عبدالعزیز
آر ایس ایس کے سربراہ مسٹر موہن بھاگوت نے ایک تقریر کرتے ہوئے کہاتھاکہ ہندستان میں مسلمان مسلم حملہ آوروں کے ذریعے آئے اور مسلم بادشاہوں یا حملہ آوروں کے ذریعہ اسلام ہندستان میں پھیلا۔ اس طرح کی باتیں اکثر سننے میں آتی ہیں کہ اسلام تلوار اور طاقت کے ذریعے پھیلا ہے، جو حقیقت میں انتہائی غلط اور لغو بات ہے۔انڈونیشا اور ملیشیا میں کوئی بھی مسلم حملہ آور یا بادشاہ نہیں گیا تھا، پھر بھی وہاں اسلام تیزی کے ساتھ پھیلا اور تناسب کے لحاظ سے ہندستان سے کئی گنا زیادہ وہاں کی آبادی ہے۔ آج بھی دنیا کے ہر کونے اور ہر گوشے میں اسلام پھیل رہا ہے، خاص طور پر مغربی ممالک میں۔ وہاں مسلمان نہ حکمراں ہیں اور نہ کوئی ان کی تلوار اور طاقت ہے۔ اس سے بڑا ثبوت کیا ہوسکتا ہے۔ اسلام طاقت کے زور پر نہ پھیلا ہے اور نہ پھیلے گا۔ پہلے بھی تبلیغ و اشاعت سے اسلام پھیلا ہے اور ابھی بھی تبلیغ و اشاعت سے ہی پھیل رہا ہے۔ (ع-ع)
آج برصغیر میں 20/22 کروڑ سے زیادہ مسلمان بستے ہیں۔ دنیا میں یہ مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد بنتی ہے۔ جب اسلام انڈیا میں داخل ہوا تھا تو اس علاقے کے لوگوں نے اسلام کی ترویج و اشاعت میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ آج اس بارے میں بہت سے نظریات پائے جاتے ہیں کہ برصغیر میں کیسے اتنی زیادہ تعداد میں لوگوں نے اسلام قبول کرلیا۔ اس وقت ہندستان میں کچھ سیاسی و مذہبی ہندو تحریکیں اسلام کو غیر ملکی بنانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ آج یہ پروپیگنڈہ زوروشور سے کیا جارہا ہے کہ اسلام یہاں عرب اور فارسی جنگجوؤں کے ذریعے پہنچا اور یہ کہ ہندستان میں رہنے والے مسلمان دراصل ان غیرملکی مسلمان حملہ آوروں کی اولاد ہیں جو یہاں لوٹ مار کی نیت سے وقتاً فوقتاً آتے رہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ برصغیر میں اسلام کی تاریخ اس سے بہت زیادہ پرانی ہے۔
ہندستان کے قدیم مسلمان600 ء کے لگ بھگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سے بہت پہلے عرب لوگ تجارت کے ذریعے انڈیا سے رابطے میں تھے۔ عرب تاجر باقاعدگی سے انڈیا کے مغربی ساحلوں پرسامان تجارت بیچتے تھے جیسے مصالحے، سونا اور افریقی سامان وغیرہ۔ جب عربوں نے اسلام قبول کیا تو قدرتی طورپر اسلام عرب تاجروں کے ذریعے ہندستان کے ساحلوں پر پھیلنا شروع ہوگیا۔ انڈیا میں پہلی مسجدکیرالہ کے مقام پر حضور ؐ کے دور میں ہی 629 ء میں تعمیر ہوئی۔ اس طرح عرب مسلمانوں اور انڈیا کے مقامی مسلمان تاجروں کے ذریعے اسلام تیزی سے انڈیا کے ساحلی علاقوں اور قصبوں میں رابطوں کے ذریعے پھیلتا چلا گیا۔
محمد بن قاسم:اسلام کی انڈیا میں مزید اشاعت خاندان بنو اُمیہ کے دور میں ہوئی جب دمشق میں بیٹھے اموی خلیفہ نے 711 ء میں بنو امیہ کے ایک نوجوان لڑکے محمد بن قاسم جس کا تعلق طائف سے تھا، کو اموی اقتدار کو سندھ میں توسیع دینے کیلئے مقرر کیا؛ چنانچہ محمد بن قاسم 6000 سپاہیوں کی فوج کے ساتھ مکران پہنچا جہاں اسے معمولی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ مکران شہر دریائے سندھ کے کنارے واقع ہے۔ محمد بن قاسم کی مکران آمد پر وہاں کے مقامی بدھ راہبوں نے اسے خوش آمدید کہا۔ زیادہ تر شہر بغیر لڑائی کے رضاکارانہ طور پر مسلمانوں کے قبضے میں آ گیا۔ ہندو حکومت کے مظالم سے تنگ بدھ مت اقلیت سے تعلق رکھنے والے مقامی لوگ بڑی تعداد میں مسلم فوج میں شامل ہونا شروع ہوگئے۔ ہندستان میں مسلمانوں کے بڑھتے ہوئے قدم روکنے کیلئے سندھ کا راجہ داہر مسلمانوں کے خلاف ہو گیا اور اپنی فوجوں کو محمد بن قاسم سے لڑائی کیلئے تیار کیا۔ 712 ء میں دونوں فوجیں فیصلہ کن جنگ کیلئے آمنے سامنے ہوئیں۔ راجہ داھر کو شکست ہوئی اور سارا سندھ مسلمانوں کے قبضے میں آگیا۔
یہ بات نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ سارے سندھ کی آبادی مسلمان نہ ہوئی۔ آج بھی اندرون سندھ کثیر تعداد میں ہندو آبادی موجود ہے۔ اصل میں مسلمان فاتحین نے کبھی بھی مقامی لوگوں کی روز مرہ زندگی کو نہیں چھیڑا۔ محمد بن قاسم نے ہندوؤں کو مکمل مذہبی آزادی فراہم کی اور بودھ مت سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو مقامی ہندو حکومت کے ظلم و زیادتی سے ہر طرح کا تحفظ فراہم کیا۔ اسی مذہبی رواداری اور انصاف کی وجہ سے ہندستان کے باقی حصوں میں رہنے والے لوگوں نے محمد بن قاسم اور اس کی فوج کو خوش آمدید کہا۔
بات کرنے کا مقصد: مسلمانوں کی انڈیا میں مسلسل تیز کامیابیوں کی ایک ہی بنیادی وجہ تھی اور وہ تھی مفتوح لوگوں کو مکمل مذہبی آزادی کی یقین دہانی۔بعد کی صدیوں میں آنے والے محمود غزنوی اور محمد تغلق وغیرہ نے بھی بغیر کسی مذہبی تبدیلی کے سب کو مکمل حقوق دیے۔ اسلام کی آمد سے پہلے پورے ہندستان میں ذات پات کابڑا مضبوط نظام موجود تھا۔ معاشرہ مختلف حصوں میں بٹا ہوا تھا۔ جب اسلام یہاں داخل ہوا تو اونچی ذاتوں کے مظالم سے تنگ آئی ہوئی پسماندہ ذاتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ بڑی تیزی سے اسلام کی طرف مائل ہوئے۔ اس کی کئی وجوہات تھیں۔ ذات پات اور نسل پرستی کے مقابلے میں اسلام کا برابری کا نظام زیادہ پسندیدہ تھا۔ ذات پات کے نظام کی وجہ سے ہندو معاشرے میں پیدا ہونے والے ہر شخص کے بارے میں معاشرہ پہلے ہی یہ تعین کر دیتا تھا کہ تم کیوں پیدا ہوئے۔ تمہاری زندگی کا مقصد کیا ہے۔ معاشرے میں تمہارا کیا مقام ہوگا۔ اس وجہ سے ہندو معاشرے میں نچلی ذات سے تعلق رکھنے والے لوگوں کیلئے معاشی ترقی، اپنی صلاحیتوں کے بھرپور استعمال اور کسی عظیم مقصدکو حاصل کرنے کیلئے کوئی مواقع نہیں پائے جاتے تھے لیکن اسلام میں داخل ہونے کے بعدسب لوگوں کیلئے یکساں مواقع ہیں کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرکے معاشرے میں نام پیدا کرسکیں اور محنت کرکے معاشی ترقی حاصل کرسکیں۔
برصغیر میں اسلام کی آمد سے پہلے اسی وجہ سے بدھ مت مذہب بہت مقبول تھاکیونکہ اس میں ذات پات کا نظام نہیں تھا روایتی طور پر جب لوگ ذات پات کے نظام سے فرار چاہتے تھے تو لوگوں کی بڑی تعداد نے بدھ مت مذہب کو قبول کیا لیکن جب اسلام آگیاتو لوگوں نے اس ذات پات کے نظام کو چھوڑنے کیلئے بدھ مت کی بجائے اسلام کی طرف پلٹنا شروع کردیا۔ ان مذاہب کی غلط تعلیمات کی وجہ سے اسلام تیزی سے لوگوں میں پھیلنے کی وجہ بنا۔ مسلمان علماء نے انڈیا کے دور دراز علاقوں کا سفر کیا اور لوگوں کو اسلام کی تعلیمات سے روشناس کروایا۔ انہوں نے زیادہ تر صوفی خیالات کی تعلیم دی اور زیادہ تر لوگوں نے صوفیانہ نقطہ نظر کو اپنایا۔ البتہ مقامی لوگوں نے اسلام قبول کرنے کے باوجود صدیوں سے چلتی آئی ہندوانہ تہذیب کے اثرات کو مکمل طور پر نہ چھوڑا اور ان ہندوانہ رسموں کے اثرات آج بھی برصغیر کے مسلمانوں میں شادی ، مرگ اور دوسرے مواقع پردیکھے جاسکتے ہیں۔
کیا اسلام طاقت سے پھیلا؟یہ اسلام پر بہت بڑا الزام ہے کہ انڈیا میں مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد کی وجہ مسلمان حکمرانوں کی زبردستی اور تشدد ہے۔یہ بات سچ ہے کہ برصغیر کے بہت سے علاقوں میں مسلمان حکمرانوں نے ہندو حکمرانوں کو شکست دے کر ان کی جگہ لی لیکن رعایاپر تشدد اور لڑائی کی کہانیاں بہت ہی کم ہیں اور ان میں سے اکثر ناقابل اعتبار ہیں۔ اگر اسلام تشد د اور جنگ سے پھیلا ہوتا تو انڈیا میں آج جو مسلمانوں کی آبادی موجود ہے وہ اس موجودہ مسلم آبادی سے کہیں زیادہ ہوتی۔ چنانچہ برصغیر کا مغربی اور شمالی حصہ مکمل طور پر اسی مسلم آبادی پر مشتمل ہوتا کیونکہ یہاں مسلمان حکمرانوں نے مسلسل کئی صدیوں تک حکومت کی ہے اگر وہ چاہتے تو تمام لوگوں کو بڑی آسانی سے مذہب تبدیل کرنے پر مجبورکرسکتے تھے لیکن ان علاقوں میں مسلمانوں کے علاوہ دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔
اس کی بجائے ہم دیکھتے ہیں کہ اسلا م پورے برصغیر میں پھیلا ہوا ہے۔ ان علاقوں میں بھی جہاں کبھی بھی مسلمانوں کی حکومت نہیں رہی۔ مثال کے طور پر بنگلہ دیش اور اس کی15 کروڑ سے زائد مسلم آبادی بہت دور مشرقی علاقے میں موجود ہے جو کثیر آبادی والے علاقوں سے بہت دور ہے۔ کم آبادی والی مسلم آبادیاں مغربی میانمار، سنٹرل انڈیا اور سری لنکا کے مشرقی حصے میں موجود ہیں جوکہ برصغیر میں اسلام کے پرامن طریقے سے پھیلنے کا ثبوت ہے کیونکہ ان علاقوں پر شاذ و ناذر ہی مسلمانوں کی حکومت رہی ہے۔ اگر اسلام تشدد سے پھیلا ہے جیسے کہ آج کچھ لوگ کہتے ہیں تو یہ مسلم آبادیاں ان علاقوں میں موجود نہ ہوتیں۔اسلام ہندستان اور اس کی تاریخ کا اہم حصہ ہے؛ حالانکہ برصغیر بہت سے عقائد اور مذاہب رکھنے والا علاقہ بن چکا ہے۔ آج کے دور میں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اسلام اس علاقے میں اپنی ایک خاص پوزیشن رکھتا ہے۔ انڈیا اور دوسرے لوگوں کو اس سچائی کو بیان کرنے کی ضرورت ہے کہ اسلام انڈیا میں پر امن طریقے سے پھیلا۔lmu