امریکہ: کس سمت جارہی ہے صدارتی الیکشن کی مہم

0

کوئی مانے یا نہ مانے مگر یہ حقیقت ہے کہ اس وقت امریکہ کی سیاست میں تہلکہ مچا ہوا ہے۔ پچھلے دنوں سابق صدر اور ایک بار پھر منتخب ہونے کے لئے انتخابی مہم میں مصروف ڈونالڈ ٹرمپ کی جان لینے کی کوشش نے امریکہ کی سماج میں غیرمعمولی اتھل پتھل پیدا کردی ہے۔ جوبائیڈن جوکہ اپنی ضعیف العمری اور خبط الحواثی کی وجہ سے کئی عوامی پروگراموں میں یہ ظاہر کرچکے تھے کہ وہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت کے سب سے بڑے سربراہ کی حیثیت سے فٹ نہیں ہیں۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے کئی مرتبہ ان کے اسی رویہ اور سلوک کی وجہ سے عوامی پروگراموںمیں ان کا مذاق اڑایا ہے۔ اس کے بعد امریکہ میں زورشور سے یہ بات اٹھنے لگی کہ شاید موجودہ امریکی صدر اس پوزیشن میں نہیں ہیںکہ وہ الیکشن لڑ سکیں۔ کئی لیڈروںنے جن میں خودان کی پارٹی کے لیڈر بھی شامل تھے، جوبائیڈن کو ڈیموکریٹک پارٹی کا نمائندہ امیدوار نہ بنانے کا مطالبہ سر عام کیا تھا۔ ڈونالڈ ٹرمپ کی نکتہ چینی کے بعد پارٹی کے اندراور باہر جوبائیڈن کی صحت کو لے کر سوالات اورشدت سے ابھرنے لگے تھے۔ بعض ماہرین ان کے طبی معائنہ اور حاضردماغی کا ٹیسٹ کرانے تک کی بات کرنے لگے تھے خود انہوں نے اشارہ دیا تھا کہ اگر ان کے خود کے ڈاکٹروںنے اس ضمن میں کوئی مشورہ دیا تو وہ اپنا ٹیسٹ کراسکتے ہیں۔ اسی دوران ڈیموکریٹک پارٹی کے اندر یہ بات زور شور سے اٹھنے لگی کہ جوبائیڈن ڈونالڈ ٹرمپ جیسے سابق صدر کی نکتہ چینی کا نشانہ بن رہے ہیں۔ اس سے بہتر یہی ہے کہ وہ خود ہی صدارتی امیدواری سے اپنی دستبرداری کا اعلان کردیں۔ اس کے بعد کووڈ۔19 میں مبتلا ہونے کی جوبائیڈن کی خبرآئی تواس سے یہ صاف اشارہ مل گیا کہ جناب صدر شاید انتخابات نہ لڑنے کا ارادہ بنا رہے ہیں اور اب ان کو ایک عذر کی تلاش ہے جس کو پیش کرکے وہ باعزت طریقے سے امیدواری سے دستبردار ہوجائیں۔ ماحول کو بھانپ کر ڈونالڈ ٹرمپ نے جوبائیڈن کی ممکنہ وارث اور نائب صدر کملاہیرس پر نشانہ سادھنا شروع کردیا اورکہا کہ اگر کملا ہیرس الیکشن میں ان کے سامنے کھڑی ہوتی ہیں تویہ ان کے لئے راستہ آسان ہوگا۔ یہ اپنے ووٹران کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے تھے کہ ریپبلکن پارٹی میں ہوتے ہوئے بھی وہ ڈیموکریٹک پارٹی کے امور اور امیدواروں کو کافی حد تک طے کر رہے ہیں۔ اگرچہ ٹرمپ خود بھی کئی قانونی جھمیلوں میں گھرے ہوئے ہیں اوران کے اردگرد قانون کا شکنجہ کستا جارہا ہے اس کے باوجود وہ جوبائیڈن کی ضعیف العمری اور اپنے اوپر ہونے والے قاتلانہ حملے کے بعد ایک نئے جوش و جذبے کے ساتھ صدارتی انتخابات کے میدان میں ڈٹے ہوئے ہیں۔ ان کا اعتماد ساتویں آسمان پر ہے اوران کو لگتا ہے کہ پچھلی شکست کا بدلہ اس مرتبہ وہ لے لیںگے۔ لیکن ابھی انتخابات میں چار مہینے کا طویل عرصہ باقی ہے اور خود امریکہ اور دنیا کے سیاسی حالات اتنی تیزی سے اور بڑے پیمانے پر تغیرات دکھا رہے ہیں اس میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا۔ خاص طور پر ڈیموکریٹک پارٹی نے جس طرح سے کملا ہیرس کے نام پر کافی حد تک اتفاق رائے ظاہر کی ہے اس سے یہ لگتا ہے کہ کملا ہیرس نسبتاً ایک کم عمر خاتون اور اپنی جلد کی رنگت اور ہندوستان نژاد ہونے کی وجہ سے ووٹران میں کافی کشش رکھتی ہیں۔ ایسے حالات میں کملا ہیرس کے لئے کسی بھی دوسرے امیدوار کے مقابلے میں الیکشن میں سبقت حاصل کرنا آسان ہوگا۔ خاص طورپر وہ جوبائیڈن کی معتمد ہیں اور ان کی پالیسیاں جوبائیڈن سے کافی حد تک مماثلت رکھتی ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ یوکرین اور غزہ میں جنگ کی وجہ سے امریکہ کے معاشرے میں مختلف سطحوںپر امریکی خارجہ پالیسی پر زبردست بحث کی جارہی ہے۔ مغربی ایشیا جوکہ اس وقت اسرائیل کی جارحیت کی آگ میں جھلسا ہوا ہے کسی بھی صدر کے لئے ایک بڑا درد سر ثابت ہوسکتا ہے۔ کملا ہیرس کے شوہر یہودی ہیں ۔ اس کے باوجود پچھلے دنوں انہوںنے اسرائیلی حکومت کو غزہ میں فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر کافی کھری کھوٹی سنائی ہیں۔ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ غزہ جنگ کے معاملے میں جوبائیڈن کا رویہ اسرائیل کے تئیں کافی سخت تھا اور ایک خاص لابی کے دبائو میں اور خود اپنی ذاتی سوچ کی وجہ سے بھی جوبائیڈن اسرائیل کو کسی حد تک ہی سہی اسلحہ کی سپلائی میں رکاوٹ ڈالنے میں کامیاب رہے تھے۔ کملا ہیرس اگرچہ 7؍اکتوبر 2023 کے حماس کے حملوںکے بعد مسلسل اسرائیل کے دفاع کے حق پر زور ڈالتی رہی ہیں۔ اس کے باوجود وہ صدر جوبائیڈن کے مقابلے میں اسرائیل کے تئیں کافی سخت موقف کا اظہار کرچکی ہیں۔ مارچ میں انہوں نے اسرائیل کے وزیراعظم پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ غزہ میں انسانی زندگیوںکا اتلاف روکنے میں خاطر خواہ دلچسپی ظاہر نہیں کر رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے بیان میں انسانی سانحات Humanitarian Catastropheکا لفظ استعمال کیا ہے جوکہ صہیونی ریاست کے کئی لیڈروں کے حلق سے نہیں اترا ہوگا۔ بعدازاںانہوںنے ایک اورموقع پر بھی غزہ میں اسرائیل کی بربریت آمیز کارروائی پر ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر اسرائیل غزہ میں فوجی کارروائی کرتا ہے تو اس کے نتائج کا اس کو سامنا کرنا ہی پڑے گا۔ یہ دونوں بیان کملاہیرس کی خارجہ پالیسی کے تعین میں اور ان کی ممکنہ حکمت عملی کی بابت توجہ دلاتے ہیں۔
امریکہ ایک بڑا جمہوری ملک ہے۔ اس کی خارجہ پالیسی ہمیشہ سے ہی اسرائیل نوازی پر مرکوز رہی ہے۔ کوئی بھی صدر اپنے ملک کی خارجہ پالیسی کی بنیادی اصولوں سے انحراف نہیں کرپائے گا۔ جوبائیڈن اور کملا ہیرس کے رویوں میں انیس بیس کا فرق ہے اوریہی صورت حال ڈونالڈ ٹرمپ کے بارے میں بھی کہی جاسکتی ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ اپنے پہلے دور میں اسرائیل کو ناقابل تلافی فائدہ پہنچا چکے ہیں۔ انہوںنے تل ابیب کے بجائے یروشلم کو اسرائیل کی راجدھانی کے طورپر تسلیم کرلیا تھا۔یہ امریکی خارجہ پالیسی میں ایک بڑی تبدیلی کی طرف اشارہ تھا۔ یاد رہے کہ بین الاقوامی قوانین اقوام متحدہ کی قراردادوں اور اب عالمی عدالت کے فیصلے نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ فلسطین کی مختلف علاقوں پر اسرائیل کا قبضہ ناجائز ہے اور اس کو یہ قبضہ ختم کرنے کی طرف توجہ دینی چاہئے۔
ڈونالڈ ٹرمپ کی ایک خطرناک بات یہ ہے کہ وہ مغربی کنارے کو اسرائیل کی مملکت کا حصہ تسلیم کرنے کی طرف رواں دواں تھے اور وہ چاہتے تھے کہ جس طرح اسرائیل نے گولان کی پہاڑیوںکو اپنی مملکت کا حصہ بنا لیا ہے اسی طرح مغربی کنارے کو بھی وہ اپنی مملکت میں شامل کرلے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS