محمد فاروق اعظمی
امید ہے کہ اب آگ بجھ جائے گی۔ وہ آگ جو پڑوسی ملک بنگلہ دیش میں لگی ہوئی ہے۔ سرکاری ملازمتوںمیں کوٹہ سسٹم میں اصلاحات کے مطالبہ پرشروع ہوئی طلبہ کی تحریک سے نپٹنے کیلئے حکمرانوں کا تکبر اور غرور اس آگ کا ماخذ بنا ہوا ہے ۔ پولیس اور سیکورٹی فورسز کی مسلح مزاحمت کے علاوہ حکمران جماعت کے کارکنان اور حامی مظاہرین کا مقابلہ کرنے کے لیے کود پڑے ہیں۔یہ آگ اب تک 150سے زائد افراد کونگل چکی ہے ۔زخمیوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے۔ اسی طرح گرفتاریوں کی تعداد کئی ہزار ہے۔خاص طور پر راجدھانی ڈھاکہ، جہانگیر نگر، چٹاگانگ شہروں کی یونیورسٹیوں کے قریب کا علاقہ خوفناک شکل اختیار کر چکا ہے۔ تحریکیں، ناکہ بندی اوراحتجاج پرتشدد ہوچکا ہے ۔ یہ تحریک ریزرویشن کیلئے نہیں ہے بلکہ نوکریوں میں ریزرویشن ہٹانے کے مطالبے کیلئے ہے۔ اگرچہ اس تحریک کی قیادت اس ملک کے طلبا کر رہے ہیںلیکن یہ الزام لگایا گیا ہے کہ مختلف حکمراں مخالف قوتوں نے صورتحال کا فائدہ اٹھایا ہے۔ ان کا مقصد طلبہ کے غصے سے فائدہ اٹھانا اور حکومت کا تختہ الٹنا ہے۔ دوسری جانب یہ بھی الزام ہے کہ حکمراں جماعت کی طلبہ تنظیم نے مظاہرین کو سبق سکھانے کیلئے پولیس اور سیکورٹی اہلکاروں کے ساتھ مل کر آمنے سامنے جھڑپیں بھی کی ہیں۔ صورتحال انتہائی پیچیدہ ہو چکی ہے۔احتجاج، جھڑپیں، ناکہ بندی، آتش زنی، فائرنگ اور موت کا ننگا نارچ جاری ہے ۔مرنے والوں میں زیادہ تر طالب علم ہیں۔ تمام تعلیمی ادارے بند کر دیئے گئے ہیں،مقامی اور لمبی دوری کی ٹرینیں منسوخ کر دی گئی ہیں۔ افواہوں کو روکنے کیلئے ملک میں انٹرنیٹ خدمات بھی معطل کر دی گئی ہیں۔ جس کے نتیجے میں بنگلہ دیش کا پوری دنیا سے رابطہ عملاً منقطع ہے۔ بنگلہ دیش کی حکومت نے کرفیو لگاکر فوج کو تعینات کر دیاہے ۔ اس ملک میں تعلیم حاصل کرنے یا کام کرنے والے ہندوستانیوں سمیت دیگر ممالک کے شہریوں نے اپنی جان کے خوف سے ملک چھوڑنا شروع کر دیا ہے۔اقوام متحدہ نے بنگلہ دیش کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان کے انسانی حقوق کے شعبے کے سربراہ نے ایک پیغام میں کہا کہ طلبا پر حملے کسی صورت قبول نہیں کئے جا سکتے‘ یہ حملے ’حیرت انگیز‘ہیں اور ان کی غیر جانبدارانہ اور مکمل تحقیقات کی جانی چاہئے۔
نوکریوں کے بازار میں گہرے بحران کے درمیان، تعلیم یافتہ بچوں کیلئے سرکاری نوکری حاصل کرنے کا خواب ہندوستان کی طرح ہی بنگلہ دیش میں عام ہے، لیکن سرکاری المیہ یہ ہے کہ زیادہ ملازمتیں کوٹے کے ذریعے کم اہل افراد کے پاس چلی جاتی ہیں۔ ان حالات میں طلبا کا ناراض ہونا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔بنگلہ دیش میں ریزرویشن کا نظام ہندوستان سے مختلف ہے۔ بنگلہ دیش میں سول سروس کا آغاز 1972 میں ہوا۔ ابتدائی طور پر ان میں سے 30 فیصد ملازمتیں ’ مکتی واہنی‘ کے خاندانوں کیلئے مختص تھیں۔ 10 فیصد ملازمتیں ان خواتین کیلئے تھیں جنہوں نے جدوجہد آزادی کی وجہ سے اپنا سب کچھ کھو دیا تھا۔ کئی اضلاع میں 40 فیصد مختلف قبائل کیلئے اور باقی 20 فیصد میرٹ کے امیدواروں کیلئے رکھا گیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس میں تبدیلی آئی لیکن ’میرٹ‘ کوٹا 45 فیصد سے آگے نہ بڑھ سکا۔بنگلہ دیش میں آزادی کے بعد 1972سے سرکاری ملازمتوں میں ریزرویشن کا نظام چل رہا ہے۔ پھر 2018 تک مختلف اصلاحات کے بعد سرکاری ملازمتوں میں ریزرویشن کی کل شرح 56 فیصد رہی۔بنگلہ دیش 1971 میں آزاد ہوا اور اس طرح اسے 53 سال مکمل ہو رہے ہیں۔ نئی نسل کا اس تحریک آزادی کے ہیروز سے کوئی جذباتی لگاؤ باقی نہیں رہا۔ جدوجہد میں حصہ لینے والی نسل آج زندہ نہیں ہے اور انہیں ریزرویشن کا کافی فائدہ مل چکا ہے۔ اس لئے مظاہرین کا کہنا ہے کہ اس معاملے کو یہیں ختم کیا جائے۔اب بنگلہ دیش میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری کی وجہ سے وہاں ریزرویشن مخالف تحریک بھڑک اٹھی ہے۔تحریک کا بنیادی مطالبہ سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم میں اصلاحات کرنا ہے۔ اس مطالبے پر تحریک نئی نہیں اس سے پہلے بھی کئی بار تحریک ہو چکی ہے۔ لیکن مسئلہ بروقت، منصفانہ اور عقلی انداز میں حل نہیں ہوا۔ بلکہ تحریک کے دباؤ میں 2018 میں حسینہ حکومت نے نسلی اور معذور کوٹہ برقرار رکھتے ہوئے دیگر تمام تحفظات کو منسوخ کرنے کا اعلان کیاتھا۔حسینہ حکومت کے اس اقدام کے خلاف ہائی کورٹ میں مقدمہ دائر کیا گیا۔ جن لوگوں نے یہ مقدمہ دائرکیاتھاان کا تعلق بنیادی طور ’مکتی واہنی‘ کے خاندان سے ہے۔ 5 جون2024 کو ہائی کورٹ نے حسینہ واجد حکومت کے فیصلے کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے 56 فیصد کوٹہ سسٹم واپس لے لیا۔جس کی وجہ سے تحریک تیز ہوئی اور حکومت نے تحریک کے خلاف جبر کا استعمال کرتے ہوئے اسے پرتشدد بنادیا۔
ایک جمہوری ملک میں ایسا نہیں ہوناچاہئے۔ تحریک پرامن اور جمہوری ہونی چاہئے ۔حکومت اور حکمران جماعت کو بھی زیادہ تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ اگر دونوں طرف تحمل اوربرداشت کا مظاہرہ کیاجاتا تو تشدد اتنا وسیع نہ ہوتا اور نہ اتنا جانی نقصان ہوتا۔ 54 سال قبل جنگ آزادی کے ذریعے ملک کی آزادی کے بعد ملک کے سماجی و اقتصادی حالات بہت بدل چکے ہیں۔ جن کیلئے کوٹہ تھا ان کی حالت بھی بہت بدل چکی ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ موجودہ حالات پر بات چیت کرکے کوئی حل نکالا جائے۔ معاملے کو سیاسی تصادم کا ہتھیار بنانا درست نہیں۔ ایک جمہوری ملک کو انصاف اور مساوات کی بنیاد پر ترقی کرناچاہئے اوراس میں شہریوں کے کسی بھی حصے کو ترقی کے ثمرات سے محروم نہیں رکھاجاناچاہئے۔ ہاں کوٹہ ہوسکتا ہے۔ لیکن وہ حقیقت پسندانہ اور شفاف ہونا چاہئے ۔جیسا کہ عوامی جمہوریہ بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں مقرر کیا ہے ۔ یعنی سرکاری ملازمتوں میں 93 فیصد بھرتیاں میرٹ کی بنیاد اور باقی 7فیصد میں سے 5فیصد آزادی پسند کوٹہ، ایک فیصد اقلیتی کوٹہ اور ایک فیصد معذورافراد اور تیسری جنس کا کوٹہ ہوگا۔اب حسینہ حکومت کو چاہئے کہ وہ عدالت کے اس فیصلہ کو تسلیم کرتے ہوئے اس سلسلے میںفوری طور پر نوٹیفکیشن جاری کرے اور بنگلہ دیش میں لگی ہوئی آگ کو بجھانے کاعملی اقدام کرے۔
[email protected]