فلسطینی اتھارٹی کو نیست و نابود کرنے کی سازش: شاہنوازاحمد صدیقی

0

شاہنوازاحمد صدیقی
اپنی دانست میں حماس کونمٹانے کے بعد اسرائیل نے الفتح کی قیادت والی فلسطینی اتھارٹی (پی ایل) کو تباہ کرنے کا قصد کرلیا ہے اور مغربی کنارے کے فلسطینی نظام و انصرم کو تہس نہس کرنے کا پکاارادہ کرلیا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی، اسرائیل، بین الاقوامی امدادی تنظیموں اور اقوام متحدہ کے تعاون سے چلتی ہے۔ حماس کے مقابلے میں الفتح کو بین الاقوامی سطح پرکافی مقبولیت حاصل ہے۔ بین الاقوامی ادارے الفتح کو کھل کر اقتصادی، سفارتی اوراخلاقی تعاون کرتے ہیں۔ الفتح یاسر عرفات کی قیادت والے پی ایل او کا سیاسی بازو ہے یا سرعرفات کے پراسرار موت کے بعد محمودعباس پی ایل او اتھارٹی کے صدر بنادیے گئے تھے اور تب سے لگاتار محمود عباس ’صدارت‘ کے مسند پر فائز ہیں حالانکہ ان پر پیرانا سالی کی وجہ سے ان کے طور طریقوں پر مسلسل نکتہ چینی ہورہی ہے۔ لیکن 7اکتوبر 2023کے حماس کے حملوں کے بعد بین الاقوامی سطح پرحماس پر لگاتار نکتہ چینی اور مذمت ہورہی ہے اور اب کھلم کھلا حماس کو تنہا اور بے یارو مددگار چھوڑنے اور الفتح کو فلسطینی نمائندہ جماعت کے طور پر پیش کرنے اور تسلیم کرنے والے کی پالیسی اختیار کی جارہی ہے اگرچہ یہ سب کچھ نیا نہیں ہے، حماس کو ہمیشہ ایران نواز قرار دے کر دہشت گردتنظیم بناکر پیش کیاجاتارہاہے۔ مگراب حالات بالکل ہی بدل گئے ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر حماس کو مل رہی حمایت بالکل منقطع ہوگئی ہے۔
غزہ کے وسائل اورانتظام وانصرام سے بالکل ہی الگ تھلگ کرنے کی کوشش کتنی کارگر ہوگی اس بابت کوئی بھی تبصرہ قبل ازوقت ہوگا اس پوری صورت حال کا سب سے افسوس ناک پہلو عام فلسطینیوں کی ہلاکت کا سلسلہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہاہے۔’ لینسیٹ‘ نے اپنی حالیہ رپورٹ میں غزہ میں 7اکتوبر کے حملہ کے بعد اب تک تقریباً 1,86000 فلسطینیوں کی شہادت کا اندیشہ ظاہرکیاتھا۔ یہ اندیشہ بے بنیاد نہیں ہے اور مبصرین کا کہناہے کہ فلسطینیوں کی ہلاکت اس سے بھی زیادہ ہوسکتی ہے۔ یہ ایسا نقصان ہے جس پر کوئی بھی عسکری فائدہ بے معنی ہے۔ ماہرین اتنی بڑی تعداد میں فلسطینیوں کی ہلاکت کو شہادت قرار دے سکتے ہیں مگراس عظیم بے مثال قوم کے جذبہ ایثار وقربانی کوایک عظیم قوم کے زمرے میں رکھتا ہے اورساتھ ہی انسانیت کے کٹہرے میںہی کھڑانہیں کرتا ہے بلکہ مجرم بناکر پیش کردیتاہے۔
محمودعباس کی قیادت اور صدارت والی فلسطینی اتھارٹی (پی ایل) اسرائیل کو بین الاقوامی فورس پرچیلنجز دینے والا ادارہ ہے، اقوام متحدہ کے رکن کی حیثیت سے محمود عباس نے فلسطینیوں کو ایک موثر قوت بنادیا ہے۔ فلسطینی سفارت کاروں نے یہودیوں اور صہیونیوں کی طاقت اور پروپیگنڈہ کے باوجود— مشکلات میں مبتلا کردیا ہے۔ لہٰذا اب حماس کو ختم کرنے کے بعد اسرائیل اور صہیونی طاقتیں پی ایل اتھارٹی کو کمزور کرنے اور مغربی کنارے کے فلسطینیوں کو برباد کرنے پرآمادہ ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کو مغربی ممالک خاص طور پر یوروپی اور امریکی سفارت کار ہر ممکن تعاون کررہے ہیں۔ اسرائیل کو اس بات کے لیے مجبور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ یہ غزہ کا انتظام اور انصرام بشمول سیکورٹی فلسطینی اتھارٹی کو منتقل کرے تاکہ اس کا یہ ’عزم‘ بھی پورا ہوجائے کہ وہ حماس جیسی دہشت گرد تنظیم کو دوبارہ قتل وغارت کرنے کی آزادی نہیں دے گا۔ اور فلسطینی علاقے غزہ میں اسرائیلیوں کو دوبارہ مکمل اقتدار اعلیٰ پھیلانے کا موقع نہ مل پائے۔ غزہ پر فلسطینیوں کا کنٹرول ہے اور حماس کی بجائے الفتح کو اقتدارمنتقل کیاجائے۔ امریکہ کے وزیرخارجہ اوراعلیٰ حکام مسلسل فلسطینی قیادت، عرب حکمرانوں کو اپنے حق میں راضی کررہے ہیں۔ اسرائیل کے اندر کی بھی قیادت کافی حد تک اس موقف پر قائم ہے کہ حماس کو نظرانداز کرکے الفتح کو ہی غزہ میں قائم کیاجائے مگر نتن یاہو بالکل الگ تھلگ اپنے مفادات کو مدنظررکھتے ہوئے ایسی راہ پر چل نکلے ہیں کہ جس پر چل کر قیام امن ممکن نہیں ہے اور نہ ہی اس طرح کی جارحانہ پالیسیاں خود ان کے ملک کے تحفظ اور ترقی کی ضمانت دے پائیں گی۔n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS