شاہد زبیری
نہیں معلوم بی جے پی کی مسلم دشمنی اور نفرت کی سیاست ملک کو کس سمت لے جا ئے گی۔ انتخابات میں شکست کا ٹھیکرا بھی مسلمانوں کے سر اور اس کے سزا وار بھی مسلمان لگتا ہے کہ بی جے پی نے لوک سبھا کے حالیہ انتخابات میں اپنی شکست سے کوئی سبق نہیں لیا وہ آج بھی 80-20کا کھیل کھیل رہی ہے۔ نوکر شاہی اس کی انگلیوں پر رقصاں ہے اور تو اور سادھو سنتوں کو بھی فرقہ وارانہ منا فرت کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے ۔
سب جا نتے ہیں کہ صدیوں سے ملک میں کانوڑ یاترا نکلتی آرہی ہے پہلے تو راستے بھی بند نہیں کئے جا تے تھے تب بھی کانوڑ یاتری آرام سے اپنی منزل پر پہنچ جا تے تھے ہندو آبادی ہو یا مسلم آبادی کانوڑ یاتریوں سے کسی کو کوئی پریشا نی نہیں ہوتی تھی اورنہ ہی کانوڑ یاتریوںکی کوئی شکایت سامنے آتی تھی وہ جس راستہ سے چاہتے آرام سے گزر جاتے تھے لوگ عام طور پر کانوڑ یاتریوں کے دکھ سکھ کا خیال رکھتے ہندو مسلم مل جل کر ان کی خدمت کیلئے کیمپ لگاتے تھے میڈیکل ایڈ دیتے تھے کھانے پینے اور آرام کا خیال رکھتے تھے ۔کانوڑ یاتری آج جو ڈریس پہن کر کانوڑ لے کر جا تے ہیں اس کو بھی سہارنپور کے ہوزری کے مسلم کاریگر تیار کرتے ہیں، ان حالت میں کسی نے یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ کوئی سرکار کانوڑ یاترا کو بھی سیاسی ہتھیار بنا سکتی ہے اور یاترا کو بھی ہندو مسلم رنگ دیا جا سکتا ہے ۔پہلے یوگی سرکار نے کانوڑ یاتریوں پر ہیلی کاپٹر وں سے تمام راستے پھول برسانے کی نئی روایت شروع کی، راستے بند کئے جا نے لگے کسی نے اس پر انگلی نہیں اٹھا ئی لیکن لوک سبھا انتخابات میں اور پھر ضمنی انتخاب میں پے درپے دو بار شکست سے لگتا ہے کہ بی جے پی حواس باختہ ہو گئی ہے اسی لئے کا نوڑ یاترا کے نام پر بھی اس نے ہندو مسلم کا کھیل شروع کر دیاہے،محبت کے میٹھے بول کی جگہ منافرت کی گرم بازاری ہے اوراس کھیل میں راست طور پر مسلمانوں کو نشانہ بنا یا جا رہا ہے اور ایک طرح سے یہ مسلمانوں کے معاشی با ئیکاٹ اور ان کے ساتھ چھوا چھوت کا آغاز ہے، جس کی شروعات مظفر نگر جیسے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لحاظ سے انتہائی حسّاس ضلع سے ہوئی ہے جہاں کے ایس ایس پی نے یہ تغلقی فرمان جاری کیا۔ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ انہوں نے اپنی صوابدید سے کیا ہو یااوپر سے ملے کسی کے حکم پر، مظفر نگر جو کبھی محبت نگر کے نام جانا جاتا تھا 2013میں فرقہ وارانہ آگ میں جھلس چکا ہے، ایسے حسّاس ضلع کے کسی اعلیٰ پولیس افسر کو اس طرح کے متنازع حکم سے پہلے سو مرتبہ سوچنا چا ہئے تھا، لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا اورنہ جانے کس سوچ اور فکر سے متاثر ہو کر بنا سوچے سمجھے ہڑ بڑی میں ایک ایسا حکم دے ڈالا جو آئین کے خلاف ہے اور جس کی زد صدیوں پرانی ہماری فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور گنگا جمنی تہذیب پر پڑ تی ہے۔ایس ایس پی کے اس تغلقی فرمان سے فرقہ پرستوں کی باچھیں کھل اٹھی ہیں۔اس سے پہلے کہ بی جے پی کی یوگی سرکار کوئی حکم جاری کرتی کہ سوامی یشویر مہاراج نام کے ایک سوامی کا ایک بیان سوشل میڈیا پر وائرل ہو گیا، جس میں کہا گیا کہ اگر ایسا مظفر نگر میں کیا جا سکتا ہے تو پورے ہندوستان میں کیوں نہیں ان مہاشہ نے کہاکہ ملک بھر میں مسلمانوں کے ہوٹل ، ڈھابے ،مٹھائی اور پھلوں کی دکانوں پر مسلمانوں کے نام لکھوا ئے جا نے کیلئے ایک ابھیان ( مہم) سناتنیوں ( ہندوئوں ) کو چلا نے کا مشورہ دیا ۔ اس طرح ملک کے اکثریتی طبقہ کو ایک بڑی اقلیت یا یوں کہیں کہ دوسری بڑی اکثریت کے خلاف ان مہاشہ نے اکسانے کی کوشش کی ۔ اپنے دوسر ے بیان میں انہوں نے مظفر نگر کے ایس ایس پی کا نام لے کر ان کو مخا طب کرتے ہوئے ان کا دل سے شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے ہوٹل، ڈھابوں اور کھانے پینے کی اشیا کی دکانوں اور پھلوں کی ٹھیلیوں پر نام لکھنے کاحکم صادرکیا۔مہاشہ سوامی نے مظفر نگر کے ایس ایس پی کی ہمّت بڑھاتے ہوئے کہا کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں پورا سناتنی سماج ( ہندو سماج) ان کے ساتھ ہے ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ بی جے پی کی یوگی سرکار ایس ایس پی مہودے سے اس تغلقی فرمان پر جواب طلب کرتی اورمہاشہ سوامی کے خلاف بھی کارروائی کرتی کہ وہ ہندو مسلمان کے نام پر زہر پھیلا رہے ہیں اور سماج کو مذہب کے نام پر بانٹ رہے ہیں اور مذہبی چھو اچھوت کی ترغیب دے رہے ہیں اور لوگوں کو اکسا رہے ہیں جو آئین کی صریح خلاف ورزی ہے لیکن اس کے برعکس مہاشہ سوامی کے بیان پر پھول چڑھا تے ہو ئے وزیرِ اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے اس حکم کو پوری یو پی پر تھوپ دیاہے اور تو اور اترا کھنڈ کی بی جے پی کی دھامی سرکار نے بھی یوگی جی کے سُر میں سُر ملائے ہیں۔ دھامی نے کہاکہ وہ اترا کھنڈ میں اس حکم کو نافذ کریں گے ۔یوگی کے اس نادر شاہی فرمان پر پورے ملک میں سیاسی بھونچال آیا ہوا ہے اور سیاسی و ملّی سطح پر اس کی مخالفت کی جا رہی ہے اور اس فرمان کو ملک کے فرقہ وارانہ تانے بانے کیلئے خطرہ مانا جا رہا ہے۔اس کی مخالفت کرنے والوں میں سابق مرکزی وزیرِ کا بینہ اور بی جے پی کے پرا نے وفادار مختار عبّاس نقوی کے ساتھ این ڈی اے سرکار میں شامل پارٹیوںجیسے جے ڈی یو،یا لوکدل، لوک جن شکتی پارٹی کے لیڈر وں نے ایک آواز میں اس نادر شاہی فرمان پر شدید تنقید کی ہے ۔ اپوزیشن جماعتوں میں سما جوادی پارٹی اور کانگریس کے لیڈروں کے علاوہ ، مجلس اتحاد المسلمین کے ایم پی اسد الدّین اویسی ، بھارتیہ کسان یو نین کے راکیش ٹکیت، جمعیۃ علماء کے قومی صدر مولانا سیّد ارشد مدنی اور جمعیۃ علماء کے قائد مولا نا سیّد محمود مدنی ان سب کے بیانات اس نادر شاہی فرمان کے خلاف آچکے ہیں ۔آزاد میڈیا اور چینل بھی اس پر کھل کر تنقید کر رہے ہیںاور آزاد میڈیا کے چینلوں پر اس کے خلاف بحث جاری ہے ۔ سماج اور ملک پر پڑنے والے اس کے مضر اور خطرناک اثرات سے آگاہ کیا جا رہا ہے۔ مین اسٹریم یا یوں کہیں کہ خوشامدی میڈیا یوگی سرکار کے اس کارنامہ کی تائید کررہا ہے ۔ نام لکھے جا نے کی آڑ میں معاشی بائیکاٹ کی زد میںنہ صرف مسلمان آئیں گے بلکہ اس کی زد میں دلت طبقہ بھی آئے گا، اس اندیشہ کا بھی اظہار کیا جا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ پھل فروشوںپر بھی اس فرمان کا نفاذ آخر کیوں کیا جا رہا ہے ،کیا پھل بھی ہندو اور مسلمان ہوتے ہیں، یہ کیا گارنٹی ہے کہ ایک ہندو پھل فروش جو پھل فروخت کررہا ہے وہ کسی ہندو کے باغ کے ہوں گے اورمسلمان کے باغ کے نہیں۔ اس نادر شاہی فرمان کے نقصانات کی خبریں سامنے آرہی ہیں جن ہوٹلوںاور ڈھابوں کے ساجھیدار ہندو اور مسلمان دونوں ہیں ملازم بھی ہندو ہیں لیکن نام لکھے جانے سے ان ڈھابوں پر خاک اُڑ نے لگی ہے ۔اس نادر شاہی فرمان کے پیچھے جو سیاسی سوچ کام کررہی ہے وہ ملک کے فرقہ وارانہ تانے بانے کو تار تار کردے گی اور دنیا کے سامنے ہمارا سر جھکا دے گی۔ہر لحاظ سے یو گی سرکار کا یہ نادر شاہی فرمان ہمارے آئین کی روح اور ہمارے سیکولر اور جمہوری ڈھانچہ کو کمزور کرنے والا فرمان ہے جس کی مخا لفت جائز ہے، لیکن حیرت ہے کہ یہ ساری مخالفت زبانی کی جا رہی ہے عملی نہیں ۔جنتا دل یو ،لوک جن شکتی پارٹی اور لوکدل آخر کیوںمرکزی سرکار کی بیساکھی بنی ہوئی ہیں ؟،کانگریس اور سماجوادی پارٹی ، جمعیۃ علما ء مجلس اتحاد المسلمین پُر امن طریقہ سے سڑک پر اپنا احتجاج درج کرا نے کا حوصلہ کیوں نہیں دکھا رہی ہیں؟ کیا یہ سب پارٹیاں اور جماعتیں آج بھی بی جے پی سرکار سے خوفزدہ ہیں؟۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ وزیرِ اعلیٰ یوگی نے بہت سوچ سمجھ کریہ کارڈ کھیلا ہے۔ بی جے پی کی یوپی میں شرمناک شکست کا ٹھیکرا یو گی سرکارکے سر پھوڑا جا رہا ہے اور سیدھے طور اس کیلئے یوگی کو ہی ذمّہ دار مانا جا رہا ہے ڈپٹی سی ایم کیشو پرساد موریہ اس سوال کو لے کر یوگی پر کھل کر حملے کررہے ہیں،انہوں نے کہاکہ مرکز ی سطح پر یوگی کے پر کتر نے کی کو شش کی جارہی ہے اور وزیرِ اعلیٰ یوگی خود کو گھرا ہوا محسوس کرہے ہیں۔انہوں نے اس طرف سے توجہ ہٹانے اور ایک نیاایجنڈہ سیٹ کر نے کیلئے یہ نادر شاہی فرمان جا ری کیاہے تاکہ جو بیانیہ ملک بھر میں ان کے خلا ف چل رہا ہے اس سے توجہ ہٹے اور ان کی شبیہ مودی کے بعد ہندو سمراٹ کی بنی رہے اور مودی کے بعد مستقبل میں وزیرِ اعظم کی ان کی دعویداری پکی رہے ،کوئی اور دعویدار ان کے سامنے ٹک نہ پائے ۔
[email protected]