پنکج چترویدی
ایک سینگ کے گینڈے اور رائل بنگال ٹائیگر یعنی شیر کے محفوظ ٹھکانوں کے لیے مشہور، یونیسکو کے ذریعہ محفوظ قرار دیے گئے کازیرنگا نیشنل پارک کے تقریباً 90فیصد حصے میں اس وقت پانی بھر گیا ہے۔ جانور محفوظ ٹھکانوں کی تلاش میں گہرے پانی میں تھک کر مایوس ہونے کی حد تک تیرتے ہیں، دوڑتے ہیں، دلدلی زمین پر تھک کر ڈھے جاتے ہیں۔ یا تو پانی انہیں اپنی آغوش میں لے لیتا ہے یا پھر بھوک۔ کچھ بچ کر بستی کی طرف دوڑتے ہیں تو سڑک پر تیز رفتار گاڑیوں کی زد میں آجاتے ہیں تو ہاگ ہرن (پاڑہ) جیسے مویشی شکاریوں کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں۔ سیلاب کے پانی میں ڈوبنے سے اب تک 10 ایک سینگ والے نایاب گینڈوں سمیت 200 جنگلی جانوروں کی موت ہوگئی ہے۔ ان میں 179 ہاگ ہرن، 3 دلدل ہرن، ایک مکاک، 2 اودبلاؤ، ایک اسکوپس اُلو اور دو سانبھر ہرن شامل ہیں۔ دو ہاگ ہرنوں کی موت نیشنل ہائی وے پار کرنے کی کوشش کرتے وقت گاڑیوں کی زد میں آنے سے ہوگئی۔ یہ اعداد و شمار تو ان علاقوں سے ہیں، جہاں پانی نیچے اترچکا ہے۔
آسام کی راجدھانی گواہاٹی سے تقریباً 225کلومیٹر دور گولاگھاٹ اور ناگاؤں ضلع میں 884مربع کلومیٹر میں پھیلے کازیرنگا پارک کی خاص بات یہاں ملنے والا ایک سینگ کا گینڈا ہے۔ اس نسل کے ساری دنیا میں دستیاب گینڈوں کا دوتہائی اسی علاقے میں ملتا ہے۔ اس کے علاوہ شیر ، ہاتھی، ہرن، جنگلی بھینسا، جنگلی بنیلا جیسے کئی جانور یہاں کے نیچر کا حصہ ہیں۔ واضح رہے کہ 1905میں وائسرائے لارڈ کرژن کی بیوی نے اس علاقے کا دورہ کیا تو یہاں محفوظ جنگل کی تجویز رکھی گئی جو 1908میں منظور ہوئی۔ 1916میں اسے شکار کے لیے محفوظ علاقہ قرار دیا گیا۔ 1950 میں وائلڈ لائف سینکچوری، 1968میں نیشنل پارک، 1974میں عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا گیا۔ یہاں کا حیاتیاتی تنوع منفرد ہے۔ 41فیصد علاقے میں اونچی گھاس ہے، جو ہاتھی، ہرن کے لیے بہترین آسرا ہے۔ 29 فیصد پیڑ، 11فیصد چھوٹی جھاڑیاں ہیں۔ 8 فیصد علاقے میں ندیاں اور دیگر آبی ذخائر اور 4 فیصد میں دلدلی زمین یعنی ہر طرح کے جانور کے لیے مناسب مسکن، کھانا اور ماحول۔ تبھی تو حالیہ مویشی شماری میں یہاں 2413 گینڈے، 1089 ہاتھی، 104 شیر، 907 ہاگ ہرن، 1937 جنگلی بھینسے وغیرہ جانور پائے گئے تھے۔ گزشتہ کچھ برسوں میں یہاں نگرانی بھی سخت ہوئی، اس لیے شکاری نسبتاً کم کامیاب رہے۔
حالانکہ اس بار بارش معمول کے مطابق ہی ہے۔ پھر بھی بہت بڑے دریائے برہمپتر کے جنوبی سیلاب سے متاثرہ علاقے میں واقع کازیرنگا کے جانوروں کے لیے قہر بن کر آئی ہے۔ ویسے یہاں 2016 میں تقریباً ڈیڑھ ہیکٹیئر رقبہ والے 140 ایسے اونچے ٹیلے بنائے گئے تھے جہاں وہ پانی بھرنے کی صورت میں محفوظ ٹھکانہ بنا سکیں۔ یہ ٹیلے 4سے 5میٹر اونچائی کے ہیں۔ پارک کے اندر واقع 183 محفوظ ٹھکانوںمیں سے 70زیرآب آچکے ہیں۔ سیلاب کی وجہ سے مختلف جنگلات میں واقع 233 فاریسٹ کیمپوں میں سے 56 ابھی بھی سیلاب کے پانی کی زد میں ہیں۔ بوکاہاٹ اور وشوناتھ فاریسٹ سرکل کے آگرٹولی، کوہورا، باگوری، بورا پہاڑ کے علاقے میں کئی کئی فٹ گہرا پانی ہے۔ یہاں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ پانی سے بچنے کے لیے جانور نیشنل ہائی وے 37 پر آجاتے ہیں اور یہاں تیز رفتار گاڑیوں کی زد میں آجاتے ہیں۔ حالانکہ انتظامیہ گاڑیوں کی رفتار کی مقررہ حد کے سلسلے میں الرٹ جاری کرتا رہتا ہے لیکن موسلادھار بارش میں ان کو کنٹرول کرنا مشکل ہوتا ہے۔
ویسے اس محفوظ پارک میں جانوروں کے ٹہلنے کے لیے 8 روایتی راستوں کو محفوظ رکھا گیا ہے، لیکن سیلاب کے پانی نے سب کچھ تہس نہس کردیا ہے۔ اس محفوظ جنگل کے دوسرے کنارے پر کاربی آنگ لانگ کا پٹھار ہے۔ صدیوں سے جانور برہمپتر کے غضب سے بچنے کے لیے یہاں پناہ لیتے رہے ہیں اور اس بار بھی جنہیں راستہ ملا وہ وہیں بھاگ رہے ہیں۔ بدقسمتی سے وہاں ان کا انتظار دوسرے قسم کی مصیبت کرتی ہے۔ اس پورے علاقے میں کئی دہشت گرد گروہ سرگرم ہیں اور ان کا بنیادی دھندہ جانوروں کے اعضا کی اسمگلنگ ہے۔ اس میں سرفہرست گینڈے کا سینگ ہے۔ واضح ہوکہ ایک گینڈے کے سینگ کا وزن ایک کلو تک ہوتا ہے اور اس کی مقامی قیمت کم سے کم اسّی لاکھ ہے۔ یہ سینگ یہاں سے دیماپور، چوڈاچندپور کے راستہ میانمار اور وہاں سے ویتنام اور چین تک پہنچتا ہے اور جہاں اس کی قیمت 3 کروڑ تک ہوتی ہے۔ دہشت گرد گروہ اس کے بدلے اسلحہ اور نشیلی اشیا بھی لیتے ہیں۔
آسام میں قدرتی وسائل، انسانی وسائل اور بہترین جغرافیائی حالات ہونے کے باوجود یہاں کی خاطرخواہ ترقی نہ ہونے کی وجہ سے ہر سال پانچ ماہ دریائے برہمپتر اپنی بھیانک شکل میں ہوتا ہے جو پلک جھپکتے ہی حکومت اور سماج کی پورے سال کی محنت کو ضائع کر دیتا ہے۔ جن جانوروں کو بڑے ہونے، محفوظ ٹھکانہ بنانے میں برسوں لگ جاتے ہیں، ان کا ٹھکانہ تھوڑی سی بارش میں غیر محفوظ نظر آتا ہے۔ ویسے تو یہ دریا صدیوں سے بہہ رہا ہے۔ سیلابی علاقے نے ہی اسے کازیرنگا نیشنل پارک کے لائق مفید بنایا ہے۔ لیکن گزشتہ کچھ برسوں سے اس کی تباہی کی بھیانک شکل سامنے آرہی ہے۔ اس کی بڑی وجہ قدرتی جنگلات میں ڈیولپمنٹ اور مینجمنٹ کے نام پر انسان کے تجربات بھی ہیں۔
گزشتہ کچھ برسوں میں جس طرح سے برہمپتر اور اس کی معاون ندیوں میں سیلاب آرہا ہے، وہ ہمالیہ کے گلیشیئر علاقے میں ماحولیات کے ساتھ چھیڑچھاڑ کا ہی نتیجہ ہے۔ جانوروں کی زندگی سے مقامی لوگوں کو کوئی سروکار نہیں ہے، نہ ہی ان کی موت پر کسی کے ووٹ بینک پر کوئی اثر پڑتا ہے، لہٰذاکازیرنگا کی قدرتی ندیوں، آبی گزرگاہوں پر کہیں سڑکیں تعمیر کردی جاتی ہیں تو کہیں ان میں سیاحوں کے مطابق رکاوٹیں پیدا کی جاتی ہیں۔ تبھی جہاں سے پانی بہہ کر جانا چاہیے، وہاں وہ جمع ہو جاتا ہے۔
سیلاب کے پانی کے کازیرنگا کے جنگلوں میں زیادہ ٹھہرنے کا ہی نتیجہ ہے کہ 1915 سے ابھی تک اس جنگل کی تقریباً 150 مربع کلومیٹر زمین کٹ کر ندی میں مل چکی ہے۔ کبھی کازیرنگا کی شان کہے جانے والے اری مورا فاریسٹ انسپیکشن بنگلے کو تو ابھی 6سال پہلے ہی دریا اپنے ساتھ بہا کر لے گیا تھا۔ جنگل کی زمین کا سب سے تیز اور خطرناک کٹاؤ آگرٹولی رینج میں ہے۔ حکومت بھلے ہی اس جنگل کے رقبے کو بڑھانے کے لیے نئے علاقے شامل کر رہی ہو، لیکن حقیقت یہی ہے کہ وہاں کی زمین سال درسال کم ہورہی ہے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ دریا کے کنارے کے تقریباً 20 کلومیٹر علاقے میں پکے مضبوط پشتے یا دیگر انتظامات کرکے زمین کے کٹاؤ کو روکا جائے۔ کئی بار زمین کھسکنے سے بھی جنگلی جانوربے وقت موت کی نذر ہو جاتے ہیں۔
بارش، سیلاب تو قدرتی آفت ہے لیکن اس میں پھنس کر اتنی بڑی تعداد میں جانوروں کا مارا جانا سسٹم کی ناکامی ہے۔ اس جنگل کی حفاظت کرنے والے لوگوں کے لیے کبھی 11 اسپیڈ بوٹ بھی خریدی گئی تھیں، آج ان میں سے ایک بھی دستیاب نہیں ہے۔
کازیرنگا محفوظ جنگل دریائے برہمپتر کے جس علاقے میں ہے وہاں سیلاب کو روکا نہیں جاسکتا۔ یہ حکومت کو دیکھنا ہوگا کہ پانی کس طرف تیزی سے بڑھتا ہے، جانوروں کو کس طرح محفوظ مقام پر لے جائیں، ان کے کھانے اور صحت کی حفاظت کیسے کی جائے، اس پر ایک طویل مدتی منصوبہ بنانا ضروری ہے، کیونکہ جنگل میں دوسرا خطرہ پانی اترنے کے بعد شروع ہوتا ہے جب دلدل میں اضافہ ہو جاتا ہے، خشک مسکن بچتا نہیں، مرنے والے جانوروں کے سڑنے سے پانی آلودہ ہوجاتا ہے۔
[email protected]