محمد عباس دھالیوال
اسرائیل اور حماس کے درمیان لگ بھگ ساڑھے نو ماہ سے جاری جنگ کے دوران اب تک غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق تقریباً 39 ہزار افراد جام شہادت نوش فرما چکے ہیں، جبکہ ان شہداء میں بچوں اور خواتین کی بڑی تعداد شامل ہے۔اسی بیچ خبر رساں ایجنسی ’رائٹرز‘کے مطابق چین کے سرکاری ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ بیجنگ میں 21 سے 23 جولائی تک فلسطینیوں کے مختلف گروہوں کے درمیان مذاکراتی عمل جاری رہا جس کے نتیجے میں بعدازاں گزشتہ منگل کے دن فریقین نے ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔اس سلسلے میں چینی سرکاری ٹی وی ’سی جی ٹی این‘ کے مطابق بیجنگ میں ہونے والے مذاکراتی عمل میں فلسطینیوں کے 14 گروپوں نے شمولیت کی جن میں ایک دوسرے کے حریف حماس اور فتح کے رہنما بھی شریک ہوئے تھے۔
موصولہ خبروں کے مطابق حماس کے سینئر رہنما موسیٰ ابو مرزوق اور فتح گروپ کے رہنما محمد ال علولی سمیت دیگر 12 فلسطینی دھڑوں کے نمائندوں نے مذاکراتی عمل میں شرکت کی۔ جبکہ اس سلسلے میں چینی وزیرِ خارجہ وانگ ژی نے کہا کہ فلسطینی تنظیموں نے غزہ جنگ کے بعد عبوری قومی مصالحتی حکومت کے قیام پر اتفاق کیا ہے۔
چین کے توسط سے ہوئی مذکورہ ملاقات کے بعد حماس کے رہنما نے چینی وزیرِ خارجہ اور فلسطینی تنظیموں کے رہنماؤں سے ملاقات کے بعد بات کرتے ہوئے کہا کہ آج ہم نے قومی اتحاد کے ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں جسے ہم اتحاد کے سفر کو مکمل کرنے کا راستہ کہہ سکتے ہیں۔اس کے ساتھ ہی معاہدے پر دستخط کی تقریب کے بعد چینی وزیرِ خارجہ نے کہا کہ مصالحت فلسطینی دھڑوں کا اندرونی معاملہ ہے لیکن بین الاقوامی تعاون کے بغیر مصالحت کے فوائد حاصل نہیں کیے جا سکتے۔ان کے مطابق منگل کو ہونے والے مذاکراتی عمل میں مصر، الجیریا اور روس کے سفیر بھی موجود تھے۔ اس سلسلے میں چینی میڈیا میں بھی مذکورہ قرارداد کو لے کر مضمون لکھے گئے ہیں۔ اس ضمن میں چینی میڈیا میں جہاں اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری حالیہ تنازع کے حوالے سے اہم بیانات سامنے آئے ہیں وہیں اسی بیچ واشنگٹن کے کردار کو لے کر چین کی جانب سے لگاتار تنقید کی جاتی رہی ہے۔ چنانچہ اس تناظر میں گلوبل ٹائمز اخبار نے چینی سفارتی دعوؤں کو تقویت دی کہ مغرب کی جانب سے بیجنگ پر سنکیانگ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام لگانا ’منافقانہ‘ ہے جبکہ ’غزہ کے لوگوں کے مسائل پر کوئی نظر نہیں۔‘ اخبار نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ امریکہ اپنے ’ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس‘ کے ذریعے جنگ سے فائدہ اٹھا رہا ہے اور اپنی بالادستی برقرار رکھنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بیجنگ کی جانب سے اسرائیل کے لیے ’یکطرفہ حمایت‘ کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا، حالانکہ حالیہ مضامین میں واشنگٹن کے اسرائیل پر محدود کنٹرول اور اس پر قابو پانے میں ناکامی پر بھی تنقید کی گئی ہے۔جبکہ وانگ ژی کے مطابق چین مشرقِ وسطیٰ میں استحکام اور امن کے لیے تعمیری کردار ادا کرنے کا خواہش مند ہے۔ انہوں نے غزہ میں جامع اور طویل المدت جنگ بندی کا مطالبہ بھی کیا۔
یہاں قابل ذکر ہے کہ حماس اور فتح کے رہنما رواں برس اپریل میں بھی چین میں اکٹھے ہوئے تھے اور فریقین نے 17 سال سے جاری اختلاف کے خاتمے اور اعتماد کی بحالی کے لیے مذاکرات کیے تھے۔حماس اور فتح کئی سالوں سے ایک دوسرے کے حریف ہیں۔ دونوں دھڑوں کے درمیان کئی خون ریز تصادم بھی ہوئے جب کہ غزہ سے فتح کی بے دخلی اور 2006 کے انتخابات میں کامیابی کے بعد حماس نے غزہ میں اپنی خودساختہ حکومت قائم کر لی تھی جب کہ فتح مقبوضہ مغربی کنارے کے ایک حصے پر حکومت کر رہی ہے۔جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ حماس اور اسرائیل کے تنازع میں مصر ایک مرکزی ثالثی کی حیثیت رکھتا ہے جب کہ الجیریا اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن ہے جس نے غزہ جنگ بندی سے متعلق حال ہی میں ایک قرارداد بھی پیش کی تھی۔فریقین کے درمیان جنگ بندی کے لیے امریکہ، قطر اور مصر کی ثالثی میں کئی بار مذاکرات کے دور ہو چکے ہیں۔ تاہم ہر بار فریقین ایک دوسرے پر الزامات لگا کر مذاکراتی عمل سے پیچھے ہو جاتے ہیں۔
ادھر چینی دفترِ خارجہ کی ہفتہ وار پریس بریفنگ میں چینی وزارت خارجہ کی ترجمان ماؤ ننگ نے اعلامیے میں ’سب سے اہم کامیابی‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) فلسطینی عوام کی ’واحد نمائندہ‘ ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ ’مذاکرات کی سب سے اہم اور نمایاں بات غزہ کی جنگ کے بعد کی حکومت کے لیے عبوری قومی مصالحتی حکومت کے قیام پر اتفاق رائے ہے۔‘اعلامیے میں فلسطینی عوام کے حقوق کی حمایت، تقسیم کے خاتمے کے لیے چین کی مخلصانہ کوششوں کو سراہا گیا اور اس بات پر زور دیا گیا کہ اقوام متحدہ کے زیرِ اہتمام علاقائی اور بین الاقوامی شرکت کے ساتھ ایک بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا جانا چاہئے۔
مذکورہ ملاقات کے دوران جو اعلامیہ طے پایا ہے اس میں مندرجہ ذیل نکات شامل تھے:
uاقوام متحدہ کی متعلقہ قراردادوں کے مطابق یروشلم کے دارالحکومت کے ساتھ ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیامuغرب اردن، یروشلم اور غزہ سمیت فلسطین کی علاقائی سالمیت کو برقرار رکھناuتمام فلسطینی گروہوں کے اتفاق رائے اور موجودہ بنیادی قانون کے مطابق ایک عبوری قومی مصالحتی حکومت کی تشکیلuغزہ کی تعمیرِ نو اور منظور شدہ انتخابی قانون کے مطابق جلد از جلد عام انتخابات کی تیاری۔
اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ منظور شدہ انتخابی قانون کے مطابق ایک نئی قومی کمیٹی تشکیل دی جائے گی اور مشترکہ سیاسی فیصلے کرنے کے لیے ایک عارضی متحد قیادت تشکیل دی جائے گی۔
[email protected]