادب اور تعلیم وتربیت کا گہوارہ فقط تجارت کا ذریعہ بن گیا ہے اور یہاں تعلیم و تعلم کا اب کوئی مقصد ہی نہیں رہ گیا ہے، مقصد اولیں مفقود ہوتی جا رہی ہے اسکولوں میں ڈیجیٹل تعلیم دینے کے نام پر والدین سے موٹی موٹی رقمیں وصولی جا رہی ہیں۔ مزید انہیں بتایا جا رہا ہے کہ ہم آپ کے بچوں کو بہتر سے بہتر تعلیم اور تعلیمی ماحول دے رہے ہیں حالانکہ ایسا کچھ نہیں ہوتا ہے پڑھائی کے نام پر زیرو فیصد تعلیم دی جا رہی ہے۔
ہمارے سماج میں اسلامک اسکول کا رواج بھی بہت زوروں سے چل رہا ہے جس میں وعدہ کیا جاتاہے کہ اردو،عربی کے ساتھ ساتھ ہم انگلش، ریاضی ،سائنس،کی بھی تعلیم دیں گے جبکہ سب کچھ اس کے برعکس ہوتا ہے وہ بس اردو کی ہی تعلیم دیتے ہیں انگلش کا دور دور تک کوئی رشتہ ہی نہیں ہوتا ہے جبکہ والدین اپنے بچوں کو اس لیے اسلامک اسکول میں داخلہ دلاتے ہیں تاکہ ان کے بچے دین اور دنیا دونوں کی تعلیم حاصل کر سکیں پر وہ جو ان کا خواب ہوتا ہے یہ کبھی پورا نہیں ہو تا کیونکہ اسکول بس والدین کے ساتھ دھوکہ دہی کر رہے ہوتے ہیں، والدین ان سب چیزوں کے بارے میں معلومات رکھنے کے باوجود بھی کوئی قدم نہیں اٹھاتے۔ ان کو لگتا ہے کہ اگر ہم اس پر سوال اٹھائیں گے تو ہمارے بچوں کو کہیں فیل نہ کر دیا جائے۔ اسلامک اسکول میں فیس سب سے زیادہ ہوتی ہے کچھ ایسے بھی والدین ہیں جن کے گھر کے حالات خراب ہوتے ہیں تو وہ فیس کی ادائیگی وقت پر نہیں کر سکتے، اگر یہ بات پرنسپل یا ٹیچر کو بولی جائے تو وہ ذرا سی بھی سہولت دستیاب نہیں کرتے ہیں بس ان کو ان کی فیس سے مطلب ہوتا ہے کیا اسکول کا انتظامیہ اتنا بھی بچوں کے لیے نہیں کر سکتا۔ دور حاضر میں تعلیم اتنی مہنگی ہو گئی ہے کہ والدین اپنے بچوں کو ایک بہترین اور اعلی تعلیم نہیں دے سکتے اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ اسکول کی فیس آسمان کی بلندیوں کو چھو رہی ہے جس سے نپٹنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔کچھ اسلامک اسکول تو ایسے بھی ہیں جو آج کل ایپ کے ذریعے تعلیم دے رہے ہیں۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ ہر چیز اگر ایپ کے ذریعے پڑھائی جائے گی تو ہم اپنے بچوں کو اسکول کیوں بھیجیں، اگر ساری چیزیں اسکول سے ہی خریدنی ہے تو ہم بہترین تعلیم کے لیے اپنے بچوں کو کہاں بھیجیں؟ اتنی مہنگی کتابیں منگاتے ہیں جب کہ وہاں پر پڑھائی کے نام پر کچھ نہیں ہوتا ہے اگر یہ ایسا ہی چلتا رہا تو آنے والے دنوں میں بچوں کا مستقبل کیا ہوگا اس پر کوئی بات کیوں نہیں کرتا؟۔
مارکیٹ میں ایسے بھی اسکول موجود ہیں یہ مثال کے طور پر مہاراشٹر بورڈ ہے لیکن بچوں کو تعلیم سی بی ایس سی بورڈ کا کتابیں سی بی ایس کی ہونے کے باوجود طلبا کو مہنگی دیتے ہیں۔ مطلب یہ کہ جو کتاب مہاراشٹرا بورڈ کی جانب سے پرائیویٹ اسکولوں میں 60/ روپئے میں ملتی ہے اب وہی کتاب سی بی ایس سی بورڈ کو 100/ روپئے میں خریدنی پڑتی ہے کیا یہ بچوں کے تعلیم اور مستقبل دونوں کے ساتھ بھدا مذاق نہیں ہو رہا ہے یا والدین کے ساتھ دھوکہ دہی نہیں کر رہے ہیں،ایسے اسلامک اسکولوں میں منمانے طریقے سے کب تک زبردستی فیس لی جائے گی اور والدین کب تک خاموشی اختیار کیے رکھیں گے، لہٰذا بچوں کے والدین نیز تمام مسلم تنظیموں،اسلامک اسکولوں کے انتظامی امور دیکھنے والے ارکان، توجہ دیں اور علماء کرام و ائمہ ان سب باتوں سے لوگوں کو آگاہ کریں اور مذکورہ معاملات کو مد نظر رکھتے ہوئے ساری خامیاں دور کریں تاکہ ہمارے معاشرے میں تعلیم کے نام پر والدین کو دی جارہی دھوکہ سے روکا جا سکے اور بچوں کے مستقبل سے کھلواڑ بند کیا جا سکے ۔
rvr
اقلیتی اسکولوں میں تاجر انہ روش کا افسوسناک فروغ : خان حبیبہ اکرام
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS