سنگھ کو مودی حکومت کا تحفہ

0

سرکاری ملازمین پر راشٹریہ سویم سیوک سنگھ(آر ایس ایس) کی سرگرمیوں میں حصہ لینے پر عائد پابندی ختم کر دی گئی ہے۔ اب ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے کی تحریک چلانے والی سنگھ کی سرگرمیوں کو سیکولر جمہوریہ ہند کے آئین کاحلف اٹھانے والی بیوروکریسی کی مکمل اور کھلے عام مدد حاصل ہوگی۔ ہندو راشٹر کا غیر آئینی منصوبہ جمہوریہ ہند کی انتظامیہ کے تعاون سے پروان چڑھے گا۔ اب کسی مسند نشیں جج کو سنگھ کادست تعاون تھامنے کیلئے سبکدوشی کا انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔ تیسری معیاد کارکے ابتدائی ایام میں وزیراعظم نریندر مودی کا یہ فیصلہ ہندوستان کی جمہوریت اور سیکولرکردار پر کتنا اثرا نداز ہوگا، اس کا صرف تصور ہی کیاجاسکتا ہے۔
وزیراعظم مودی اور بھارتیہ جنتاپارٹی چاہے جو کہیں آر ایس ایس اپنی ہیئت اور ساخت کے لحاظ سے ایک نیم عسکری تنظیم ہے جو بزور طاقت ہندوستان سے اقلیتوں کے خاتمہ پر یقین رکھتی ہے۔اس تنظیم کے بانی اور ربع صدی تک اس کے سربراہ رہنے والے ایم ایس گولوالکر خود اس نظریہ کی وضاحت کرتے ہوئے اپنی کتاب ’ وی آر آور نیشن ہوڈ ڈیفائنڈ‘ میں زور دیا ہے کہ ہندوستان ہندوؤں کا ملک ہے اور یہاں کی اقلیتوں کے ساتھ وہی سلوک کیا جانا چاہیے جیسا کہ نازیوں نے یہودیوں کے ساتھ کیا تھا۔اپنے نظریہ کی تشہیر اور تبلیغ میں یہ تنظیم کتنی کامیاب رہی ہے، اس کا اثر اترپردیش، مدھیہ پردیش اور اتراکھنڈ جیسی ریاستوں میں کانوڑ یاترا کے دوران مسلمانوں کو نشان زد کرنے کی مہم سے کیاجاسکتا ہے۔ اس تنظیم کی ’کارگزاریوں‘ میں بابائے قوم مہاتما گاندھی کے قتل کی سازش بھی شامل ہے اور اسی بناپراس وقت کے وزیرداخلہ سردار ولبھ بھائی پٹیل نے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس ) پر پابندی لگادی تھی۔اس کی سرگرمیاں غیر قانونی قرار پائی تھیں اور ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے والوں کو گرفتار کرلیا جاتا تھا۔ توازن برقرار رکھنے کیلئے جماعت اسلامی ہند کی سرگرمیاں بھی غیر قانونی قرار پائی تھیں پھر بعد میں اس پابندی کو حکومت نے مشروط طریقہ سے واپس لے لیاتھا۔1966میں اندراگاندھی کے دور حکومت میں ’ گائو ذبیحہ‘ کے نام پر آگ بھڑک اٹھی، کافی بدامنی پھیلی، خطرہ تھا کہ اس پر قابو نہیںپایاگیا تو پورا ملک اس کی لپیٹ میںآجائے گا۔تحقیقات ہوئیں تو پتہ چلا کہ اس آ گ کو ایندھن آرایس ایس فراہم کررہاہے جس کے بعد احتیاطی اقدام کے تحت سرکاری ملازمین پر آر ایس ایس میں شامل ہونے پر سخت پابندی عائد کردی گئی۔
سردارولبھ بھائی پٹیل جسے وزیراعظم نریندر مودی اپنا رول ماڈل قرار دیتے ہیں، نے بیوروکریسی یا سرکاری ملازمین کو ’اسٹیل فریم آف انڈیا‘ کہاتھا۔ یعنی سول سروس سے توقع کی جارہی تھی کہ وہ اسٹیل کے ڈھانچے کے طور پر کام کرے گا جو آئین اور قانون کی حکمرانی قائم رکھتا ہے۔ اس کیلئے یہ ضروری تھا کہ ذات پات یا مذہب کی تنگ نظری سے آزاد رہیں۔یہ پابندی اس وقت بھی جاری رہی جب 1977 میں آرا یس ایس کی سیاسی ونگ جن سنگھ حکومت میں شامل ہوئی، اس وقت بھی جاری رہی جب اٹل بہاری واجپئی کی قیادت میں 1998 میں این ڈی اے کی حکومت بنی۔یہاں تک کہ وزیراعظم نریندر مودی کی مطلق اکثریت کے ساتھ پہلی دو میعاد، یعنی دس برسوں کی حکمرانی میں اس پابندی کو ہٹانے کا کوئی ذکر سننے میں نہیں آیا۔ لیکن جنتادل متحدہ اور تیلگو دیشم جیسی ’سیکولر ‘ پارٹیوں کی مدد سے ہاتھ آئی تیسری میعاد کار کے ابتدائی ایام میں ہی سنگھ کو سرکاری ملازمین کاباقاعدہ سرکاری تحفہ دے کر یہ بتادیا ہے کہ انتخابی مہم کے دوران بڑے فیصلوں کے تعلق سے ان کی کہی گئی باتیں ہوائی نہیں تھیں۔
وزیراعظم مودی کا یہ فیصلہ ایک تیر سے دو نشانہ لگانے جیسا ہے کہ ایک طر ف تو ملک سے جمہوریت کے خاتمہ کاخواب مکمل ہوگا اور ہندوتوکی بنیاد پرستی کو حکومت کی افرادی قوت حاصل ہوگی۔ 40 لاکھ مرکزی ملازمین اور ایک کروڑ سے زیادہ سرکاری ملازمین سنگھ میں شامل ہوکرفعال طور پر کام کریں گے اوراس کے نظریات کو استحکام ملے گا، دوسری جانب آر ایس ایس کیلئے یہ ایک ایسا تحفہ بھی ہے جس کے بارے میں وہ چند مہینے پہلے تک سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ کیوں کہ انتخابی مہم کے دوران بی جے پی کے اس وقت کے صدر جے پی نڈا اور نریندر مودی یہ تاثر دے رہے تھے کہ اب بی جے پی کو آرا یس ایس کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کے ایسے بیانات سے بی جے پی -آرا یس ایس تعلقات میں سردمہری آگئی تھی لیکن پابندی ہٹاکر مودی حکومت نے اس سردمہری کو گرم جوشی میں بدل دیا ہے اور سنگھ کے خیمہ میں شادیانے بجائے جارہے ہیں۔
قومی مفاد کے خلاف کیے گئے اس فیصلہ سے سنگھ کا غیرآئینی منصوبہ ضرور پروان چڑھے گا لیکن یہ فیصلہ ہندوستان میںجمہوریت کیلئے انتہائی خطرناک ہے۔یہ فیصلہ ملک کی سالمیت اور اتحاد پر اثرانداز ہوگااورانتظامیہ کے اندر سیکولرازم کے اصول و روایت کے خاتمہ کا سبب بنے گا۔اپوزیشن نے بجا طور پر کہاہے کہ آر ایس ایس کا ہر رکن ہندوتو کو ملک سے اوپررکھنے کا حلف لیتاہے۔ اگر کوئی سرکاری ملازم آر ایس ایس کا رکن ہے، تو وہ ملک کا وفادار نہیں ہو سکتا۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS