ڈاکٹر جاوید عالم خان
اس سال فروری میں عبوری بجٹ پیش کرنے کے دوران وزارت برائے اقلیتی امور کا مجموعی بجٹ گھٹ کر3097کروڑ روپے ہوگیا تھا جوکہ مالی سال 2022-23میں5020 کروڑ روپے تھا۔ بجٹ تخفیف کے بارے میں مرکزی وزارت برائے خزانہ کا یہ کہنا تھاکہ صوبوں اور ضلعی سطح پر نافذ کی جارہی اسکیمیں بہتر ڈھنگ سے مختص بجٹ نہیں خرچ کر پارہی ہیں، اسی لیے مرکزی وزارت برائے اقلیتی امور کے بجٹ میں تخفیف کی گئی ہے۔ حالانکہ مرکزی وزارت خزانہ کی یہ دلیل بے بنیاد ہے۔ دراصل مجموعی بجٹ تخفیف کی اہم وجہ کئی ساری اقلیتی اسکیموں کو بند کردینا ہے جیسے کہ پری میٹرک اسکالرشپ جو پہلے درجہ ایک سے10تک دی جارہی تھی وہ اب9اور10کے طلبا کو ہی فراہم کی جارہی ہے۔ مدرسہ جدید کاری اسکیم، مولانا آزاد فیلوشپ، نئی اڑان اور مولانا آزاد فاؤنڈیشن کو مکمل طور سے بند کردیا گیا ہے۔ ان ساری وجوہات کی بنا پر اقلیتی امور کی وزارت کا بجٹ2022-23 کے مقابلے تقریباً 40فیصد گھٹ گیا تھا۔ بجٹ کے تجزیہ سے پتا چلتا ہے کہ دلتوں، قبائلیوں اور معذوروں سے متعلق وزارتوں اور شعبوں کے موجودہ بجٹ میں بہت زیادہ اضافہ تو نہیں کیاگیا تھا لیکن ان کے بجٹ کو گھٹایا بھی نہیں گیا تھا۔ دلتوں اور قبائلیوں کی وزارت کے بجٹ میں بالترتیب 13000,20 اور 13000 کروڑ روپے مختص کیے گئے تھے۔ حالانکہ ان وزارتوں اور شعبوں کی اسکیموں میں بجٹ خرچ کی صورتحال بہت بہتر نہیں رہی ہے۔ اس کے باوجود ان وزارتوں کے بجٹ میں کوئی تخفیف بھی نہیں کی گئی ہے۔
یہ امید کی جارہی ہے کہ23جولائی کو آنے والے مالی سال کیلئے مکمل بجٹ پیش کرنے کے دوران مرکزی وزیر خزانہ اپنی تقریر میں ملک کے عوام کے سامنے 2047 تک ہندوستان کو وکست بھارت بنانے کا ایجنڈا پیش کرنے والی ہیں، مگر اب یہ دیکھنا ہے کہ ملک کی کل آبادی میں20فیصد اقلیتی طبقے کی ترقی کے بارے میں وہ کوئی مضبوط تجویز پیش کرتی ہیں یا نہیں۔ عبوری بجٹ میں اقلیتوں کی فلاح وبہبود کیلئے چلائی جارہی مرکزی وزارت برائے اقلیتی امور کے بجٹ میں تخفیف کی گئی تھی اور مجموعی بجٹ میں اس کا تناسب مزید گھٹ کر .06 فیصد ہوگیا تھا۔ یہاں تک کہ مختص بجٹ گزشتہ دس سالوں میں سب سے کم ہوگیا تھا۔ 2022-23میں وزارت برائے اقلیتی امور کے مختص بجٹ کے اخراجات کے تجزیہ سے پتا چلتا ہے کہ کل مختص بجٹ 5020 کروڑ روپے کی جگہ حقیقی خرچ803 کروڑ روپے ہی کیا گیا جوکہ مختص بجٹ کا 16فیصد ہے۔
اقلیتی بہبود کی وزارت کی اہم اسکیموں میں پردھان منتری جن وکاس کاریہ کرم، پوسٹ میٹرک اسکالرشپ، پری میٹرک اسکالرشپ، فری کوچنگ اسکیم اور میرٹ کم مینس اسکیم کے کل بجٹ مختص میں بجٹ اخراجات کا فیصد بالترتیب 13 فیصد، 6 فیصد، 3 فیصد، 32 فیصد اور 10 فیصد کے آس پاس ہے، اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اقلیتوں کیلئے ترقیاتی اسکیموں کا نفاذ بہت کمزور ہے۔
اقلیتوں کیلئے ہمہ جہتی ترقی کیلئے2006سے مرکزی حکومت کے ذریعے دو طرح کی پالیسی حکمت عملی کا آغاز کیا گیا تھا جن کو ہم اقلیتوں کی ترقی کیلئے وزیراعظم کا 15 نکاتی پروگرام اور ملٹی سیکٹورل ڈیولپمنٹ پروگرام کے نام سے جانتے ہیں۔ پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس میں ممبران پارلیمنٹ کے ذریعے اقلیتوں کی ترقی و فلاح وبہبود کے اسکیموں کی نفاذ پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔ اس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ اقلیتوں کیلئے نافذ کی جارہی اسکیموں کی صورتحال بہتر نہیں ہے۔ حالانکہ اقلیتوں کی ہمہ جہتی ترقی کو یقینی بنانے کیلئے 15 نکاتی پروگرام کو نافذ کیاجارہاہے اور اس کے تحت اقلیتی طبقہ کیلئے مختلف وزارتوں کے ذریعے چلائی جارہی کئی اسکیموں میں 15 فیصد بجٹ بھی مختص کیا جارہاہے اور ساتھ ہی اس پروگرام کے تحت 15 فیصد مستفیدین کا ہدف بھی رکھاگیا ہے۔ ان تمام دعوؤں کے باوجود مرکزی وزیر خزانہ نے اس سے متعلق کوئی اعدادوشمار اس بجٹ میں پیش نہیں کیے ہیں۔ اس سے یہ پتا چلتا ہے کہ اقلیتیں مرکزی وزارت برائے اقلیتی امور کے ذریعے نافذ کی جارہی اسکیموں پر پوری طرح سے منحصر ہیں۔ اس وقت جن اسکیموں سے اقلیتیں 100 فیصد فائدہ اٹھا سکتی ہیں، ان میں سے کچھ اہم اسکیمیں جیسے کہ پری میٹرک اسکالرشپ اسکیم، پوسٹ میٹرک اسکالرشپ اسکیم، میرٹ کم مینس اسکیم، پردھان منتری جن وکاس کاریہ کرم، نیشنل مائنارٹیزڈیولپمنٹ فائنانس کے ذریعہ لون اسکیم اور پردھان منتری وراثت کا سموردھن شامل ہیں۔
اس کے علاوہ 15 نکاتی پروگرام کے ذریعے عمومی اسکیموں میں 15 فیصد بجٹ مختص کرنے کا وعدہ 2004 میں کیاگیا تھا جیسے کہ تعلیم کیلئے سمگر شکشا ابھیان(وزارت برائے تعلیم)، روزگار کیلئے دین دیال انتودیا یوجنا یا نیشنل رورل لائولی ہوڈ مشن، اسکل ڈیولپمنٹ کیلئے دین دیال اپادھیائے گرامین کوشل یوجنا، گھروں کی فراہمی کیلئے پردھان منتری آواس یوجنا (وزارت برائے دیہی ترقی)، نیشنل اربن لائولی ہوڈ مشن(وزارت برائے شہری امور اور ہاؤسنگ)، بینکوں کے ذریعے ترجیحی سیکٹر کیلئے قرضہ جات، پردھان منتری مدرا یوجنا (مالی خدمات کا شعبہ)، پوشن ابھیان(وزارت برائے خواتین اور بچوں کی ترقی) نیشنل ہیلتھ مشن اور آیوشمان بھارت (وزارت برائے صحت اور خاندانی بہبود) اور پینے کے پانی کی فراہمی کی قومی اسکیم(پانی اور صفائی ستھرائی کا شعبہ) شامل ہیں۔
اگر 15نکاتی پروگرام کے تحت اسکیموں میں اقلیتوں کیلئے مختص بجٹ کا استعمال صحیح طریقہ سے کیا جاتا تو اقلیتوں کی ترقی کی صورتحال کافی بہتر کی جاسکتی تھی۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ اس کے ذریعے فائدہ اٹھانے والوں کی تعداد کے بارے میں مکمل طور سے اعدادوشمار مہیا نہیں کرائے جارہے ہیں۔ جن اسکیموں سے 100 فیصد اقلیتی طبقہ فائدہ اٹھا رہا ہے، ان میں سے ایک اہم اسکیم نیشنل مائنارٹیز ڈیولپمنٹ اینڈ فائنانس کارپوریشن ہے لیکن عبوری بجٹ میں اس ادارے کے مختص فنڈ میں کوئی خاص اضافہ نہیں کیا گیا تھا جبکہ حکومت کے ذریعہ پیش کی گئی حالیہ تجزیاتی رپورٹ کے مطابق این ایم ڈی ایف سی کے تحت 8300 کروڑ روپے کا لون 22.5لاکھ مستفیدین کو فراہم کرایا گیا تھا۔ اس کے تحت فائدہ اٹھانے والے لوگوں میں 85 فیصد عورتیں ہیں۔ یہ ادارہ اقلیتوں کے پسماندہ طبقے کی سماجی اور اقتصادی صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے قائم کیاگیا تھا، اس اسکیم کے تحت پیشہ ورانہ گروپ اور عورتوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔
2023-24 کے بجٹ میں مرکزی حکومت نے پردھان منتری وکاس سموردھن اسکیم کا آغاز کیا جس کے تحت 540کروڑ روپے مختص کیے گئے تھے۔ حالانکہ 2024-25 کے بجٹ میں اس اسکیم کے تحت بجٹ تخمینہ اور نظرثانی بجٹ شدہ بجٹ میں تخفیف کردی گئی ہے۔ اس اسکیم میں ہنرمندی، انٹرپرینیورشپ اور صنعت کاروں کو مالی اور تکنیکی سہولتیں مہیا کرائی جائیں گی۔ یہ اسکیم اسکل انڈیا مشن کے اشتراک میں کام کرے گی۔ اسکیم کے تحت 2025-26 تک9لاکھ لوگوں کو فائدہ حاصل ہوگا۔ چونکہ اس اسکیم کو 2023-24 میں شروع کیاگیا تھا، اس لیے اس کے نفاذ کی صورتحال کا بہتر جائزہ لینا مشکل ہے، اس لیے اس اسکیم کے تحت اعدادوشمار سرکاری سطح پر مکمل طور پر مہیا نہیں کرائے گئے ہیں۔
اقلیتی اکثریتی بلاک، ٹاؤن اور ضلع ہیڈکوارٹر میں سماجی اور اقتصادی انفرااسٹرکچر کو مضبوط بنانے کیلئے پردھان منتری جن وکاس کاریہ کرم کا نفاذ کیاجارہاہے۔ 2022-23 میں اس اسکیم کی گائیڈ لائن میں تبدیلی کی گئی ہے اور اس کے تحت پروجیکٹ کی منظوری اقلیتوں کی ضرورتوں کی بنیاد پر دی جائے گی جہاں پر(15 کلومیٹر کے دائرے میں)25فیصد اقلیتوں کی آبادی رہائش پذیر ہے۔ 2023-24 میں اس اسکیم کے تحت مختلف طرح کے پروجیکٹس کی منظوری دی گئی ہے جس میں اسکول کی عمارت ، رہائشی اسکول، ہاسٹل، آئی ٹی آئی، اسکل سینٹر، ہاسپٹل، صحت کے مراکز، سدبھاؤنا منڈپ، کمیونٹی ہال، اسپورٹس کمپلیکس اور کام کرنے والی عورتوں کیلئے ہاسٹل۔ اس اسکیم کے تحت مختص بجٹ کا استعمال پوری طرح سے نہیں کیا جارہا ہے۔ 2022-23میں اس اسکیم کے تحت 1650 کروڑ روپے مختص کیے گئے تھے لیکن حکومت کے ذریعے پیش کیے گئے نظرثانی شدہ تخمینہ کے مطابق صرف 500کروڑ روپے مختلف منصوبوں کے لیے جاری کیے گئے، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بجٹ 2023-24 میں جن وکاس کاریہ کرم کیلئے صرف600کروڑ روپے ہی مختص کیے گئے۔ اگرچہ 2024-25کے عبوری بجٹ میں اس اسکیم میں اضافہ تو ضرور ہوا تھا مگر2023-24 کے نظرثانی شدہ بجٹ میں اخراجات مزید کم ہوگئے ہیں۔
لہٰذا یہ امید کی جاتی ہے کہ آنے والے بجٹ میں مرکزی حکومت وزارت برائے اقلیتی امور کے بجٹ کو گھٹانے کے بجائے اس میں اضافہ کرے گی۔ اس سے یہ ثابت ہوگا کہ حکومت اقلیتوں کے سماجی، سیاسی اور اقتصادی معاملات میں متعصبانہ رویہ کے بجائے اس طبقے کو وکست بھارت کی مہم میں شامل کرنے والی ہے۔ حکومت سے یہ بھی درخواست ہے کہ اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کی تعلیمی اور اقتصادی پسماندگی کو دیکھتے ہوئے وزارت برائے اقلیتی امور کے بجٹ کو دلتوں اور قبائلیوں کے مختص بجٹ کے برابر رکھے۔ ساتھ ہی جن اسکیموں کو بند کیا ہے، انہیں بحال کیا جانا چاہیے۔ مزید اسکالرشپ اسکیموں میں اہلیت، مالی تعاون اور کوٹہ یا اسکالرشپ کے نمبرات میں اضافہ کیا جانا چاہیے۔ وزیراعظم کے 15نکاتی پروگرام کو دلتوں اور قبائلیوں کیلئے چلائے جارہے سب پلان کی طرز پر نافذ کیا جانا چاہیے۔
(مضمون نگار انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اینڈ ایڈووکیسی سے وابستہ ہیں۔)
[email protected]