ایک اور ناکام تجربہ: صبیح احمد

0

صبیح احمد

سیاست کے انداز نرالے ہیں۔ نئے نئے سیاسی تجربے کیے جاتے رہے ہیں۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ لیکن اکثر ہوتا ہے کہ اگر کوئی ایشو ایک بار ناکام ہو جاتا ہے یعنی عوام کو متاثر نہیں کر پاتا ہے تو کوئی نیا ایشو سامنے لایا جاتا ہے۔ کسی کے پاس جب کوئی ایشو ہی نہیں ہو تو پھر وہ پرانے ایشو کو نئے رنگ میں بھنانے کی کوشش کرنے لگتا ہے۔ آج کل یہی ہو رہا ہے۔ گزشتہ ایک ہفتہ سے اترپردیش حکومت کے ایک حکم پر کافی بحث ہو رہی ہے۔ پہلے یہ حکم صرف اترپردیش کے مظفر نگر ضلع کے لیے تھا، لیکن بعد میں اسے پوری ریاست میں نافذ کر دیا گیا۔ وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے کہا کہ یوپی کے کانوڑ یاترا کے راستوں پر کھانے پینے کی دکانوں پر دکان مالک یا آپریٹر کا نام اور شناخت لکھنی ہوگی۔ اسی طرح کا حکم اتراکھنڈ میں ہری دوار پولیس انتظامیہ نے بھی جاری کر دیا۔ اس کے بعد مدھیہ پردیش کے اجین کی انتظامیہ نے بھی اسی طرح کا حکم صادر کر دیا اور ایسا لگ رہا تھا کہ دھیرے دھیرے اس طرح کے احکامات پورے ملک میں نافذ کر دیے جائیں گے۔ اس پورے معاملے پر سیاست بھی ہورہی ہے۔ اپوزیشن اسے سماجی ہم آہنگی کو بگاڑنے والا فرمان قرار دے رہی ہے۔ وہیں اتر پردیش حکومت اس فیصلے کو کانوڑ یاتریوں کے عقیدے کے تقدس کو برقرار رکھنے والا ایک قدم قرار دے رہی ہے۔
اسی بحث کے درمیان رکن پارلیمنٹ مہوا موئترا اور کچھ دیگر لوگوں و تنظیموں نے اس معاملے کے خلاف سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا۔ سپریم کورٹ نے معاملے کی سماعت کرتے ہوئے فی الحال اس حکم پر فوری طور پر عبوری روک لگا دی ہے۔ اترپردیش، اتراکھنڈ اور مدھیہ پردیش کی حکومت کو نوٹس جاری کر کے انہیں اپنے اپنے موقف پیش کرنے کو کہا گیا ہے۔ اپنے حکم میں بنچ نے ان ریاستی حکومتوں کو کانوڑ یاتریوں کے راستے پر آنے والے ہوٹلوں، دکانوں، کھانے پینے کی جگہوں اور ڈھابوں کے مالکان اور ملازمین کے نام ظاہر کرنے کی ہدایات کو نافذ کرنے سے روک دیا ہے۔ نام ظاہر کرنے پر حکم امتناعی جاری کرتے ہوئے بنچ نے کہا کہ ہوٹل مالکان اور ملازمین کے نام ظاہر کرنے پر مجبور نہیں کیا جانا چاہیے ۔ سپریم کورٹ اس معاملے پر اب اگلی سماعت 26 جولائی کو کرے گا۔ عدالت عظمیٰ حتمی فیصلہ کیا سنائے گی، یہ بعد کی بات ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایک جمہوری اور سیکولر ملک میں اس طرح کے احکامات کی گنجائش ہے؟ کیا آئین ہند اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ مذہب اور آستھا کی آڑ میں نام کی بنیاد پر تفریق کی جائے؟ بلا شبہ آستھا کے تقدس سے کسی بھی حالت میں سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا۔ لوگوں کے مذہبی رسوم و رواج کی ادائیگی کا ہر حال میں احترام لازمی طور پر ہونا چاہیے اور آئین ہند بھی اس کی اجازت دیتا ہے، لیکن اس کی آڑ میں سماجی ہم آہنگی اور رواداری کو نقصان پہنچانے کی قطعی اجازت نہیں ہے۔
اس حکم کے پس پردہ مقصد کی وجہ سے یہ معاملہ متنازع ہو جاتا ہے۔ اس کے پیچھے کی نیت کو دیکھنا ضروری ہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ دکاندار اپنی دکان کے آگے نام لکھیں لیکن اس کے پیچھے جو مقصد ہے، وہ غلط ہے۔ اس سے کمیونٹیوں کے درمیان رنجش میں اضافہ ہوگا۔کانوڑ یاترا پر جانے والے لوگوں کا خیال رکھنا بلا تفریق سب کی ذمہ داری ہے۔ مذہبی رسوم و رواج کی ادائیگی کا بلا تفریق احترام ہمارے ملک کی روایت رہی ہے۔ محرم کے موقع پر جب کسی غیر مسلم علاقہ سے تعزیہ گزرتا ہے تو مائیں بہنیں اس کی ’آرتی‘ کرتی ہیں۔ ہمارے یہاں مذہبی رسوم کی ادائیگی کا یہ ایک طریقہ ہے۔بطور صارف یہ جاننا بھی سب کا حق ہے کہ جو وہ کھا رہے ہیں وہ کیسے بنا ہے اور اس میں کون سے اجزا شامل ہوتے ہیں۔ صرف ساون میں ہی کیوں؟ صرف کانوڑیوں کے راستے پر ہی کیوں؟ یہ حکم پورے ملک میں اور سال بھر نافذ ہونا چاہیے۔ جب کسی ہوٹل میں جایا جاتا ہے تو کیا وہاں کام کرنے والے لوگ نام کے بیجز لگاتے ہیں؟ اپنی شناخت ظاہر کرنے سے گریز کیوں؟ نام یا شناخت ظاہر کرنے سے قطعی گریز نہیں کیا جانا چاہیے، لیکن مسئلہ تب ہوتا ہے جب اس کے پیچھے کے مقصد کچھ اور ہوتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ یہ حکم کانوڑیوں کی خورد ونوش کی پاکیزگی کو برقرار رکھنے کے لیے دیا گیا تھا۔ جس ہوٹل میں وہ جا رہے ہیں وہ خالص ’شاکاہاری‘ (ویج ) ہے یا نہیں،ان کی پاکیزگی کو برقرار رکھنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے۔ یہ جاننے کے لیے ہوٹل کے ’مینیو‘(کھانے پینے کے سامان کی لسٹ) کو نمایاں طور پر ظاہر کرنے کی ضرورت پڑتی ہے نہ کہ دکان دار کا نام لکھنے کی۔ یہ جواز بھی پیش کیا جاتا ہے کہ حکم میں یہ کہیں نہیں بتایا گیا ہے کہ کانوڑیے کہاں جائیں گے اور کہاں نہیں جائیں گے اور یہ حکم اس لیے دیا گیا ہے تاکہ کانوڑیوں کو کسی قسم کی پریشانی یا الجھن کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ ہوٹل کے آگے نام لکھنے سے تو یہی پیغام ملتا ہے کہ انہیں کس ہوٹل میں جانا ہے اور کس میں نہیں۔ نام ظاہر کرنے کے حکم سے در پردہ یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ کس دکان میں کانوڑیوں کو جانا ہے اور کس میں نہیں جانا ہے۔ حکمراں طبقہ کا الزام ہے کہ اپوزیشن کے لوگ خواہ مخواہ اس معاملہ کو ایشو بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حالانکہ دلچسپ بات یہ ہے کہ این ڈی اے کے ا تحادیوں نے بھی اس پر سوالات کھڑے کیے ہیں۔ یہ یاترا ہزاروں سال سے جاری ہے۔ ہر علاقہ کے لوگ جاتے ہیں۔ ہمارے ملک میں ایک روایت ہے ’ذات نہ پوچھو سادھو کی۔‘ درحقیقت ایک طرح سے یہ شناخت کی بنیاد پر سماجی بائیکاٹ ہے۔نام نہ لکھو تو کاروبار بند، نام لکھو تو فروخت ختم۔ مسلمان، عیسائی، بودھ سبھی ان یاتریوں کے کام آتے رہے ہیں۔ خالص سبزی (شدھ شاکاہاری) لکھنے پر تو اصرار کیا جاسکتا ہے، دکاندار کے نام پر نہیں۔ اس کی آڑ میں ذریعہ معاش کے بائیکاٹ کی کوشش کی جا رہی ہے۔ چھواچھوت کو بھی فروغ دیا جا رہا ہے۔ کیا کانوڑیے اس بات کی توقع کر سکتے ہیں کہ کھانا کسی خاص کمیونٹی کی دکان کا ہو اور اناج کسی خاص کمیونٹی کا ہی پیدا کردہ ہو؟ فوڈ سیکورٹی ایکٹ بھی صرف ویجیٹیرین-نان ویجیٹیرین اور کیلوریز لکھنے کی بات کرتا ہے۔ مینوفیکچرنگ کمپنی کے مالک کا نام لکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
اس طرح کا فیصلہ حکمراں طبقہ کی مایوسی کو ظاہر کرتا ہے۔ حالیہ انتخابات کے بعد ایسا لگ رہا ہے کہ فرقہ وارانہ سیاست اپنے آخری مراحل میں ہے، اس لیے حکومت کی جانب سے ایسے فیصلے کیے جا رہے ہیں۔ اس طرح کے مزید اقدامات کی توقع کی جا رہی ہے کیونکہ فرقہ وارانہ سیاست کو زندہ رکھنے کے لیے ایسا کر نا ضرری ہے۔ آج نام ہیں، کل ذات بتانے کو کہا جا سکتا ہے۔ حالانکہ اس سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے، مزید تفرقہ ہی پیدا ہوگا۔ فرقہ وارانہ تقسیم مزید گہری ہوگی۔ لوگ آج اپنی روزی روٹی کے مسائل پر بات کرنا چاہتے ہیں۔کیا لوگ کانوڑ یاترا جو صدیوں سے ہوتی آ رہی ہے، کے نام پر کیے جانے والے اس تجربے کو قبول کریں گے؟ قطعی نہیں۔ کانوڑ یاترا صدیوں سے ہوتی آ رہی ہے۔ یہ تب بھی ہوتی تھی، جب موجودہ حکمراں طبقہ کے پاس اقتدار نہیں تھا۔ اب بھی ہو رہی ہے اور آگے بھی ہوتی رہے گی۔ لوگ یاترا کے نام پر کیے جانے والے اس تجربے کو اب ہرگز قبول نہیں کریں گے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS