ڈاکٹر جاوید عالم خان
لوک سبھا کے عام انتخابات کے بعد 23 جولائی کو مرکزی وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے مالی سال 2024-25 کے لئے مکمل بجٹ پیش کیا ہے۔ اس بجٹ میں انھوں نے ملک کے سامنے درپیش مسائل جیسے کہ مہنگائی، معاشی غیر برابری اور بیروزگاری کو دور کرنے کے لئے کچھ خاص اعلانات تو نہیں کئے ہیں۔ حالانکہ حکومت کو یہ احساس ہے کہ بیروزگاری کو دور کرنا نہایت ہی ضروری ہے اور اس مسئلے کے حل کیلئے حکومت کچھ نئی اسکیموں کے ذریعہ ساری ذمہ داری پرائیویٹ سیکٹر کی کمپنیوں پر ڈالنا چاہتی ہے۔ اس بجٹ میں کچھ اہم اعلانات بہار اور آندھراپردیش کو مالی تعاون دینے کے بارے میں بھی کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ٹیکس ڈھانچے میں تبدیلی کے بارے میں کچھ باتیں کہی گئی ہیں۔ مزید دلتوں، آدی واسیوں، عورتوں، نوجوانوں کو معاشی طورپر بااختیار بنانے پر بھی زور دیا گیا ہے۔ حالانکہ بجٹ تقریر کے دوران وزیر خزانہ نے اقلیتوں کے ترقی سے متعلق کوئی ذکر نہیں کیا ہے۔ اقلیتوں کے لئے مجموعی بجٹ 3183 کروڑ روپے مختص کیا گیا ہے جوکہ عبوری بجٹ کے برابر ہے۔ عبوری بجٹ پیش کرنے کے دوران وزارت برائے اقلیتی امور کا مجموعی بجٹ پہلے ہی گھٹ کر 3183 کروڑ روپے ہوگیا تھا جوکہ مالی سال 2022-23 میں 5020 کروڑ روپے تھا۔ بجٹ تخفیف کے بارے میں مرکزی وزارت برائے خزانہ کا یہ کہنا تھاکہ ضلعی اور صوبوں کے سطح پر نافذ کی جارہی اسکیمیں بہتر ڈھنگ سے مختص بجٹ خرچ نہیں کر پارہی ہیں اسی لئے مرکزی وزارت برائے اقلیتی امور کے بجٹ میں تخفیف کی گئی ہے۔ دراصل مجموعی بجٹ تخفیف کی اہم وجہ کئی ساری اقلیتی اسکیموں کو بند کردینا ہے جیسے کہ پری میٹرک اسکالرشپ جو پہلے درجہ 1 سے 10 تک دی جارہی تھی وہ اب 9 اور 10 کے طلباء کو ہی فراہم کی جارہی ہے۔ مدرسہ جدید کاری اسکیم، مولانا آزاد فیلوشپ، نئی اڑان اور مولانا آزاد فاؤنڈیشن کو مکمل طور سے بند کردیا گیا ہے۔ ان ساری وجوہات کی بنا پر اقلیتی امور کی وزارت کا بجٹ 2022-23 کے مقابلے لگ بھگ 40 فیصد گھٹ گیا ہے۔ موجودہ بجٹ کے تجزیہ سے پتا چلتا ہے کہ دلتوں، آدی واسیوں اور معذوروں سے متعلق وزارتوں اور شعبوں کے بجٹ میں اس سال بہت زیادہ اضافہ تو نہیں کیاگیا ہے لیکن ان کے بجٹ کو گھٹایا بھی نہیں گیا ہے۔ دلتوں اور آدی واسیوں کی وزارت کے بجٹ میں بالترتیب 13000.20 اور 13000 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں، حالانکہ ان وزارتوں اور شعبوں کی اسکیموں میں بجٹ خرچ کی صورتحال ابھی بھی بہت زیادہ بہتر نہیں ہے۔
اقلیتی طبقے کو یہ امید تھی کہ 23 جولائی کو مکمل بجٹ پیش کرنے کے وقت مرکزی وزیر خزانہ اپنی تقریر میں ملک کے عوام کے سامنے 2047 تک ہندوستان کو وکست بھارت بنانے کا ایجنڈا ضرور پیش کریں گی لیکن وکست بھارت کے اعلانات میں ملک کی کل آبادی میں 20 فیصد اقلیتی طبقے کی ترقی کے بارے میں کوئی ذکر نہیں کیا گیا ہے اور اقلیتوں کے بجٹ کا تناسب مجموعی بجٹ میں اس سال مزید گھٹ کر .06 فیصد سے بھی کم ہوگیا ہے۔ یہاں تک کہ موجودہ مختص بجٹ پچھلے 10سالوں میں سب سے کم ہے۔ 2022-23 میں وزارت برائے اقلیتی امور کے مختص بجٹ کے اخراجات کے تجزیہ سے پتا چلتا ہے کہ کل مختص بجٹ 5020 کروڑ روپے کی جگہ حقیقی خرچہ 803 کروڑ روپے ہی کیا گیا ہے جوکہ مختص بجٹ کا 16 فیصد ہے۔
اقلیتی وزارت کی اہم اسکیموں میں پردھان منتری جن وکاس کاریہ کرم، پوسٹ میٹرک اسکالرشپ، پری میٹرک اسکالرشپ، فری کوچنگ اسکیم اور میرٹ کم مینس اسکیم کے کل بجٹ مختص میں بجٹ اخراجات کا فیصد بالترتیب 13 فیصد، 6 فیصد، 3 فیصد، 32 فیصد اور 10 فیصد تک ہو پایا ہے اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اقلیتوں کیلئے ترقیاتی اسکیموں کا نفاذ بہتر ڈھنگ سے نہیں کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے ان کی تعلیمی اور اقتصادی پسماندگی کو دور کرنے میں مدد نہیں ملے گی۔ اقلیتوں کیلئے ہمہ جہتی ترقی کیلئے 2006 میں مرکزی حکومت کے ذریعے دو طرح کی پالیسی حکمت عملی کا آغاز کیا گیا تھا جن کو ہم اقلیتوں کی ترقی کیلئے وزیراعظم کا 15 نکاتی پروگرام اور ملٹی سیکٹورل ڈیولپمنٹ پروگرام کے نام سے جانتے ہیں۔ مرکزی حکومت کے مطابق 15 نکاتی پروگرام کے تحت اقلیتی طبقہ کے لئے مختلف وزارتوں کے ذریعے چلائی جارہی کئی اسکیموں میں 15 فیصد بجٹ بھی مختص کیا جارہاہے اور ساتھ ہی اس پروگرام کے تحت 15 فیصد مستفیدین کا ہدف بھی رکھاگیا ہے۔ ان تمام دعوؤں کے باوجود مرکزی وزیر خزانہ نے اس سے متعلق کوئی اعدادوشمار اس بجٹ میں پیش نہیں کئے ہیں اور اقلیتیں مرکزی برائے اقلیتی امور کے ذریعہ نافذ کی جارہی اسکیموں پر پوری طرح سے منحصر ہیں۔ اس وقت جن اسکیموں سے اقلیتیں 100 فیصد فائدہ اٹھا سکتی ہیں ان میں سے کچھ اہم اسکیمیں جیسے کہ پری میٹرک اسکالرشپ اسکیم، پوسٹ میٹرک اسکالرشپ اسکیم، میرٹ کم مینس اسکیم، پردھان منتری جن وکاس کاریہ کرم، نیشنل مائنارٹیزڈیولپمنٹ فائنانس کے ذریعہ لون اسکیم اور پردھان منتری وراثت کا سموردھن شامل ہیں۔ بجٹ کے تجزیہ سے معلوم ہوتا ہے 15 نکاتی پروگرام کے تحت اسکیموں میں اقلیتوں کیلئے مختص بجٹ کو سرکاری سطح پر رپورٹ نہیں کیا جارہاہے اور ساتھ ہی فائدہ اٹھانے والوں کی تعداد کے بارے میں مکمل طور سے اعدادوشمار عوامی سطح پر مہیا نہیں کرائے جارہے ہیں۔
بجٹ کے تجزیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جن اسکیموں سے 100 فیصد اقلیتی طبقہ فائدہ اٹھا رہا ہے ان میں سے ایک اہم اسکیم نیشنل مائنارٹیز ڈیولپمنٹ فائنانس کارپوریشن ہے لیکن موجودہ بجٹ میں اس ادارے کے مختص فنڈ میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا ہے جبکہ حکومت کے ذریعہ پیش کی گئی حالیہ تجزیہ رپورٹ کے مطابق این ایم ڈی ایف سی کے تحت 8300 کروڑ روپے کا لون 22.5 لاکھ مستفدین کو فراہم کرایا گیا ہے اس کے تحت فائدہ اٹھانے والے لوگوں میں 85 فیصد عورتیں ہیں۔ یہ ادارہ اقلیتوں کے پسماندہ طبقے کی سماجی، تعلیمی اور اقتصادی صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے قائم کیاگیا تھا، اس اسکیم کے تحت پیشہ ورانہ گروپ اور عورتوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔
2023-24 کے بجٹ میں مرکزی حکومت نے پردھان منتری وکاس سموردھن اسکیم کا آغاز کیا جس کے تحت 540 کروڑ روپے مختص کئے گئے تھے۔ حالانکہ 2024-25 کے بجٹ میں اس اسکیم کے تحت بجٹ تخمینہ اور نظرثانی بجٹ شدہ بجٹ میں تخفیف کردی گئی ہے۔ اس اسکیم میں ہنرمندی، انٹرپرینیورشپ اور صنعت کاروں کو مالی اور تکنیکی سہولتیں مہیا کرائی جائیں گی۔ یہ اسکیم اسکل انڈیا مشن کے اشتراک میں کام کرے گا۔ اسکیم کے تحت 2025-26 تک 9 لاکھ لوگوں کو فائدہ حاصل ہوگا۔ چونکہ اس اسکیم کو 2023-24 میں شروع کیاگیا تھا اس لئے اس کے نفاذ کی صورتحال کا بہتر جائزہ لینا مشکل ہے اس لئے اس اسکیم کے تحت اعدادوشمار سرکاری سطح پر مکمل طور پر مہیا نہیں کرائے گئے ہیں۔
اقلیتی اکثریتی بلاک، ٹاؤن اور ضلع ہیڈکوارٹر میں سماجی اور اقتصادی انفرااسٹرکچر کو مضبوط بنانے کیلئے پردھان منتری جن وکاس کاریہ کرم کا نفاذ کیاجارہاہے۔ 2022-23 میں اس اسکیم کی گائڈ لائن میں تبدیلی کی گئی ہے اور اس کے تحت پروجیکٹ کی منظوری اقلیتوں کی ضرورتوں کی بنیاد پر دی جائے گی جہاں پر (15 کلومیٹر کے دائرے میں) 25 فیصد اقلیتوں کی آبادی رہتی ہے۔ 2023-24 میں اس اسکیم کے تحت مختلف طرح کے پروجیکٹس کی منظوری دی گئی ہے جس میں اسکول کی عمارت، رہائشی اسکول، ہاسٹل، آئی ٹی آئی، اسکل سینٹر، ہاسپٹل، صحت کے مراکز، سدبھاؤنا منڈپ، کمیونٹی ہال، اسپورٹس کمپلیکس اور کام کرنے والی خواتین کے لئے ہاسٹل۔ اس اسکیم کے تحت مختص بجٹ کا استعمال پوری طرح سے نہیں کیاجارہاہے۔ 2022-23 میں اس اسکیم کے تحت 1650 کروڑ روپے مختص کئے گئے تھے لیکن حکومت کے ذریعے پیش کیے گئے نظرثانی شدہ تخمینہ کے مطابق صرف 500 کروڑ روپے مختلف منصوبوں کو جاری کئے گئے ہیں اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بجٹ 2023-24 میں جن وکاس کاریہ کرم کیلئے صرف 600 کروڑ روپے ہی مختص کئے گئے تھے۔ اگرچہ موجودہ بجٹ (910 کروڑ روپے) میں اس اسکیم میں اضافہ تو ضرور ہوا تھا مگر 2023-24 کے نظرثانی شدہ بجٹ میں اخراجات مزید کم ہوگئے ہیں۔
موجودہ بجٹ میں مرکزی حکومت نے وزارت برائے اقلیتی امور کے بجٹ کو بڑھانے کے بجائے گھٹا دیا ہے۔ اس سے اقلیتوں کی سماجی، تعلیمی اور اقتصادی ترقی کو فروغ دینے میں رکاوٹ آئے گی۔ اس بجٹ سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت اقلیتوں کو وکست بھارت کی مہم میں شامل کرنے میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتی ہے۔ اقلیتوں اور خصوصاً مسلمانوں کی تعلیمی اور اقتصادی پسماندگی کو دیکھتے ہوئے وزارت برائے اقلیتی امور کے بجٹ میں اضافہ کرکے دلتوں اور آدی واسیوں کے مختص بجٹ کے برابر رکھنا ضروری ہے۔ 2022-23 میں اقلیتی وزارت کی جن اسکیموں کو بند کیا گیا تھا ان کو بحال کرنا نہایت ضروری ہے۔ اسکالرشپ اسکیموں میں اہلیت، مالی تعاون کی مقدار اور کوٹہ یا اسکالرشپ کے نمبرات میں 2008 سے کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے اسلئے اس میں مزید اصلاح کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم کے 15 نکاتی پروگرام کو دلتوں اور آدی واسیوں کیلئے چلائے جارہے سب پلان کے طرز پر شروعات کی گئی تھی لیکن اس کے نفاذ کی صورتحال بہت خراب ہے۔ لہٰذا 15 نکاتی پروگرام کے بہتر نفاذ کیلئے مختص بجٹ میں اضافہ اور مانیٹرنگ کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
(مضمون نگار انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اینڈ ایڈووکیسی سے وابستہ ہیں۔)
[email protected]