دہشت گردی کا جڑ سے خاتمہ ضروری

0

ڈاکٹر منیش کمار چودھری
سال 1982 میں فلم آئی تھی ’بے مثال‘۔ اس فلم کا گانا تھا- ’’کتنی خوبصورت یہ تصویر ہے۔۔۔ ارے موسم بے مثال بے نظیر ہے۔۔۔ یہ کشمیر ہے، یہ کشمیر ہے۔۔۔ کس نے سوچا ہوگا کہ یہ تعریف ایک دن کشمیر میں لہولہو ہوجائے گی۔ جموں و کشمیر میں بڑھتے دہشت گردانہ واقعات نے ایک بار پھر حفاظتی انتظام پر سوال اٹھایا ہے۔ جموں کا جو علاقہ پرامن تھا، وہ پھر سے بدامنی کا شکار ہوگیا ہے جہاں دہشت گردانہ واقعات انجام دیے جارہے ہیں۔ مرکزی حکومت کی مسلسل یہ کوشش رہی ہے کہ جموں و کشمیر میں امن بحال ہو اور عوام مین اسٹریم سے جڑیں۔ مرکزی حکومت کے نمائندہ اور جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا بھی مسلسل کوشاں ہیں۔ ان کا کام کرنے کا اندازبغیر شور کیے اپنے ہدف تک پہنچنے میں یقین رکھتا ہے۔ سال 2021 کے بعد پونچھ، راجوری اور جموں کے ساتھ ساتھ پیرپنجال رینج کے جنوبی علاقوں میں دہشت گردانہ سرگرمیوں میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ یہ بے حد تشویشناک ہے۔ جموں میں سال 2022اور 2023میں سیکورٹی فورسز پر کئی حملے ہوئے ہیں۔ یہ سال اس معنی میں اور بھی زیادہ افسوسناک رہا ہے۔ درجنوں جوان شہید ہوئے ہیں۔ ان دہشت گردانہ واقعات کے پیچھے کئی تنظیمیںاور ایجنسیاں سرگرم ہیں۔ اس کے پس منظر میں پاکستان اور چین کو دیکھا جاسکتا ہے۔ جموں کے علاقوں میں دہشت گردی کی رسائی ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ وادی کو دہشت گردانہ سرگرمیوں کا سینٹر سمجھا جاتا ہے۔ جموں نسبتاً پرامن سمجھا جاتا رہا ہے۔ اسی کا فائدہ دہشت گرد تنظیموں نے اٹھایا ہے۔ جب جموں میں دہشت گردی آہستہ آہستہ اپنی جڑوں کو جمارہی تھی ، تب ہماری سیکورٹی ایجنسیوں کو اس کی کوئی خبر تک نہیں ہوئی۔ ان کی ساری توجہ وادی پر مرکوز تھی۔ دراصل دہشت گرد تنظیمیں جموں میں حملہ کرکے یہ پیغام دینا چاہتی ہیں کہ ان کی گرفت میں مرکز کے زیرانتظام پوری ریاست ہے۔ دہشت گردوں کے لیے علاقہ اہم نہیں ہے بلکہ دہشت زدہ کرنا ہدف ہے۔ اس لیے پہلے پرامن علاقوں میں اپنی جڑوں کو مضبوط کیا پھر دہشت گردانہ واقعات کو انجام دیا۔ جموں و کشمیر کے دہشت گردی کے مسئلہ کو ختم کرنے اور ملک کی خودمختاری کی سیکورٹی کے لیے حکومت نے متنازع دفعہ 370کو ہٹایا۔ حکومت کا یہ فیصلہ ایک حد تک صحیح اور ضروری بھی تھا۔ لیکن جموں و کشمیر کے عوام حکومت کے منصوبوں اور پالیسیوں پر اپنے اعتماد کا اظہار نہیں کرپائے۔ اس مسائل کی جڑیں کافی گہری ہیں۔ جموں وکشمیر میں دہشت گردی کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ اس کی شروعات 1990کی دہائی میں ہوتی ہے۔ تب سے لے کر اب تک جموں و کشمیر کی زمین ناپاک ارادوں کی وجہ سے لہولہو ہوتی رہی ہے۔مرکز میں نئی حکومت کی تشکیل کے بعد جموں و کشمیر میں دہشت گردانہ واقعات میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔ ان کے نشانے پر عوام ہیں۔ آخر کیا ہے جموں کو دہشت کے نشانہ پر لانے کا مقصد۔ پاکستان کی حمایت یافتہ دہشت گردی کی جب کشمیر میں کمر توڑ دی گئی تب وہ نئے ٹھکانے جموں میں بنانے لگی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر جموں ہی کیوں؟ اس کا جواب بہت آسان ہے کہ جموں جغرافیائی طور پر جنگلوں سے گھرا ہے، جہاں دہشت گردوں کو آسانی سے نشانہ نہیں بنایا جاسکتا ہے۔ دوسری بات یہ بھی ہے کہ اس کے بہانے وہ مکمل جموں و کشمیر میں اپنی دہشت کو دکھانا چاہتے ہیں۔ دہشت اور تشدد پیدا کرنا ان کی ترجیحات ہیں۔ نئی حکومت کی حلف برداری کے دن تیرتھ یاتریوں پر ہوئے حملوں نے ان کے منصوبوں کو ظاہر کردیا ہے۔ کشمیر کو چھوڑ کر جموں کو نیا نشانہ بنانے کے پیچھے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مرکزی حکومت نے کشمیر میں فوج اور مختلف ایجنسیوں کے ذریعہ دہشت گردی کے ڈھانچوں پر اس طرح سے شکنجہ کسا کہ وہ تقریباً نیست و نابود ہوگئے۔ ان کے سبھی نیٹ ورک کو ختم کردیا گیا۔ جبکہ پاکستان کی پہلی پسند کشمیر ہی رہا ہے۔ وہاں بدامنی اور اشتعال پیدا کرنا پاکستان کا پرانا شغل رہا ہے۔ سیکورٹی ایجنسیاں اس حقیقت سے انکار نہیں کرتی ہیں کہ دہشت گردی کو دوبارہ زندہ کرنے میں پاکستان اور چین کے درمیان سازباز ہو۔ چین کا ہدف ممکنہ طور پر لداخ سے فوجیوں کو ہٹانے کے لیے دباؤ بنانے کی حکمت عملی کا یہ حصہ ہو۔ یہ بات بھی طے ہے کہ دہشت گردی کا کوئی فوجی حل نہیں ہوسکتا۔ سیکورٹی فورسز کا رول صورت حال کو معمول پر رکھنا ہے، جس سے کہ نظم و نسق کی صورتحال کو کنٹرول کیا جاسکے۔ مسئلہ کشمیر کا مستقل حل تبھی مل سکتا ہے جب مسئلہ کی بیرونی اور اندرونی دونوں وجوہات کو متوازن کیا جائے۔ اس سمت میں ہندوستان نے ہمیشہ مثبت پہل کی ہے۔ جموں و کشمیر میں ہونے والے آئندہ انتخابات کے مدنظر یہ واقعہ اور بھی تشویش کی بات ہے۔ ایک مستقل جمہوری حکومت کی تشکیل کا جواز سیکورٹی، تعاون، مواقع اور بہتر عوامی سہولیات کی فراہمی پر مبنی ہوتا ہے۔ دہشت گردوں کے بدامنی اور تشدد پھیلانے کی بدنیتی پر مبنی کوششوں سے نمٹنے کے لیے ہندوستان کو جدید ٹیکنالوجی کا مؤثر استعمال کرنے والی انسداد دہشت گردی کی حکمت عملی تیار کرنی ہوگی۔ ہندوستانی سیکورٹی فورسز کے سامنے سب سے بڑا چیلنج ہے دہشت گردی کا بدلتا ہوا چہرہ، حکمت عملی اور ڈھانچہ۔ مقامی شہریوں کو اعتماد میں لیے بغیر جموں وکشمیر میں امن کی بحالی تقریباً ناممکن ہے۔ کشمیر کے لوگوں کے جذبات کو سمجھے بغیر کسی حتمی فیصلہ تک نہیں پہنچا جاسکتا ہے۔ سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی نے کہا تھا کہ انسانیت اور جمہوریت کے دائرہ میں رہتے ہوئے ہم سب کچھ جموں و کشمیر کے لیے کرنے کو تیار ہیں۔ آج دفعہ 370 کے ہٹنے کے بعد نئے سرمایہ کاروں اور روزگاروں کی دستیابی نے نوجوانوں کے اندر بہتر مستقبل کے تصور کو ٹھوس بنیاد دی ہے۔ جموں و کشمیر میں مثبت تبدیلی کی پہل مرکزی حکومت کی توجیح ہے۔ کشمیری لوگوں کے دل اور دماغ کو جیتنے، ان کی تکلیف اور نظراندازکیے جانے کے احساسات کو سمجھتے ہوئے ہمدردی سے پیش آنا اور ان کے زخمی اور داغدار وقار کو دوبارہ بحال کرنے کے لیے ایک سیاسی اور سماجی مہم کی ضرورت ہے۔ جموں و کشمیر کے لوگوں کو اس حقیقت کو قبول کرنے کی ضرورت ہے کہ ان کا محفوظ اور پروقار مستقبل ہندوستان کے ساتھ ہے۔ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ہمیں کنٹرول اور خودمختاری دونوں کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔ ایک وسیع بلیوپرنٹ کی بنیاد پر ہی جموں کشمیر کے مسائل سے نمٹا جاسکتا ہے۔ دوبارہ آباد لوگوں کو مین اسٹریم میں لاکر لوگوں کی خوداعتمادی میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ جموں و کشمیر کے تعلق سے باتیں بہت ہوئی ہیں، اب وقت فیصلہ کن اور ٹھوس قدم اٹھانے کا ہے۔ فوج کے حوصلے کو بڑھانے کا ہے۔ ایک طرف سے سفارتی حملہ اور دوسری طرف فوج کے ذریعہ کارروائی۔ اس بار پاکستان کے ناپاک منصوبوں کا ٹھوس جواب دینا اور طویل مدتی ردعمل ظاہر کرنا وقت کی ضرورت ہے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS