بنگلہ دیش احتجاج: اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا

0

پڑوسی ملک بنگلہ دیش ایک بار پھر غیر معمولی ہنگامہ آرائی اور سیاسی تشدت کا شکار ہے۔ موجودہ ہنگامہ حکومت کی اس پالیسی کا نتیجہ ہے جس کے تحت مجاہدین آزادی یا قیام بنگلہ دیش میں اہم کردار نبھانے والے رضا کاروں کی اولادوں کوریزرویشن کا التزام ہے۔ گزشتہ 15دن سے اس معاملہ پر ملک گیر سخت احتجاج ہورہے ہیں اگرچہ یہ صورت حال ریزرویشن کے نئے احکامات کو لے کر ہے لیکن اس تنازع کی جڑیں تاریخ میں پیوست ہیں۔ حکومت ان احکامات کے ذریعہ اپنے ان حامیوں اور سیاسی ورکروں کو مراعات سے فیضیاب کرنا چاہتی ہیں جو اس کے نظریات کو فروغ دینے والے ہیں۔
خیال رہے کہ بنگلہ دیش کی سیاست 1970کی دہائی کے آوائل سے ہی غیر معمولی تبدیلیوں سے متاثر رہی ہے۔ قیام بنگلہ دیش کے بعد ملک میں پاکستان سے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے خلاف تحریک چلانے والے ایسے طبقات کے خلاف سخت ناراضگی ہے جو قیام بنگلہ دیش کے خلاف تھے۔ مشرقی پاکستان یعنی بنگلہ دیش جو ایک زمانے میں غیر منقسم ہندوستان کا حصہ تھا ۔ قیام پاکستان کے بعد جغرافیائی سیاسی، لسانی اور ثقافتی اختلاف کی وجہ سے یہ پورا خطہ اسلام آباد سے دور ہوتا چلا گیا اور آخر کار یہ فیصلہ بڑھتے بڑھتے اتناعمیق ہوگیا کہ ایک نیا ملک بنگلہ دیش معرض وجود میں آیا۔
بنگلہ دیش کی مختصر سی تاریخ خون خرابے پر مشتمل رہی ہے اور پاکستان کے سیاسی خاندان اس پورے منظر نامے پر حاوی رہے ہیں۔ بیگم خالدہ ضیا اور حسینہ واجد کے درمیان یہ کشمکش آج بھی پورے ملک کو اپنی زد میں لیے ہوئے ہیں۔ 2008سے مسلسل اقتدار میں بنی ہوئی حسینہ واجد کی سیاسی جماعت کی گرفت اس قدر مضبوط ہوگئی ہے کہ اپوزیشن پارٹیوں کے لیے اپنے وجود کو برقرار رکھنا مشکل ہوتا جار ہا ہے۔ شیخ حسینہ واجد کی سیاسی پارٹی نے آئین میں تبدیلی کرکے اقتدار میں اپنے قبضے کو مستحکم بنا یا ہے اور ایسا نظام قائم کردیا ہے کہ فی الحال ایسالگتا ہے کہ بنگلہ دیش صرف ایک ہی سیاسی جماعت اور خاندان کا ملک بن گیا ہے۔
موجودہ تنازعات اسی پرانی سیاسی رقابتوں پر مشتمل ہے۔ اپوزیشن پارٹیوں کو لگتا ہے کہ حسینہ واجد پورے سیاسی نظام پر کنٹرول کرنے کے بعد اپنے اقتدار کی گرفت اور مضبوط کرنے اور سماج کو ماضی کے فرسودہ نظام پر برقرار رکھنے کی کوشش کررہی ہیں۔ سیاسی ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم نافذ کرنے کا مقصد اپنی پارٹی سے نرم گوشہ رکھنے والے سیاست دانوں ، افسران اور رضاکاروں کو استحکام فراہم کرنا ہے۔ طلبا کو لگتا ہے کہ اس حسینہ واجد نے اس قسم کا اعلان کرکے معاشرے کو مزید اندھیری کھائی میں دھکیل دیا ہے۔ بنگلہ دیش میں گزشتہ تقریباً 15دن کے وقفہ کے دوران تشدد میں مرنے والوں کی تعداد سیکڑوں میں پہنچ گئی ہے۔ اگرچہ یہ لگتا ہے کہ یہ احتجاج صرف طلبا کا ہے اور اس دوران پولیس کارروائی میں مرنے والے زیادہ تر نوجوان اور طلبا ہی ہیں مگر جیسا کہ اوپر کے سطور میں بتایا گیا ہے کہ یہ احتجاج انتخابات کے دوران احتجاج کی طرح ہی سیاسی اور سماجی رخ اختیار کرگیا ہے۔ اس وقت شیخ حسینہ واجد کی قیادت والی سرکار نے پورے ملک کا انتظامی ڈھانچہ آرمی کے سپر دکردیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ فوجیں عوام کی جان اور ان کی اثاثوں کی تحفظ کریں گی مگر حقیقت یہ ہے کہ اس مختصر سے احتجاج میں جتنی بڑی تعداد میں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان لقمہ اجل بنے ہیں اس نے سماج میں گہرے زخم چھوڑے ہیں اب احتجاج کرنے والے طلبا ان کی تنظیمیں اور احتجاج سے وابستہ دیگر طبقات نے اپنے مطالبات کی فہرست کو طویل کردی ہے اور حکومت بنگلہ دیش سے ان سانحات اور اموات کی ذمہ داری قبول کرنے اور معافی مانگنے کا مطالبہ کیا ہے۔
احتجاج کرنے والے سیاست داں اور طلبا یونین کے لیڈروں نے مطالبہ کیا ہے کہ وزیر داخلہ اور وزیر ٹرانسپورٹ کے علاوہ وہ تمام لوگ جو کہ ان فسادات کو بڑھاوا دینے اور پولیس کو زیادہ سے زیادہ اختیار دینے کے لیے ذمہ دار ہیں ۔ اپنی عہدوں سے استعفیٰ دیں اور اپنی ذمہ داری قبول کریں۔ مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ جس طرح کی بربریت آمیز کارروائی پولیس افسران نے کی ہے اس کے لیے ان کی بھی ذمہ داری طے ہونی چاہیے اور جن احتجاجوں میں طلبا ہلاک ہوئے ہیں ان مظاہروں کی نگرانی کرنے والے افسران کو عہدوں سے برطرف کیا جائے۔ ڈھاکہ یونیورسٹی ، جہانگیر نگر ، راج شاہی یونیورسیٹیوں کے وائس چانسلرو ںکو برخاست کیا جائے۔ جن لوگوں کی جان گئی ہے ان کے لواحقین کو اس کا معاوضہ دیا جائے ۔
ایک اہم مطالبہ یہ بھی ہے کہ بنگلہ دیش کی حکمراں پارٹی کے اسٹوڈنٹ یونین بنگلہ دیش چھاتر لیگ کو ممنوع قرار دیا جائے۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کی ایما پر ہی بنگلہ دیش چھاتر لیگ نے پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر احتجاج کو پرتشدد بنایا ہے۔ بنگلہ دیش میں فی الحال امن قائم ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ہے ۔ عوام اور حکومت کے درمیان فاصلہ بڑھتا جارہا ہے جس سے حالات کی بہتر ہونے کی امید دکھائی نہیں دے رہی ہے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS