آزاد انہ مذاکرہ اور بحث کے دور کا آغاز : پروفیسر عتیق احمدفاروقی

0

پروفیسر عتیق احمدفاروقی
اٹھارویں لوک سبھا میں پارلیمانی بحث کی پرانی روایت اب لوٹتی نظر آرہی ہے۔ صدرجمہوریہ کے خطاب کے بعد شکریہ تجویز پر ہوئی چرچہ اسکا ایک ثبوت ہے۔ اس چرجہ میں راہل گاندھی، اکھلیش یادو،اے راجااورمہواموئتراجیسے حزب اختلاف کے لیڈران کے الزامات پر وزیراعظم نریندرمودی کے پلٹ وار سے یہی امید تھی کہ زیریں ایوان میں اس بار معنی خیز بحث دیکھنے کو مل سکتی ہے اورایسا ہوابھی ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ راہل گاندھی اوراکھلیش یادو کے سوالات کاجواب نریندرمودی ،راجناتھ سنگھ اورامت شاہ وغیرہ اطمینان بخش انداز میں نہیں دے پائے۔ خصوصاً اگنی ویر، حکمراں جماعت کی نفرت آمیز اورتشدد کو فروغ دینے والی پالیسی ، وزیراعظم کا خود کو بایالوجیکل نہ ماننا جیسے معاملوں میں اُن کی باتیں بے وزن معلوم ہوئیں۔ دراصل بیساکھی پر چلنے والی حکومت کی قیادت کرنے کے سبب مودی جی پارلیمانی بحث میں کچھ گھبرائے اوربے چین نظرآئے۔ یہ سب کچھ اس لئے ممکن ہوسکاہے کیونکہ اب کی بار عام الیکشن میں حزب اختلاف کو نئی توانائی ملی ہے۔ گزشتہ دس برسوں سے تو ایوان میں حزب اقتدار کی ہی آواز سنائی دیتی رہی ہے۔ کم تعداد کے سبب حزب مخالف کے لیڈران یا تو خاموش بیٹھے رہے یا ان کو باہر کا راستہ دکھادیاگیا۔ حالانکہ حزب اقتدار کی طرف سے بھی گنے چنے ارکان ہی بولاکرتے تھے جس سے یہ لگنے لگاتھا کہ ایوان میں سنجیدہ بحث کا دور تاریخ بن چکاہے۔
لیکن اب حزب مخالف پورے جوش کے ساتھ قانون سازی کے میدان میں لو ٹ آیاہے۔ اس کے پاس ابھی 233نشستیں ہیں اورتعدادی قوت کے لحاظ سے وہ بی جے پی کی 240نشستوں کے تقریباً برابر ہی ہے۔ ایسے میں وہ زور دار طریقے سے اپنی باتیں رکھ رہاہے۔ خاص بات یہ بھی ہے کہ اس بار لوک سبھا میں راہل گاندھی کوباضابطہ طور پر حزب اختلاف کا لیڈر بنایاگیاہے جو یہ دعویٰ بھی کررہے ہیں کہ وہ کانگریس کے ہی نہیں بلکہ پورے حزب اختلاف کے لیڈر ہیں۔ لہٰذا وزیراعظم بھی اس وقت ایوان میں موجود تھے جب بطور لیڈر حزب مخالف راہل اپنی باتیں کہہ رہے تھے۔ یہی ہندوستان کی پارلیمانی روایت بھی رہی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب اٹل بہاری باجپئی ملک کے وزیراعظم تھے تب لوک سبھا میں حزب مخالف کی لیڈر سونیا گاندھی تھیں ۔ لہٰذا وہ جب بولا کرتیں تو باجپئی جی ایوان میں حاضر رہنے کی کوشش کرتے۔ انہوں نے اپنے اسٹاف تک سے کہہ رکھاتھا کہ جب کبھی بھی سونیا گاندھی کا خطاب ہو انہیں فوراً بتایاجائے تاکہ وہ ایوان میں موجود رہ سکیں۔ کبھی کبھی تو ان کو تیز قدموں سے لوک سبھا میں پہنچتے ہوئے دیکھاگیا۔ اچھی بات یہ ہے کہ لوک سبھا میں اب وہ سنہرے دن لوٹتے دِکھ رہے ہیں۔ لمبے عرصے کے بعد یہ پہلا موقع تھا جب وزیراعظم نریندرمودی نے کسی مخالف جماعت کے لیڈر کو دو-دوبار ٹوکا عام طور پر وزیراعظم مودی کی یہ عادت نہیں رہی ہے۔ وہ ایوان میں خاموش بیٹھتے ہیں اورپوری سنجیدگی سے حزب مخالف کے لیڈر کی باتیں سنتے ہیں۔ حالانکہ یہ تھوڑی کچوٹنے والی بات ہے کہ جب پارلیمان میں بحث کے پرانے دن لوٹ رہے ہیں تب بھی گنے چنے لوگوں کو ہی ناظرین سیکشن میں جانے کی اجازت مل پارہی ہے۔ یہاں تک کہ مستقل کارڈ ہولڈرس کو بھی ایوان میں داخل ہونے میں مشکلات آرہی ہیں، جس کے سبب بحث کے دوران اہم شخصیات کے رد عمل اورتاثرات کو جاننا مشکل ہوسکتاہے۔
بہرحال حزب اختلاف کے لیڈر نے اپنے خطاب میں بھگوان’ شیو‘کی تصویر دکھانے کے ساتھ ساتھ اسلام اورقرآن کی بھی چرچہ کی ، بودھ مذہب کے بارے میں کہا اورجیسس وگرونانک کے فوٹو بھی دکھائے۔ ضابطہ کے مطابق ایوان میں تصویر یا کارڈ وغیرہ نہیں دکھائے جاسکتے مگرایسا لگتاہے کہ راہل گاندھی نے جان بوجھ کر ایسا کیا جو آنے والے دنوںمیں حزب اختلاف کی حکمت عملی کا اشارہ دے رہاہے۔ پہلا اشارہ تو یہی ہے کہ حزب اختلاف کے ذریعے بی جے پی سے ہندوتوا کی ٹھیکیداری کے دعوے کو چھیننے کی کوشش کی جائے گی۔ گزشتہ دس برسوں میں حکمراں جماعت کی طرف سے یہ بتانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے کہ ہندو مذہب کا وہ تنہا سرپرست ہے ، لیکن اب حزب اختلاف اس تصور کو ختم کرنے کیلئے کمر کس چکاہے۔ ویسے اس کی شروعات چناؤ کے دوران ہی ہوگئی تھی، پر تب یہ اس قدر نظروں میں نہیں آسکاتھاجتنا لوک سبھا کی بحث کے بعدآیاہے۔ دوسرا پیغام یہ ملاہے کہ انتخابی مہم میں جب مخالف جماعتیں ذات پر مبنی مردم شماری کو مدعہ بنارہی تھیں ، تب وزیراعظم نے کہاتھا کہ خواتین ،کسان، نوجوان اورغریب طبقہ .یہی چار ان کیلئے سب سے بڑی ذاتیں ہیں اوران کی ترقی سے ہندوستان ترقی یافتہ بنے گا۔ مخالف جماعتیں اب بی جے پی کو گھیرنے کیلئے اِنہیں چاروں کا استعمال کرسکتی ہیں اوراِن ذاتوں سے جڑی پالیسیوں پر جارح ہوسکتی ہیں۔اگنی ویرونیٹ جیسے مدعوں کی بار بار چرچہ اِسی لئے کی جارہی ہے۔ شمالی ہندوستان کے نوجوانوں میں فوجی بننے کی تمنا خوب رہتی ہے مگر ’اگنی ویر‘منصوبے سے اُن میں تھوڑی مایوسی بڑھی ہے۔ تبھی حزب اختلاف کے لیڈران نے اپنی تقریر میں نوجوانوں کی اِس تشویش کا ذکر کرتے ہوئے خواتین پر بھی بات کی۔
تیسری بات ، مخالف پارٹیوں کی پالیسی ایسی لگ رہی ہے کہ وہ ہندو مذہب پر سب کا دعویٰ جتاتے ہوئے سیکولر ازم کو فروغ دیناچاہتے ہیں۔ بھگوان ’شیو‘کے ساتھ گرو نانک ،عیسیٰ مسیح وقرآن کی تصویریں دکھانے کا مطلب ہندو مذہب اورسیکولرازم کو جوڑنا تھا۔ ہندو امن پسند ہوتے ہیں اوروہ سبھی مذاہب کا احترام کرتے ہیں، ایسی باتیں اس لئے کہی گئی ہوسکتی ہیں تاکہ سیکولرازم کو دوبارہ بحث کی مین اسکیم میں لایاجاسکے۔ ظاہر ہے، اس بار مدعے اہم ہوں گے۔ کسانوں کو ’منمم سپورٹ پرائس‘(ایم ایس پی )کی قانونی گارنٹی اگنی پت منصوبے کی واپسی،نیٹ پر بحث وغیرہ عام لوگوں سے جڑے مسئلے ہیں، لہٰذا بی جے پی وحکومت کی کوشش مخالف جماعتوں کی اس جارحیت کا معقول جواب دینے کی ہوگی۔ حالانکہ اتحادی پارٹیوں کا رویہ اسے پریشان کرسکتاہے۔ دراصل اس کی دوبڑی اتحادی پارٹیاں تیلگو دیشم اورجنتا دل( یونائٹڈ)کے اپنے اپنے الگ مدعے ہیں۔ چندرا بابو نائیڈو جہاں اپنی دارالحکومت امراوتی کیلئے پیسے جٹانے ، آندھرا پردیش کو خصوصی ریاست کا درجہ دلانے اورجگموہن ریڈی سے دو-دوہاتھ کرنے میں جٹے ہوئے ہیں۔ وہیںنتیش کمار اگلے سال ہونے والے بہار اسمبلی انتخاب کی تیاری میں مصروف ہیں۔ یہی سبب ہے کہ پارلیمان میں راہل گاندھی کی تقریر کے دوران جتنا بی جے پی کے لوگ کھل کر بول رہے تھے این ڈی اے کی اتحادی پارٹیاں اتنی دلچسپی نہیں لے رہی تھیں۔ وہیں وزیراعظم کے خطاب کے وقت حزب اختلاف ایک جٹ ہوکر مخالفت کرتارہا۔ لہٰذا اس حقیقت سے انکار نہیں کیاجاسکتاکہ قریب دس برس بعد ہندوستان میں حقیقی جمہوریت بحال ہوئی ہے ۔ اسمبلی کے ضمنی انتخابات کے تازہ ترین نتائج نے یہ باور کردیاہے کہ ان کی منشا کیا ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS