ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ
غزہ میں جاری اسرائیلی جنگ سے ہر روز وہاں تباہی مچ رہی ہے۔ اسرائیل اپنے بمبار طیاروں سے صرف وہاں کی عمارتوں، اسکولوں، سڑکوں، اسپتالوں اور دیگر بنیادی سہولتوں کو ہی تباہ نہیں کر رہا ہے بلکہ ہزاروں فلسطینیوں کو بھی بہیمانہ ڈھنگ سے شہید کرکے تمام جنگی قوانین کو بے معنی بنا رہا ہے۔ اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے قتل کی سیاست پر عمل کرنا اسرائیل کے لئے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اپنے قیام کے اول دن سے ہی اسرائیل اس پالیسی پر گامزن رہا ہے۔ کتنے ہی معروف فلسطینی قائدین کو اسرائیل نے اپنی اسی پالیسی کے تحت قتل کرکے ختم کر دیا۔ ان فلسطینی قائدین میں ’الجبھۃ الشعبیۃ لتحریر فلسطین‘ کے کرشمائی لیڈر غسان کنفانی، ’فتح‘ سے وابستہ مشہور فلسطینی لیڈر خلیل ابراہیم الوزیر (ابو جہاد)، ’حماس‘ کے بانی و مؤسس شیخ احمد یاسین اور ’الجہاد الاسلامی‘ کے قائد فتحی الشقاقی جیسی اہم ترین شخصیات شامل ہیں۔ اعلیٰ قائدین کو نشانہ بناکر راستہ سے ہٹانے کی یہ رفتار 70 کی دہائی میں نسبتاً کم تھی کیونکہ اس پوری دہائی میں شہید کئے گئے فلسطینی قائدین کی تعداد 14 تک پہنچی تھی۔ نئی صدی کی پہلی دہائی تک یہ تعداد 150 سے بھی متجاوز کر گئی تھی۔ جنوری 2020 سے اب تک 24 کی تعداد مکمل ہوچکی ہے۔ ’ویکیپیڈیا‘ پر تو باضابطہ ایک صفحہ اس کے لئے خاص ہے جس میں اسرائیل کی اس شرمناک حرکت کو اس کی کامیابی کی فہرست کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ لیکن اس فہرست کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اس میں شہید کئے جانے والے ممتاز فلسطینی قائدین کے اسماء کا تو ذکر ہے لیکن اس کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے کہ ایک فلسطینی لیڈر کو شہید کرتے وقت اسرائیل نے ان کے ساتھ کتنے معصوم بچوں، عورتوں اور مریضوں تک کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اسرائیل کی اس بدکرداری اور بداخلاقی کو سمجھنے کے لئے 13 جولائی کو نتن یاہو کے ذریعہ منعقد کئے جانے والے پریس کانفرنس کو دیکھنا اور سمجھنا ہوگا۔ اس پریس کانفرنس کا انعقاد اس تناظر میں کیا جا رہا تھا کہ غزہ میں ’حماس‘ کے ملٹری لیڈر محمد الضیف کے قتل کی کوشش کا جشن منایا جانا مقصود تھا۔ اسرائیل نے اس سے چند گھنٹے قبل ہی خان یونس کے المواصی کیمپ پر جنگی جہازوں اور ڈرونز سے حملہ کرکے چند منٹوں کے اندر ہی 90 سے زائد عام فلسطینیوں کو شہید اور 300 معصوموں کو زخمی کر دیا تھا۔ حالانکہ اسرائیل نے خود ہی اس علاقہ کو محفوظ قرار دے کر فلسطینیوں کو وہاں منتقل ہونے کو کہا تھا۔ جس وقت المواصی کے اس کیمپ پر اسرائیل نے بم برسائے اس لمحہ وہاں 80 ہزار فلسطینی پناہ گزیں تھے۔
سوشل میڈیا پر جو تصویریں نشر ہوئی تھیں ان سے معلوم ہوا کہ زیادہ تر ہلاک ہونے والوں کے جسم جل کر کوئلہ بن چکے تھے اور ان کے پرخچے اڑ گئے تھے۔ رپورٹوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیل نے اس حملہ کے لئے امریکی فیکٹریوں میں تیار شدہ کئی گائیڈیڈ بموں کا استعمال کیا تھا۔ ان میں سے ہر بم کا وزن نصف ٹن بتایا گیا ہے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ جہاں ایک طرف اس بے رحمی سے معصوم فلسطینیوں کا قتل کیا گیا وہیں محمد الضیف کی موت ہوئی یا نہیں اس کے بارے میں اسرائیل کو کچھ معلوم ہی نہیں ہوا۔ المواصی قتل عام کے محض چند گھنٹوں کے بعد ہی تل ابیب کی وزارت دفاع میں منعقد پریس کانفرنس کے مطابق خود نتن یاہو نے اس بات کا اعتراف کیا کہ محمد الضیف کی موت ہوئی یا نہیں اس کے بارے میں پختہ طور پر اس کو معلوم نہیں ہے۔ اس کا مطلب فلسطینیوں کی اتنی بڑی تعداد کو جنگ کے اصول کی ادنی درجہ میں بھی پرواہ کئے بغیر ہی اسرائیل نے انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اس پر بھی نتن یاہو کی ڈھٹائی دیکھئے کہ اس نے معصوموں کے قتل کو جائز ٹھہرانے کے لئے یہ کہنے کی جرأت کر لیا کہ حماس کے لیڈروں کے قتل کی صرف کوشش سے بھی دنیا کو یہ پیغام جائے گا کہ حماس کے پاس گنتی کے چند دن ہی بچے ہیں۔ نتن یاہو اپنے اس بیان کے ذریعہ اپنے من کا وہم دور کرنا چاہتے ہیں۔ اگر وہ اسرائیل کے ذریعہ نشانہ لگاکر شہید کئے جانے والے فلسطینی قائدین کی فہرست پر ایک اچٹتی نگاہ بھی ڈال لیتے تو انہیں اندازہ ہوجاتا کہ حماس کے سیاسی قائدین احمد یاسین اور عبدالعزیز الرنتیسی اور ان کے ملٹری لیڈران یحییٰ عیاش اور صلاح شحادہ کی شہادت سے اس تحریک کی طاقت پر کوئی اثر تک نہیں پڑا۔ اس کے برعکس حماس کی مقبولیت میں روز افزوں اضافہ ہی ہوا اور اس سے وابستہ ہوکر فلسطین کی آزادی کا مقصد حاصل کرنے والوں کی تعداد بڑھتی ہی چلی گئی۔ آج حماس کی بسالت و جوانمردی اور قوت دفاع کا عالم یہ ہے کہ دس مہینے گزر جانے کے باوجود بھی اسرائیل جس کو اس خطہ کی سب سے طاقت ور فوج ہونے کا زعم ہے ابھی تک اپنا کوئی ہدف پورا نہیں کر پایا ہے اور عام شہریوں کا قتل عام کرکے پوری دنیا میں اپنی رسوائی کا سامان خود پیدا کر چکا ہے۔ تو اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اتنی ناکامیوں کے باوجود بھی اسرائیل برسہا برس سے فلسطینی قائدین کے قتل کی پالیسی پر کیوں گامزن ہے؟ اس کا ایک ہی معقول جواب سمجھ میں آتا ہے کہ اسرائیل کے لیڈران اپنے عوام کو خوش کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے فلسطینی قائدین کے قتل کو ایک ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہیں خواہ نتائج مقصد کے خلاف ہی کیوں نہ ہوں۔ المواصی قتل عام کے فورا ًبعد ہی نتن یاہو کی پریس کانفرنس کا مقصد بھی اس کے سوا اور کچھ نہیں تھا۔ محمد الضیف کو قتل کرنے کے لئے 13 جولائی کو جو حملہ کیا گیا تھا وہ ان پر کیا جانے والا اب تک کا یہ آٹھواں حملہ تھا لیکن وہ پھر بھی باحیات ہیں اور اپنا کام کر رہے ہیں جیسا کہ حماس کے ایک لیڈر نے میڈیا کو بتایا۔ ان پر کئے جانے والے ہر حملہ میں بیشمار قیمتی فلسطینی زندگیاں ختم کی گئیں ہیں ان کا بھی حساب رکھا جانا چاہئے اور اسرائیل کو اس کی سزا ملنی چاہئے تاکہ جنگی اصولوں پر کاربند رہنے کے لئے دنیا کے باقی ممالک کو بھی قائل کیا جا سکے۔ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے کہ جب کسی فلسطینی قائد کو قتل کرنے کے عمل میں عام فلسطینیوں کو مارا گیا ہے۔ ’کتائب القسام‘ کے لیڈر صلاح شحادہ کو جب 2002 میں شہید کیا گیا تھا اس وقت بھی 15 لوگوں کو اپنی جانیں گنوانی پڑی تھیں۔ شحادہ کے ساتھ ان کی بیوی، پندرہ سالہ بیٹی اور 8 دیگر بچوں کو بھی شہید کر دیا گیا تھا۔ اس حملہ کے بعد بڑا ہنگامہ مچا تھا۔ 27 اسرائیلی پائلٹ نے غزہ پر پرواز کرکے شہریوں پر بم برسانے سے منع کر دیا تھا۔ جب پورے معاملہ کی تحقیق کے لئے کمیٹی تشکیل دی گئی تو بس اتنا کہہ کر پلو جھاڑ لیا گیا کہ انٹیلیجنس کی ناکامی کی وجہ سے ایسا ہوا تھا اور اگر انہیں معلوم ہوتا کہ عام شہری بھی حملہ کے وقت وہاں موجود تھے تو یہ حملہ نہیں کیا جاتا۔ لیکن آج غزہ پر بمباری کرتے وقت تو اسرائیلی فوج اور فضائیہ کی اخلاقی حالت اتنی خستہ ہوگئی ہے کہ وہ اس پر احتجاج کرنے کے بجائے عام شہریوں کے قتل کا جشن مناتے نظر آتے ہیں۔ اسرائیل نے 2008 کے بعد ہی سے اپنی جنگی پالیسی میں تبدیلی پیدا کرلی ہے۔ اس پالیسی کے تحت اسرائیلی فوج کی حفاظت کے لئے عام فلسطینی شہریوں کا قتل جائز قرار دیا گیا ہے اور اس پر اسرائیلی فوج کو کوئی سزا بھی نہیں دی جائے گی۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی طے کیا گیا ہے کہ حماس کو روکنے کے لئے جان بوجھ کر شہری ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ انہی پالیسیوں کا نتیجہ ہے کہ اسرائیل مسلسل عام شہریوں کا اجتماعی قتل کر رہا ہے اور اس کو جائز ٹھہرانے کے لئے یہ کہہ دیتا ہے کہ وہاں حماس کے عناصر موجود تھے۔ باوجوداس کے جنگی اصول کے مطابق اس قسم کا حملہ جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کی فہرست میں شمار کیا جاتا ہے۔ دراصل اسرائیل کا مقصد یہ ہے کہ جنگ کے عالمی اصولوں کو بدل دیا جائے۔ اسرائیل کے مطابق اس کا واحد طریقہ یہ ہے کہ عام شہریوں کے ٹھکانوں کو اتنی بار نشانہ بنایا جائے کہ جنگ میں وہ ایک معمول بن جائے اور دنیا اس کو قبول کرنے لگ جائے۔ اگر مسلح جنگ کا وہ طریقہ دنیا میں مقبول ہوجاتا ہے جس کو اسرائیل بنا رہا ہے تو پھر اجتماعی قتل عام کو روک پانا ناممکن ہوجائے گا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ دنیا کا موجودہ قانونی نظام اپنی حیثیت کھو چکا ہے کیونکہ وہ غزہ میں جاری قتل عام کو روکنے اور اسرائیل پر قدغن لگانے میں پورے طور پر ناکام رہا ہے۔ آج اگر فلسطین کے انسانوں کی کوئی قیمت نہیں رہ گئی ہے تو کل وہ بھی نشانہ پر ہوں گے جو آج خاموش ہیں۔ اسرائیل کو ملی چھوٹ سے خسارہ صرف فلسطین کا نہیں پوری انسانی آبادی کا ہے۔
مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں